لندن سے خبر آئی ہے کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔اُن کی صحت بہتر ہے‘اور وہ جلد پاکستانی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے ہمارے درمیان ہوں گے۔اُن سے پہلے اُن کی ''بے نظیر صاحبزادی‘‘ مریم نواز تشریف لائیں گی جو اپنے والد کی مزاج پُرسی اور اپنے تھائی رائیڈ کا آپریشن کرانے کیلئے بیرون ملک گئی تھیں۔ محترمہ کا سوئٹزر لینڈ میں کامیاب آپریشن ہوا‘ وہ مسلم لیگ(ن) کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بھی بنائی جا چکی ہیں‘ اس لیے اب اُن کے تیور مختلف ہوں گے۔ جماعت کی تنظیم سازی کے حوالے سے اُنہیں مکمل ختیارات حاصل ہو چکے ہیں۔سینئرز کو اسکا احساس کرنا ہو گا اور جونیئرز کو اُن سے جو توقعات ہیں‘ اُن میں اضافہ ہو جائے گا۔پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ اُن کے داخلی ادارے مضبوط نہیں ہیں۔ نوجوان اُن میں داخل ہو کر آگے بڑھنے میں مشکلات محسوس کرتے ہیں۔اگر باقاعدگی سے انتخابات ہوتے رہیں تو داخلی اداروں میں نیا خون شامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی بھی جماعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس کے معاملات اس کے اپنے دستور کے مطابق چل رہے ہیں۔جماعت اسلامی میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ وہاں کارکنوں کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کے بعد جتنے بھی امیر منتخب ہوئے‘وہ ایک کارکن کے درجے ہی سے آگے بڑھے۔قاضی حسین احمد‘ سید منور حسن اور موجودہ امیر سراج الحق اسلامی جمعیت طلبہ میں ممتاز ہوئے اور زمانہ طالب علمی کے بعد جماعت میں شامل ہو کر امارت کے منصب تک پہنچے۔یہ درست ہے کہ جماعت کا انتخابی نظام اپنا ہے‘ یہاں امیدوار بننے اور اپنے حق میں مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اُس لحاظ سے بے وزن ہے کہ ہر جماعت کو اپنا انتخابی طریق کار وضع کرنے کا حق حاصل ہے۔ مسلم لیگ(ن) کو الیکشن کمیشن کے سامنے خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کہ اس کے انتخابات وقت ِ مقررہ پر نہیں کرائے جا سکے۔بصد مشکل ان کیلئے مہلت حاصل کی گئی ہے ‘توقع کی جانی چاہیے کہ آئندہ چند ہفتوں میں یہ کارروائی مکمل ہو جائے گی۔1958ء کے مارشل لاء سے پہلے مسلم لیگ ایک بہت منظم جماعت تھی۔اس کی باقاعدہ منتخب کونسلیں (صوبائی اور مرکزی سطح پر) موجود تھیں جو صوبائی اور مرکزی عہدیداروں کا انتخاب کرتی تھیں۔ انہیں پارٹی کی 'اسمبلیاں‘ بھی کہا جا سکتا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں ان کے باقاعدہ اجلاس ہوتے اور عہدیدار منتخب کیے جاتے تھے۔ بار بار کی فوجی مداخلتوں نے سیاسی جماعتوں کے داخلی نظم کو بھی تباہ کیا اور وہ مزاحمتی جتھے بن کر رہ گئیں یا مفاہمتی ہجوم‘ جن لوگوں نے آمرانِ وقت کی بیعت کر لی وہ عوامی تائید سے بے نیاز ہو گئے‘ جو صف آرا ہوئے وہ عقیدت کا مرکز بنتے چلے گئے۔ انتخابی عمل کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔
آل انڈیا کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو منتخب صدور کی طویل فہرست مل جائے گی۔مقررہ وقت پر انتخابات ہوتے تھے اور ارکان ان میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے۔قائداعظمؒ کو بھی بار بار صدر منتخب کیا جاتا رہا‘ گورنر جنرل بننے کے بعد انہوں نے یہ منصب چھوڑا‘ انہیں تاحیات صدر بنانے یا منوانے کی کسی کو جرأت نہیں ہوئی۔پاکستان میں ہر چند سال بعد ایک نئی جماعت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘اس کی وجہ یہی ہے کہ جو خواتین و حضرات کسی ایک جماعت پر قابض ہو جاتے ہیں وہ جونیئرز کو راستہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتیں کلب بن کر رہ جاتی ہیں۔ جب1967ء میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی‘ تو اس میں نیا خون ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔تحریک انصاف منظر پر ابھری تو اس نے بھی نوجوانوں کو متوجہ کیا اور اب اس کے ذریعے ہر سطح پر نئے چہرے قومی سیاست میں متعارف ہو چکے ہیں۔جو سیاسی جماعت نئے خون کو جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کرے گی‘ وہ ترو تازہ رہے گی۔ مسلم لیگ(ن) کو بھی اس وقت نئے خون کی ضرورت ہے اور پیپلزپارٹی کو بھی۔ اگر اس کا اہتمام نہ کیا گیا تو مستقبل کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
محترمہ مریم نواز شریف مسلم لیگ(ن) کی تنظیم نو کا آغاز کریں گی‘تو اُنہیں نوجوانوں پر اس کے دروازے کھولنا ہوں گے۔اُنہیں یقین د لانا ہو گا کہ وہ اپنی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پرانے رہنمائوں اور کارکنوں کو نظر انداز کر دیا جائے‘ ان کا اعتراف اور احترام بھی لازم ہے‘ان کا تجربہ بھی اثاثہ ہے‘جس کی اہمیت کم نہیں کی جا سکتی۔انتخابات سر پر ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ آنے والا سال انتخابی ہنگاموں ہی کا سال ہو گا۔عمران خان صاحب کی مہربانی سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے لیے ووٹ پڑنے والے ہیں‘قومی اسمبلی کی درجنوں نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد بھی ہونا ہے۔اس مشق کے بعد عام انتخابات کی تاریخ سر پر آ جائے گی‘قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔گویا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔اگر ہمارے اہل ِ سیاست ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھ سکتے تو انتخابی عمل کو چند ماہ تک محدود کیا جا سکتا تھا‘ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک وقت کرانے کی روایت برقرار رکھی جا سکتی تھی لیکن انہوں نے ایک دوسرے کو زچ کرنے کی قسم اُٹھا رکھی ہے۔ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کے روادار نہیں ہیں‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں قبل ازقت تحلیل کر کے ماحول میں کشیدگی پیدا کی جا چکی ہے‘اس لیے(نظر بظاہر) اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ طویل دورانیے کا انتخابی ڈرامہ دیکھا جائے‘ایسے میں کسی سیاسی جماعت کے لیے تنظیم نو ممکن نہیں ہو گی۔ مسلم لیگ(ن) اگر اس مشق میں مصروف ہو گئی تو اس کی انتخابی کارکردگی متاثر ہو جائے گی‘ اس لیے فی الوقت اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لینا ہو گا اور مختلف سطحوں پر جماعت کے نئے اور پرانے کارکنوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے ہی آگے بڑھا جا سکے گا۔عمران خان کے بیانیے اور سر پھرے 'انصافیوں‘کا مقابلہ آسان نہیں ہے۔ان کی ضد نے جہاں ان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں وہاں ان کے حلقۂ اثر کو بڑھایا بھی ہے۔جہد ِ مسلسل ہی نے اُنہیں سیاست کا محور بنا دیا ہے۔یہ ان کے حامیوں اور ان کے مخالفوں کے درمیان بٹ کر رہ گئی ہے۔اسے نیا رُخ دینا‘ ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے۔بارہا ایسا ہوا ہے کہ ناممکن کو ممکن بنا ڈالا گیا ہے۔عزم‘حوصلے‘ صلاحیت نے تاریخ کا رُخ بدل ڈالا ہے۔کیا پاکستان میں بھی ایسا ہو سکے گا؟اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔
22 لوگ۔۔۔ ایک تاریخی دستاویز
ریڈیو پاکستان لاہور کے کنٹرولر نیوز جناب سجاد پرویز کی کتاب ''22لوگ‘‘ کی تقریب پذیرائی یا رونمائی پنجاب کے گورنر ہائوس میں ہوئی‘ جناب گورنر بلیغ الرحمن میزبان اعلیٰ تھے‘ اور مہمانِ اعلیٰ بھی۔اسے اسلامیہ یونیورسٹی کے روشن دماغ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کی سرپرستی اور نگرانی میں شائع کیا گیا ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی یہ تاریخی کتاب آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی ہے۔اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی ''کافی ٹیبل بک‘‘ ہے۔22 نامور تخلیق کاروں کے ساتھ یہ گفتگو ادب‘ ثقافت اور صحافت کے طالب علموں کے لیے تحفۂ خاص ہے۔ سوال کرنے کا قرینہ وہ سجاد پرویز سے سیکھ سکتے اور جوابات سے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' پاکستان‘‘ اور روزنامہ '' دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)