"MSC" (space) message & send to 7575

چودھری پرویز الٰہی کا امتحان

آج ہفتہ ہے‘ اور اکتوبر کی29تاریخ۔ سہ پہر کے تین بج چکے ہیں۔ابھی ابھی وزیراعلیٰ پنجاب کے ''جی ایچ کیو‘‘(جنرل ہیڈ کوارٹر)8 کلب روڈ‘ جی او آر لاہور سے واپسی ہوئی ہے۔ برادرم اجمل جامی کے ساتھ مل کر چودھری پرویز الٰہی کا انٹرویو (دنیا نیوز) کے لیے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انٹرویو سے پہلے چودھری صاحب سے حالاتِ حاضرہ پر کھل کر گفتگو ہوئی‘انٹرویو کے دوران بھی وہ سوالات ان کے سامنے رکھے گئے‘ جو ہر اُس شخص کے ذہن میں ہیں‘جو قومی امور پر غور کرنے کی ذرا سی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔پنجاب حکومت کے ''سرپرست‘‘ عمران خان لاہور کی سڑکوں پرہیں۔ ان کا ''لانگ مارچ‘‘ لبرٹی چوک سے شروع ہوا تھا‘ اور آزادی چوک پر پہنچ کر محو ِ آرام ہو گیا تھا۔ آج اس کا وہیں سے آغاز ہوا ہے‘جہاں کل اختتام ہوا تھا۔خان صاحب ایک عظیم الشان کنٹینر پر سوار ہیں‘جس میں آرام و طعام کی جملہ سہولیات موجود ہیں۔ان کے چند رفقا بھی ان کے دائیں بائیں ہیں۔شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر‘ فواد چودھری وغیرہ وغیرہ۔لاہور سے پی ٹی آئی کی بھرپور نمائندگی شفقت محمود‘ ڈاکٹر یاسمین راشد‘ محمود الرشید‘اعجاز چودھری صاحبان کر رہے ہیں۔عمران خان نوجوانوں کے سے جوش و جذبے کے ساتھ‘ ہاتھ ہلاتے ہیں‘ مسکراتے ہیں‘ مصافحہ کرتے ہیں‘ وقفے وقفے سے خطاب کرتے ہیں‘ اور اپنے حلقہ بگوشوں کے سینوں میں طوفان اٹھا دیتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ''حقیقی آزادی‘‘ مارچ ہے‘ قائداعظمؒ نے انگریزوں (اور ہندوئوں) کی غلامی سے مسلمان قوم کو نجات دلائی تھی‘ لیکن ''حقیقی آزادی‘‘ ان کو وہ لے کر دیں گے۔ اس کے حصول کے لیے اسلام آباد جانے کا ارادہ باندھا ہوا ہے۔ پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے‘ وہ ایک ہفتے بعد اسلام آباد پہنچیں گے اور فوری انتخابات کا مطالبہ منوائیں گے۔خان صاحب کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اپنے نمائندے خود چننے کا حق ملے گا‘ وہ اپنی حکومت آپ بنائیںگے تو گویا ''حقیقی آزادی‘‘ ان کو حاصل ہو جائے گی۔ان کے فیصلے اسلام آباد میں ان کے نمائندے کریں گے‘امریکہ اور لندن سے کوئی تار نہیں ہلا سکے گا‘ حکومت کو گرایا یا بنایا نہیں جا سکے گا۔عمران خان ایک بڑے لیڈر ہیں‘ان کے فالوورز لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہوں گے‘اس لیے وہ سننے سے زیادہ سنانے پر یقین رکھتے ہیں۔پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ جناب‘ قومی اسمبلی تو آج بھی وہی ہے‘ جو2018ء میں منتخب کی گئی تھی‘ اور جس میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی‘ اسے تنہا اکثریت کی حمایت حاصل نہیں تھی‘ لیکن اس نے کئی چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کر لی تھی‘اس اکثریت کے بل پر عمران خان وزیراعظم بنے‘ اور تین سال سے زیاہ حکومت کرتے رہے۔ان کے کولیشن پارٹنرز میں ان کے خلاف بغاوت ہوئی اور ان میں سے کئی ان کے حریف ِ اول شہباز شریف کے ساتھ مل گئے‘اور اسی طرح ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے‘جس طرح خان صاحب کے پیچھے کھڑے رہے تھے۔ ایک وزیراعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک منظور ہوئی‘اور دوسرے کے حق میں اعتماد کا ووٹ ڈال دیا گیا۔یوں ہما ایک سر سے اٹھ کر دوسرے سر پر بیٹھ گیا۔اگر عمران خان کا دورِ حکومت ''حقیقی آزادی‘‘ کا دور تھا تو اس کے بعد والے دور کو غلامی سے کس طرح جوڑا جائے گا‘اور اگر اسے بھی غلامی ہی کا دور قرار دینا ہے تو پھر لوگوں کو یہ یقین کیسے دلایا جائے گا کہ تازہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی عمرانی حکومت حقیقی آزادی شدہ ہو گی‘ جو کام ساڑھے تین سال میں نہ کیا جا سکا وہ آئندہ ایک‘ دو ‘ تین چار یا پانچ سال میں کیسے کر لیا جائے گا؟ لیکن عمران خان کے پاس اس سوال کا جواب دینے کی فرصت نہیں یا وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھ رہے۔ اِس وقت وہ ہر اُس طاقت سے الجھتے چلے جا رہے ہیں‘ جو اُن کے بیانیے سے اتفاق نہیں کرتی۔ انہوں نے مسلح افواج کی قیادت پر وہ پھبتیاں کسی ہیں‘ اور وہ طعن توڑے ہیں کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ بیٹھ کر باقاعدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنا پڑا ہے۔ ''آسانی اور فرا وانی سے بولے جانے والے جھوٹ‘‘ کے مقابلے میں سچ کو سامنے آنے کی زحمت دینا پڑی ہے۔یہ بتانا پڑا ہے کہ ر ات کو آرمی چیف کو ملازمت میں توسیع کی پیش کش کرنے والے دن کے اجالے میں مختلف زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔عمران خان جو اب میں سٹپٹا رہے ہیں‘اور اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہے۔ بانکے سجیلے اینکر پرسن ارشد شریف کی کینیا میں شہادت کے حوالے سے بھی سوالات نہیں انگلیاں اٹھا رہے ہیں‘اور تحقیقات کا نتیجہ سامنے آنے کا انتظار نہیں کر رہے۔اس حوالے سے بھی مذکورہ بالا دونوں جرنیلوں نے اپنے حصے کا سچ سامنے لانے کی کوشش کی ہے‘عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے نتیجے میں کیا سامنے آئے گا‘ اس کا انتظار کیے بغیر کسی کو بھی اس اندوہناک سانحے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔
اس ماحول میں‘لانگ مارچ جاری ہے‘اور کسی کو معلوم نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں کیا ہو گا؟ خدشات سر اٹھا رہے ہیں‘ وسوسے رینگ رہے ہیں‘دھڑکے لگے ہوئے ہیں لیکن عمران خان اپنی دھن میں مگن ہیں۔چودھری پرویز الٰہی سے گفتگو شروع ہوئی تو انہیں یوں پرامید پایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ حالات کو بگڑنے نہیں دیں گے۔انہیں یقین تھا کہ لانگ مارچ پرامن رہے گا‘ اسلام آباد پہنچے گا‘ جنرل باجوہ کی فراست اور ذہانت آئین سے ماورا کوئی صورتِ حال پیدا نہیں ہونے دے گی۔چودھری پرویز الٰہی لانگ مارچ میں شریک نہیں ہیں‘ان کا کہنا تھا کہ مونس الٰہی ان کی نمائندگی کریں گے۔گجرات میں اس کا پرتپاک استقبال ہو گا‘ جبکہ چودھری صاحب کو خان صاحب نے اپنے ''جی ایچ کیو‘‘ واقع8کلب روڈ سے حالات کو مانیٹر کرنے اور ان پر قابو رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔چودھری صاحب اپنی کرسی پر بیٹھ کر ہر وہ کام کریں گے‘ جس سے درجہ حرارت انتہا کو نہ چھوئے‘اُسے گرم سے گرم تر نہ ہونے دیا جائے۔ چودھری صاحب کی عمر دشت ِ سیاست کی سیاحی میں گزری ہے۔ وہ چودھری ظہورالٰہی شہید کے بھتیجے اور داماد ہیں‘ان کی سیاسی وراثت کے اگر بلا شرکت غیرے مالک نہیں تو بھی سانجھے دار ضرور ہیں۔انہوں نے اپنے برادرِ نسبتی چودھری شجاعت حسین کے ساتھ مل کر جن اقدار کے فروغ میں کام کیا‘ ان کی ستائش کی جاتی رہی ہے اب اگرچہ دونوں ''کزنز‘‘ کے راستے الگ نظر آ رہے ہیں لیکن ان کے اسلوب میں تبدیلی نہیں آئی۔وفاقی حکومت سے ان کی صوبائی حکومت کے تعلقات کشیدہ ہیں‘سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی کوئی مشترکہ کاوشیں نہیںکی جا رہیں۔افسروں کی تعیناتی کے معاملے پر بھی کھینچا تانی جاری ہے۔ایسی خبریں اڑتی رہتی ہیں کہ ان سے مسلم لیگ(ن)کا فاصلہ کم ہو رہا ہے۔دونوں ایک بار پھر مصافحہ کر سکتے ہیں‘لیکن جب ان سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ہم جہاں ہیں‘جس کے ساتھ ہیں وہیں رہیں گے۔مسلم لیگ(ن) کے حوالے سے وہ نظرثانی کرنے پر تیار نظر نہیں آئے‘اس کے باوجود انہیں امید ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو اعتدال پر لے آئیں گے۔چودھری صاحب بصیرت اور سیادت کا یہ امتحان کیسے اور کتنے نمبر لے کر پاس کریں گے‘اس کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں