جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی تقرری جس خوش اسلوبی سے انجام پائی‘اس نے پوری قوم میں توانائی کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے۔ پاکستانی سیاست میں ان تقرریوں کے حوالے سے جو بحث و تمحیص جاری تھی‘ سوشل میڈیا پر جس جس طرح کے شوشے چھوڑے جا رہے تھے اور بڑے بڑے سیاسی قائدین جس غیر محتاط انداز میں اس موضوع کو زیر بحث لا رہے تھے‘اس نے تشویش پیدا کر رکھی تھی۔پاکستان کی75سالہ تاریخ میں اور تو جو کچھ بھی ہوا ہو‘ آرمی چیف کی تقرری پر کوئی بحث کبھی نہیں ہوئی۔سینئر ترین افسر بھی اس منصب پر بٹھائے گئے اور تیسرے‘ چوتھے حتیٰ کہ ساتویں آٹھویں نمبر پر آنے والوں کے کندھوں پر بھی سٹار لگائے گئے لیکن اس پر کوئی چون و چرا نہیں ہوئی۔فیصلہ کرنے والے جو بھی تھے‘ان کے کئے دھرے کو خاموشی کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا۔ صرف خواجہ ضیاء الدین کے ساتھ یہ ہوا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ان کے کندھوں پر بنفس ِ نفیس ستارے لگا کر فل جنرل بنایا‘لیکن انہیں یہ منصب باقاعدہ سنبھالنا نصیب نہیں ہوا۔فوجی کمانڈر اپنے سالارِ اعلیٰ جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے نئے آرمی چیف کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر تیار نہ ہوئے۔خواجہ صاحب صرف پاکستانی ہی نہیں شاید دنیا کی تاریخ کے واحد آرمی چیف قرار پائے جو باقاعدہ قانونی استحقاق رکھتے ہوئے بھی اپنے دفتر سے باہر کر دیے گئے۔وہ پاکستان کے شہرہ آفاق ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ تھے‘ اس کے باوجود بہت کچھ ان کی نگاہ سے اوجھل رہا‘جنرل پرویز مشرف کی برطرفی وزیراعظم نوازشریف کو مہنگی یوں پڑی کہ مقتدر جرنیلوں نے انہیں ''برطرف‘‘ کر دیا اور یوں یہ عالمی ریکارڈ بھی قائم ہو گیا کہ ایک شخص کی نوکری بچانے کے لیے دستور کو سبوتاژ کر دیا گیا۔وزیراعظم کو حوالہ ٔ زنداں کرنے کے بعد ان کے نامزد کردہ آرمی چیف کو بھی تحویل میں لے کر خطِ تقرر پر خط ِ تنسیخ پھیر دیا گیا۔خواجہ صاحب کو جبری ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے اجرا کے لیے بڑی کاوش کرنا پڑی‘بہت دنوں سے ان سے رابطہ نہیں ہوا‘ اس لیے کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ انہیں اس کے حصول میں کب اور کیسے کامیابی ہوئی؟خواجہ ضیاء الدین کو پیش آنے والے اس واقعے (یا سانحے) کو رکھیے ایک طرف‘ آرمی چیف کا تقرر اہل ِ سیاست اور صحافت نے کبھی بحث کا موضوع نہیں سمجھا‘ یا یہ کہیے کہ انہیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی یا یہ کہیے کہ کسی کو اس کی جرأت نہیں ہو سکی لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کو داد دیجیے یا ان کے مخالفین کو‘ آرمی چیف کا تقرر عوامی سطح پر زیر بحث آیا اور مختلف فوجی افسروں کے بارے میں پسندیدہ اور ناپسندیدہ الفاظ کا استعمال کیا جانے لگا۔اس بحث کے دوران بار بار یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس اصول کو اپنا لیا گیا ہے‘پاکستانی فوج کے حوالے سے بھی سنیارٹی کا ذکر بار بار ہونے لگا‘یہاں تک کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کی تائید کر دی۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقاتِ کار کو بہتر بنانے کے حوالے سے جب جناب عمران خان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے برملا اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل کو اس عہدے پر فائز کیا جانا چاہیے۔برادرم فواد چودھری کی رائے اگرچہ یہ تھی کہ تین سینئر ترین افراد میں سے ایک کے انتخاب کا حق وزیراعظم کو حاصل ہو تاہم خان صاحب نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے‘ وزیراعظم کی صوابدید کو ختم کرنے کی حمایت کی۔اس کے باوجود جس انداز میں بحث جاری رہی ‘ اس نے خدشات پیدا کر دیے تھے کہ کہیں اس معاملے پر بھی‘ قوم کو تقسیم نہ کر دیا جائے لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھ کر جو فیصلہ کیا‘ اس کی پشت پر نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کی بھرپور حمایت موجود تھی‘ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اپنے منصب کی نزاکتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مجروح سیاسی رہنما عمران خان کے درِ دولت پر (لاہور میں) حاضر ہوئے تو اس پر ناک بھوں چڑھانے والے بھی‘ خوشگوار نتیجہ دیکھ کر تالیاں بجانے لگے۔
جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا سنیارٹی کے حساب سے پہلے اور دوسرے نمبر پر تھے‘ سو دونوں اعلیٰ عہدے ان کے حصے میں آ گئے۔نئے آرمی چیف حافظ ِ قرآن ہیں‘اور سیّد بھی‘اس لحاظ سے وہ پاکستانی فوج کے پہلے ایسے سربراہ قرار پائے جن کا سینہ قرآن کا خزینہ ہے‘ تو نسبتی تعلق براہِ راست رسول اکرمؐ و معظم سے ہے۔جنرل ساحر شمشاد مرزا کا تعلق بھی ایک عام گھرانے سے ہے‘لڑکپن ہی میں والدین کی نعمت سے محروم ہو گئے تھے۔ہمت اور محنت کے بل پر آگے بڑھے‘ پاک فوج نے انہیں اور انہوں نے پاک فوج کو اس طرح اپنایا کہ اب وہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ہیں۔
تقرری سے ایک‘ دو روز پہلے سبکدوش ہونے والے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی تقریر سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ فوج اب سیاست سے کنارہ کش رہے گی‘اس سے پہلے یہ بات ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید انجم بھی اپنی تاریخی پریس کانفرنس میں اس شدت سے بیان کر چکے تھے کہ جن افسروں نے یہ فیصلہ کیا ہے‘ وہ آئندہ کئی برس تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے‘گویایہ اداراتی فیصلہ ہے‘ اسے ہوا میں نہیں اڑایا جا سکے گا۔جنرل باجوہ نے مشرقی پاکستان میں اٹھائی جانے والی ہزیمت کو سیاسی قرار دیا اور فوج پر کی جانے والی غیر ذمہ دارانہ تنقید کا جواب بھی دیا‘ اس پر قومی اخبارات میں کئی کالم باندھے گئے‘ حفیظ اللہ نیازی صاحب کا کالم اہم تر اور ممتاز تر ہے لیکن اس بحث سے قطع نظر جو ماضی کے حوالے سے اُٹھ رہی ہے اور اٹھائی جا سکتی ہے‘ اگر مستقبل پر نظر رکھی جائے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ نئی فوجی قیادت کسی بھی طور سیاست میں فریق بننے پر آمادہ نہیں ہے۔یہ ایک ایسی خبر ہے جس کا اہل ِ سیاست کو زبانی ہی نہیں عملی طور پر بھی خیر مقدم کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے معاملات آپ طے کرنے کی عادت اپنانا ہو گی۔عمران خان آج کے بڑے اپوزیشن لیڈر ہیں‘انہیں آج کے اہل ِ اقتدار کے ساتھ بیٹھ کر مطالبات و معاملات پر گفتگو کرنے کے لیے تیار ہونا ہو گا۔ پاکستانی تاریخ (اور فوج) ایک نئے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے‘اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گی۔
دعائے مغفرت
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی‘ جسٹس سید افضل حیدر‘ اور صاحبزادہ محمود احمد خان آف بسی شریف گزشتہ چند روز کے دوران یکے بعد دیگرے داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ان تینوں نے کئی عشرے اس جہانِ رنگ و بو میں گزارے اور اپنی بہترین صلاحیتیں پاکستان کی نذر کیں۔تینوں سے گہرا ذاتی تعلق تھا‘ اول الذکر دارالعلوم کراچی میں اپنے بلند مرتبہ والد مفتی محمد شفیع مرحوم کے پہلو میں محو ِ آرام ہوئے‘ثانی الذکر سید افضل حیدر کو لاہور کی مٹی نصیب ہوئی جبکہ صاحبزادہ محمود احمد خان پاک پتن میں بابا فرید الدین گنج شکر کے مزار کے احاطے میں اپنے عالی مقام نانا حضرت علی محمد خان کے پہلو میں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کے بارے میں انشاء اللہ تفصیل سے اظہارِ خیال ہو گا‘ فی الحال دعائے مغفرت فرما دیجیے‘ ؎
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)