وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے نئے سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تو ان کی تقریر یوں سنی جا رہی تھی جیسے کلاس روم میں بچے استاد کا لیکچر سنتے ہیں۔اس سے پہلے بجٹ پیش کرنا یوں دوبھر ہو جاتا تھا کہ اپوزیشن کچھ سننے پر تیار نہیں ہوتی تھی۔ اس قدر شور مچایا جاتا کہ وزیر خزانہ ہلکان ہو جاتا‘ کبھی آواز اونچی کرتا‘ کبھی سپیکر کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھتا کہ حریفوں کے مائیک بند کر دیے جائیں۔ اپوزیشن کے اراکین کی کوشش ہوتی تھی کہ تقریر خود سنیں نہ دوسروں کو سننے دیں۔ یکے بعد دیگرے کئی وزرائے خزانہ کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ اور انہوں نے اپنے حواس بحال رکھ کر اپنے اپنے وزیراعظم سے داد پائی... موجودہ حکومت کی اپوزیشن جو کچھ عرصہ پہلے تک حکومت تھی‘ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد یوں بھناّئی کہ اس نے قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔چند اراکین نے نعرۂ بغاوت بلند کیا اور مسمیان راجہ ریاض اور نور عالم خان کی قیادت میں اپنی اپنی جگہ ڈٹ گئے۔ اب اپوزیشن بنچوں پر ان کا قبضہ ہے‘ اور وہ شور و غوغا کو شایانِ شان نہیں سمجھتے۔ عمران خان اور ان کے رفقا اسمبلی سے باہر دھاڑ رہے ہیں لیکن اسمبلی کے اندر راجہ ریاض منمنا رہے ہیں۔ انہوں نے اچھے بچوں کی طرح وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سننے کا فیصلہ کیا‘ سو مفتاح اسماعیل سکون کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتے رہے۔ ایوان سے باہر ہنگامہ جاری تھا۔ سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ‘ وہ نعرے بلند کئے جا رہے تھے جن پر اپوزیشن اپنا حق سمجھتی ہے‘ لیکن جونہی ان تک یہ خبر پہنچی کہ تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے‘ مخالفانہ نعرے حروفِ تشکر میں تبدیل ہو گئے‘مفتاح اسماعیل نہ صرف خود''زندہ باد‘‘ تھے‘ بلکہ اپنے وزیر اعظم کیلئے بھی ان الفاظ کے حصول میں کامیاب ہو چکے تھے۔
بجٹ کے بارے میں حکومت کے حامیوں اور مخالفوں کا موقف الگ الگ ہے‘دونوں اپنے اپنے اعداد و شمار دے رہے ہیں‘ ہر ایک کے پاس اپنے اپنے حروف ہیں۔ ان کی بحث سے قطع نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفتاح اسماعیل نے ایک مشکل مرحلہ سر کر لیا ہے‘ ایک ایسا بجٹ پیش کر دیا ہے‘ جس پر فوری احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی‘ کاروباری حلقے غیر مطمئن نہیں ہیں اور تنخوا دار طبقہ بھی خوش ہے لیکن بجٹ میں لگائے گئے اندازوں اور تخمینوں کا بڑا انحصار آنے والے حالات پر ہے۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد طے پا گئے‘ اگر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی ہو گئی‘اگر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کم ہو گئیں‘اگر عالمی منڈی میں تیزی کا رجحان برقرار نہ رہا‘ اگر گندم اور خوردنی تیل کی درآمد آسانی سے ممکن ہو گئی تو نتیجہ اور ہو گا‘اگر منظر مختلف ہوا تو پھر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔عمران خان سڑک پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں‘نئے انتخابات کی تاریخ کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ ان کے رویے میں شدت پیدا ہوتی جائے گی‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں دعائوں میں مصروف رہیں گے‘کس کی دعا کو کب شرفِ قبولیت عطا ہوتا ہے‘ یہ آنے والے دن ہی بتا سکیں گے۔
