سابق وزیراعظم عمران خان لاہور میں ایک بڑا جلسہ کرکے دکھا چکے، اس میں دھواں دھار خطاب فرما چکے، ''امپورٹڈ حکومت‘‘ کو تسلیم نہ کرنے کا عزم دہرا چکے، نئے انتخابات کا مطالبہ (ایک بار پھر) کر چکے اور غلطی کرنے والوں کو بتا چکے کہ جو ہو چکا سو ہو چکا، اب ازالہ کر لو، عوام کی رائے معلوم کر لو... لاہور سے پہلے پشاور اور کراچی میں بھی تحریک انصاف نے طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا اور دور و نزدیک بتا دیا تھا کہ وہ اب بھی ایک بڑی حقیقت ہے۔ اس کے حامی اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اور وہ اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری نے انہیں ایک نئی توانائی دی ہے۔ وہ اپنی کارکردگی کا حساب دینے کے بجائے دوسروں سے جواب طلب کر رہے ہیں۔ اپنے مخالفین کو میر جعفر اور میر صادق قرار دے رہے ہیں جنہوں نے امریکی سازش کو کامیاب بنایا اور ان کو ایوان اقتدار سے باہر نکلوایا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس منعقد کیا جا چکا ہے۔ اس نے ایک بار پھر وہی بات، وزیر اعظم شہبازشریف کے زیر صدارت دہرا دی جو اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت کہی جا چکی تھی کہ کوئی سازش نہیں ہوئی، ہاں ایک امریکی اہلکار کے اظہار رائے کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر نے بھی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت کی اور ارکان کو براہِ راست اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا۔ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ سفیر نے خود سفارش کی تھی کہ امریکی حکام کو مراسلہ لکھ کر پوچھا جائے کہ جو کچھ ایک اہلکار کی طرف سے کہا گیا، وہ اس کی ذاتی رائے ہے یا سرکاری مؤقف۔ گویا، معاملہ رائی کا تھا، جسے پہاڑ بنانے کیلئے سرتوڑ کوشش کی گئی۔ تحریک انصاف اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے، شاہ محمود قریشی مورچہ زن ہیں اور سابق وزیراعظم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اپوزیشن جو اب حکومت بن چکی ہے، ان کے نزدیک غداروں کا ٹولہ ہے اور وہ اسے عو ام سے سزا دلا کر رہیں گے۔
کوئی جو کہے اور جو کرے، عمران خان اپنی سی کہتے اور اپنی سی کرتے رہیں گے۔ ان کی اس ''سامراج شکنی‘‘ کا نتیجہ کیا نکلے گا، خود ان کو اس سے کیا فائدہ ہوگا اور پاکستانی ریاست کس صورتحال سے دوچار ہو گی، اسے سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے نہ صلاحیت۔ پاکستانی سیاست میں اس طرح کی حرکتیں اس سے پہلے بھی کی جا چکی ہیں اور پاکستان ان کے اثرات کو بھگت چکا ہے اور مزید بھی بھگتے کا۔ داخلی کمزوریوں پر قابو پانے کے بجائے خارجی عوامل کی تلاش کا مرض پاکستان میں نیا نہیں ہے۔ یحییٰ خان نے جب امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا انتظام کر دیا، نہایت کامیابی سے ان دونوں عالمی طاقتوں کے مابین رابطہ کرا دیا، تو ان کی پیٹھ امریکہ بہادر کی طرف سے اس طرح ٹھونکی گئی اور ان کے کارنامے کی داد اس طرح دی گئی کہ موصوف نے سمجھا، سات خون معاف ہو گئے‘ اب شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ جو کچھ بھی کر لیا جائے، امریکہ بہادر کا ساتھ نہیں چھوٹے گا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تو پہلے ہی تھے، مزید ڈھیر ہو گئے اور داخلی معاملات کو الجھاتے چلے گئے۔ امریکہ بہادر تو ان کی چھیڑی ہوئی جنگ میں ان کی مدد کو نہ آیا‘ لیکن سوویت یونین امریکہ چین گٹھ جوڑ کی راہ ہموار کرنے پر آگ بگولہ ہو گیا۔ ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہوا اور یحییٰ خان کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ پاکستان کو ایسا زخم لگا جو اب تک مندمل ہونے میں نہیں آ رہا۔
