پاکستانی سیاست سنبھالے سنبھل رہی ہے‘ نہ معیشت۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے‘ دونوں کا حال اور مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔سیاست درست ہو گی تومعیشت درست ہو گی‘سیاست بے قابو ہو جائے گی تو معیشت پر بھی قابو نہیں پایا جا سکے گا۔اگر سیاست کی کوئی سیدھی کل تلاش نہ کی جا سکتی ہو تو معیشت میں بھی اس طرح کی شے کو ڈھونڈا نہیں جا سکتا۔پاکستان ماشاء اللہ 75سال کا ہو رہا ہے۔ چند ہی روز بعد ہم اس حوالے سے باقاعدہ تقریبات کا انعقاد کر رہے ہوںگے‘ ترانے گا رہے ہوںگے‘ اور نعرے لگا رہے ہوں گے لیکن یہ توفیق بہت ہی کم لوگوں کو ہو گی کہ وہ غلطیوں کا ادراک کر سکیں‘ اور انہیں دہرانے سے گریز کر سکیں۔ اہلِ سیاست میں سے تو شاید کسی کے پاس فرصت ہے نہ ضرورت کہ وہ معاملات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے سکے‘اور اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کا اہتمام کر سکے۔ادارہ جاتی سطح پر بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ہم اس حال کو پہنچے ہیں تو اس میں ہمارے اداروں کا کتنا ہاتھ ہے‘ہمارے مذہبی رہنمائوں اور جماعتوں نے کہاں کہاں اور کس کس طرح ستم ڈھائے ہیں‘ ہماری سیاست‘ کس کس کی ٹھوکروں میں رہی ہے اور خود اس نے کس کس کو ٹھوکریں لگائی ہیں‘ یہ سب موضوعات ایسے ہیں جو گہرے غور و خوض کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے اور ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے تو بس یہی حاصل ہو گا کہ کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان کا قیام کتنے ارمانوں اور امیدوں کے ساتھ عمل میں آیا تھا‘ اس کے لیے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے‘ہزاروں کا خون بہا تھا۔ اس دور کے واقعات سنیں تو آج بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور بھاگ جاتی ہے۔پاکستان نے بہت کچھ کر دکھایا‘ اپنے شہریوں کی زندگیاں بدلیں‘ اُنہیں تعلیم اور روزگار کی سہولتیں فراہم کیں‘ زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا‘ صنعتی انقلاب بھی برپا ہوا‘مضبوط بیورو کریسی اور چاق و چوبند فوج نے اپنا وجود منوایا۔دور اندیشی نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایااور دنیا سے اپنا لوہا منوایا۔ اس سب کے باوجود ہم وہاں نہیں پہنچ سکے جہاں ہمیں پہنچنا چاہیے تھا۔ وہاں نہیں کھڑے جہاںہمیں کھڑا ہونا چاہیے تھا‘ہم کشکول لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں‘آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں۔ہمارا خرچ ہماری آمدنی سے زیادہ ہے‘ ہمارے پائوں ہماری چادر سے باہر ہیں‘ہمارے رہنما ایک دوسرے سے بات کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیںہیں‘ اپنے اپنے جتھوں کو قوم کا نام دے رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے روحِ رواں ہیں۔گزشتہ پچیس سال کے دوران انہوں نے تحریک انصاف کو بنایا اور بڑھایا ہے۔اس کے لیے دن رات ایک کیے ہیں۔اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے‘اور گزشتہ چار سال حکومتی ایوانوں پر ان کا پرچم لہراتا ر ہا ہے‘ان کی وزارتِ عظمیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی‘وہ اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کیے گئے لیکن انہوں نے سیاست کے میدان میں مورچہ لگا دیا ہے‘ یہاں سے انہیں بے دخل نہیںکیا جا سکا‘وہ پوری شدت سے اپنے مخالفین پر حملہ آور ہیں۔شہر شہر جلسے کر رہے ہیں۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ وہ اقتدار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس بار ان کی نظر دوتہائی اکثریت پر ہے‘ وہ بار بار اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر مطلوبہ اکثریت ملے گی تو ہی وہ اپنا ایجنڈا بروئے کار لا سکیں گے۔ وہ تبدیلی لا سکیں گے جس کا خواب وہ دیکھتے اور دکھاتے رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں انہیں بلا شرکتِ غیرے اکثریت حاصل نہیں ہو سکی تھی‘ متعدد چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وہ قومی اسمبلی کے قائد منتخب ہوئے تھے اور وزیراعظم کا منصب پایا تھا‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈھیلی ڈھالی اکثریت قدم قدم پر ان کے آڑے آتی رہی۔اتحادی انہیں بلیک میل کرتے رہے‘ سو وہ اپنے مخالفین سے نبٹ سکے‘ نہ حامیوں کی توقعات پر پورا اتر پائے‘ اب انہیں دوتہائی اکثریت ملے گی تو دستور میں تبدیلی کر سکیں گے‘اپنے حریفوں سے اپنی خواہش کے مطابق نبٹ سکیں گے‘ اور اپنے حامیوں میں بھی اطمینان بھر سکیں گے۔ وہ یہ سننے‘ سمجھنے یا دیکھنے پر تیار نہیں ہیں کہ کوئی بھی شخص یا رہنما اپنی ساری خواہشات اپنے سارے اہداف بیک وقت حاصل نہیں کر سکتا‘اسے اپنی ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں‘فہرست بنانی ہوتی ہے‘ ایک ایک قدم اٹھا کر ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ایک چھلانگ میں ایک کلو میٹر طے نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی دھن اپنی جگہ‘لیکن آہستہ آہستہ چلتے چلے جانے والے آگے نکل جاتے ہیں‘نکلتے رہے ہیں‘ اور نکل سکتے ہیں۔
عمران خان کے مخالفین ان کا راستہ روکنے پر بضد ہیں۔وہ اقتدار ان سے چھین چکے‘اپنی حکومت بنا چکے‘اقتدار کے ایوانوں میں اپنے جھنڈے لہرا چکے‘عمران خان پر غم و غصے کا اظہار کر چکے‘ لیکن مخمصہ ہے کہ اس سے نکل نہیں پا رہے‘ انتخابات سے تو کوئی مفر نہیں لیکن یہ کب ہوںگے یا کب ہونے چاہئیں‘یہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا‘ عمران خان کی پیدا کردہ مشکلات کی تفصیل بیان ہو رہی ہے‘معیشت کو جو نقصان(مبینہ طور پر) انہوں نے پہنچایا‘اس کے اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں‘کان انہیں سن سن کر پک رہے ہیں لیکن گردان جاری ہے۔ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے‘ روپیہ اپنی وقعت کھو رہا ہے۔طرح طرح کے مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں‘وہاں سے رنگا رنگ احکامات جاری ہو رہے ہیں کبھی عمران خان آگ بگولہ ہوتے ہیں تو کبھی ان کے مخالف ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کبھی ایک کو ریلیف ملتا ہے تو کبھی دوسرا اطمینان کا سانس لیتا ہے۔ پنجاب میں گورنر مقرر ہو سکا ہے‘ نہ کابینہ حلف اٹھا سکی ہے۔ وفاداریاں بدلنے والے نشستوں سے محروم ہو چکے‘ لیکن معاملات آگے بڑھ رہے ہیں‘ نہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔حالات سنبھل رہے ہیں نہ سنور رہے ہیں۔ دستورِ پاکستان سب کا منہ تک رہا ہے‘لیکن کوئی اسے پڑھنے اور اس کی سننے پر تیار نہیں ہے۔ صدرِ پاکستان حکومت کی مان رہے ہیں‘نہ حکومت ان کو خاطر میں لا رہی ہے۔ان کے فرزند ِ ارجمند ٹویٹر کے ذریعے غصہ نکال رہے ہیں۔سوشل میڈیا سیل ایک دوسرے کو تہِ تیغ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔کسی کی بھی عزت کسی کے بھی ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ سب بھول گئے ہیں کہ وہ ایک چھت کے نیچے رہ رہے ہیں‘ چھت گری تو سب کی ہڈی پسلی ایک ہو گی‘ آگ لگی تو سب جھلسیں گے۔ ہم ایک دوسرے سے جتنے مختلف ہوں‘ جتنے الگ ہوں‘ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں‘ہمارا مرنا جینا ایک ہے‘اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں‘مکان کو مضبوط کرنے کی فکر کریں‘اس کی بنیادوں کو مضبوط کریں‘ دیواروں کا جائزہ لیں‘چھت پر پڑنے والے شگاف پُر کریں۔اپنی چارپائی کو اپنی دنیا بنا لینے والو چھت نہ رہی یا دیوار گر پڑی تو چارپائی کسی کام نہیں آئے گی ؎
لگے لگی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ''پاکستان‘‘ تھوڑی ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)