پاکستانی معیشت کی جو بھی مشکلات ہیں‘وہ ایک دن میں پیدا نہیں ہوئیں‘ نہ ہی انہیں ایک دن میں ختم کیا جا سکتا ہے۔کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں‘ ڈالروں کے حصول کیلئے ہمیں بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ وہاں سے کم شرح سود پر قرض ملتا ہے‘اور اس کے ساتھ ہی دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے کڑے ضابطوں میں جکڑی ہوئی معیشت دوسرے قرض دینے والوں کو حوصلہ دے دیتی ہے کہ حالات قابو میں ہیں‘ ''ملزم‘‘ کو ادھار دیا جا سکتا ہے۔ اب تو ہمارے دوست ممالک بھی اپنے زرِ تعاون کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے ساتھ مشروط کر رہے ہیں کہ اُس کے ڈسپلن میں آئو گے تو ہم سے بھی کچھ حاصل کر پائوگے‘ آئی ایم ایف کی نگرانی گویا قرض واپسی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ اگر ہماری برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوتیں‘ یا غیر ملکی سرمایہ کاری کو ہم متوجہ کر رہے ہوتے یا اپنی ضروریات کو محدود رکھنے میں کامیاب ہوتے تو آج کا منظر مختلف ہوتا۔عمران خان کی حکومت کو بھی ڈالروں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا اور موجودہ حکومت کو بھی یہی مرض لاحق ہے۔عمران خان صاحب نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دیں‘ نتیجتاً ملکی خزانے پر ناقابل ِ برداشت بوجھ پڑ گیا‘ اور ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا۔ اب موجودہ حکومت وہاں کھڑی ہے جہاں عمران خان اپنے اقتدار کے آخری ایام میں کھڑے تھے۔ وہ وہی باتیں کر رہے ہیں‘جو ان کی اپوزیشن کر رہی تھی۔ ان کی طرف سے آئی ایم ایف کی غلامی کا طعنہ دیا جا رہا ہے‘ جبکہ وہ بخوبی جانتے ہیں آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑنے کا مطلب کیا ہو گا؟ کیا پاکستان ''دیوالگی‘‘ ڈکلیئر کر سکتا ہے‘کیا یہ آپشن اس کے سامنے موجود ہے؟ ہرذی ہوش اس کا جواب نفی میں دے گا کہ اس کے بعد حالات کو سنبھالنا حکومت کے بس میں ہو گا نہ اپوزیشن کے۔ضرورت تو اس کی تھی‘اور ہے کہ معیشت پر سیاست بند کر دی جائے‘ حکومت اور اپوزیشن بیٹھ کر اتفاقِ رائے سے مشکل فیصلے کریں‘ اور قومی معاشی ڈھانچے کی اصلاح کے لیے وہ کچھ کر گزریں‘ جو برسوں سے لٹکتا چلا آ رہا ہے۔خسارے کے سمندر میں ہمیشہ کیلئے تیرنا کسی کے بھی بس میں نہیں ہے۔اقتدار پر لڑنے کے بجائے اسے بانٹ لیا جائے‘اڑھائی‘اڑھائی سال دونوں اپنا شوق پورا کر لیں۔معیشت پر سیاست نہ کرنے کاکوئی راستہ تو نکالیں۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین مرحوم
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اچانک موت نے دل کو غم سے بھر دیا۔وہ ایک ٹی وی اینکر کے طور پر ابھرے‘اور پھر چھاتے چلے گئے۔کوچہ ٔ سیاست میں آئے تو دو بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔وفاقی وزیر بھی بنے۔وہ ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے‘ ان میں نہ صرف کراچی‘ بلکہ ملکی سطح پر ایک بڑے لیڈر کے طور پر کردار ادا کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ ان کے والد شیخ لیاقت حسین اور والدہ محمودہ سلطانہ ممتاز سیاسی کارکن تھے‘تحریک پاکستان کے سپاہی۔ان کے نانا سردار علی صابری روزنامہ''انجام‘‘ کے ایڈیٹر رہے‘اور حصولِ پاکستان میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔انہوں نے دلوں میں گھر بنایا‘ دنیائے اسلام کی ممتاز ترین شخصیتوں میں شمار ہونے لگے‘ لیکن پھر بے اعتدالی کا شکار ہو گئے۔ازدواجی الجھنوں نے آ گھیرا‘ اور خیالات میں بھی ٹھہرائو نہ رہا۔ وہ عامر لیاقت جن کے سامنے ٹی وی چینلز ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے تھے۔ وہ ان سے اپنی شرائط پر رمضان ٹرانسمیشن کا معاہدہ کرتے تھے۔ ریونیو میں حصہ دار بنتے تھے۔انہیں رام کرنے کیلئے کئی چینلز نے اپنی سربراہی ان کے نام کر دی‘انہیں اپنا ''پریذیڈنٹ‘‘ بنا لیا‘ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ دروازے بند ہونے لگے۔وہ کام نہ ملنے کی شکایت کرتے پائے گئے۔ان کی بے احتیاطی ان کے پائوں کی زنجیر بن گئی۔شہرت اور مقبولیت کو وہ سنبھال نہ پائے۔50 سال اس دنیا میں گزار کر رخصت ہوئے ہیں تو ایسے سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔اللہ مغفرت کرے۔ عجب 'آزاد‘ مرد تھا!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)