وزیراعظم عمران خان نے امریکی سازش کی دہائی دے کر اپنا اقتدار بچانا چاہا لیکن یہ دہائی الٹی پڑ گی۔ اب وہ امریکہ اور اس کے مبینہ پاکستانی حواریوں کے خلاف میدان سجائے ہوئے ہیں، لیکن اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں کہ ان کی اپنی منہ زوری نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ وہ اپنی اپوزیشن کو تسلیم نہیں کر سکے، اس کے ساتھ بات کرنے پر تیار نہیں ہوئے، اپنی جماعت کے طاقتور عناصر کو بھی سنبھال نہیں سکے اور اپنی جماعت سے باہر اپنے اتحادیوں کو بھی اپنے ساتھ نہیں چلا سکے۔ ان کے دوست ان سے کٹتے چلے گئے۔ ان کی تنہائی میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور بالآخر وہ وہاں پہنچ گئے جہاں ان کے مخالف ان کو پہنچانا چاہتے تھے۔ عمران خان ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں کر پا رہے کہ انہیں ایک دستوری نظام کے تحت کام کرنا تھا اور کرنا پڑے گا۔ ہمارا پارلیمانی نظام جیسا بھی ہے، اس کے اندر ہی قسمت آزمائی کرنا تھی، اس کے لوازمات کو پورا کرنا تھا اور پورا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ انتخابات میں انہوں نے بتیس فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ ان کے خلاف متحد ہونے والی جماعتوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اڑسٹھ فیصد تھی۔ عمران خان کو وزیراعظم بننے کیلئے کئی چھوٹی جماعتوں کا احسان اٹھانا پڑا تھا، تبھی وہ قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کیلئے مطلوب 172 ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی اپنی پارٹی کے پاس اتنی نشستیں نہیں تھیں کہ وہ بلا شرکت غیرے اپنی حکومت بنا سکتے۔ لازم تھا کہ وہ اپنی ترجیحات اور اہداف کا تعین کرتے اور ایک ایک کرکے اپنے حریفوں سے عہدہ برآ ہوتے۔ اپنے حلیفوں کو مطمئن رکھتے اور ان میں اضافہ کرتے۔ انہوں نے جب چومکھی لڑنا شروع کی تو پھر ان کا اقتدار ایوان سے مکھی کی طرح نکال باہر کر دیا گیا۔ عمران خان اور ان کے پرجوش و منہ زور حامی اس نکتے پر اچھی طرح غور کریں اور بار بار کریں کہ انہیں سو فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل تھی، نہ حاصل ہو سکے گی۔ ان سے اختلاف کرنے والے موجود تھے، موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ وہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی من مرضی نہیں کر سکیں گے۔ پاکستانی اداروں، میڈیا اور رائے عامہ کو نظر انداز کرکے حالات کو بگاڑا تو جا سکتا ہے، سنوارا نہیں۔
اس وقت پاکستان کو جو مخلوط حکومت وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں میسر ہے، اس کی کمزوری بھی یہی ہے کہ وہ کئی جماعتوں کا مجموعہ ہے اور طاقت بھی یہی ہے کہ اس میں تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی اکثروبیشتر سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف کی واحد اتحادی مسلم لیگ (ق) کے بھی دو وزیر مرکزی کابینہ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس حکومت کو چوں چوں کا مربہ کہا جائے یا بھان متی کا کنبہ، یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ انتخابات میں اس میں شامل جماعتوں نے دوتہائی ووٹ حاصل کئے تھے۔ اگر ان جماعتوں نے خود غرضانہ سیاست سے گریز جاری رکھا تو کامیابی ان کا مقدر ہو سکتی ہے۔ عمران خان کو بھی یہ نکتہ سمجھنا اور اسے ازبر کرنا ہوگا کہ ہر ایک سے ہر وقت لڑائی کرکے فتح کے جھنڈے نہیں گاڑے جا سکتے۔ لڑنے اور مرنے کے بجائے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی جائے گی تو قدم بڑھائے جا سکیں گے۔ پاکستان کو پاکستان رہنے دیا جائے، افغانستان، شام، عراق یا لیبیا بنانے کی کوشش نہ کی جائے، آگ لگانے والے خود بھی اس میں بھسم ہوئے ہیں اور اب بھی ہو سکتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسوں کے بعد بھی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اور موجود رہے گی۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]