8 کلب روڈ کے مرکزی دروازے پر کھڑے پہریداروں نے جانچ پڑتال کر لی تو ہماری گاڑی اندر داخل ہوئی اور دائیں طرف وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کی طرف مڑ گئی۔چوہدری پرویز الٰہی تھے تو ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آتی تھیں‘ جی او آر کی سڑکیں بھی کاروں سے بھری رہتی تھیں۔ اُن کے دفتر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی‘ ہر کمرے میں کرسیاں بھری ہوتیں اور برآمدوں میں بھی لوگ ٹھنسے ہوتے۔وزیراعلیٰ کو اپنی مسند سے اُٹھ کر کسی دوسرے کمرے میں پناہ لینا پڑتی‘ لبا لب بھرے کمرے میں کسی ملاقاتی سے تخلیے میں بات کرنے کے لیے کسی کونے کھدرے کی ضرورت پڑ جاتی۔حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران بھی وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پُرہجوم رہا لیکن اب جو سیکرٹریٹ کے مرکزی دروازے پر رکے تو منظر مختلف تھا۔ پروٹوکول کا کوئی اہلکار تھا‘ نہ محکمہ اطلاعات کا۔ دو گارڈ البتہ ستون بنے کھڑے تھے۔میرا ماتھا ٹھنکا تو عزیزانِ عمر شامی اور عثمان شامی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: صاحب موجود نظر نہیں آتے‘ کہیں وقت کا مغالطہ تو نہیں ہو گیا۔ دونوں نے یقین دلایا کہ ہم مقررہ وقت ہی پر پہنچے ہیں۔گارڈ کو آواز دے کر پوچھا‘ وزیراعلیٰ صاحب تشریف فرما ہیں‘ اُس نے فوراً نفی میں سر ہلا دیا۔اس سے پہلے کہ اضطراب چہرے پر نمایاں ہو‘ آواز آئی وہ سامنے7 نمبر میں ہیں۔ وہیں تشریف لے جائیے۔گاڑی ہمیں اُتار کر پارکنگ ایریا میں جا چکی تھی‘ کچھ دیر اُس کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا اور ہم ساتھ والی کوٹھی میں داخل ہو گئے۔
7 کلب روڈ ایک زمانے میں وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ تھی۔ نواز شریف وزیراعلیٰ بنے تو اسے دفتر بنا لیا‘اُن سے پہلے وزرائے اعلیٰ صاحبان سول سیکرٹریٹ میں براجمان ہوتے تھے‘ نواز شریف نے اپنی ذاتی رہائش گاہ سے منتقل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تو یہ اُن کا دفتر بن گیا‘اُن کا مِنی سیکرٹریٹ بھی یہاں قائم ہو گیا۔منظور وٹو وزیراعلیٰ بنے تو وہ لاہوری نہیں دیپالپوری تھے اس لیے انہوں نے اسے اپنا مسکن بنائے رکھا۔اُن کا دفتر سول سیکرٹریٹ میں رہا لیکن گھر کے ایک حصے کو دفتری امور کے لیے وقف کر دیا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی 7 کلب روڈ کو دفتر بنائے رکھا لیکن پھر ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے لیے علیحدہ عمارت تعمیر کی جائے تو 8کلب روڈ پر ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کر دی۔ وزیراعلیٰ کا سیکرٹریٹ بھی اس میں سما گیا اور درجنوں کیا سینکڑوں ملاقاتیوں کی تشریف کا سامان بھی ہو گیا۔ وسیع و عریض کمیٹی روم وجود میں آ گئے۔ شہباز شریف جب (مشرف کی رخصتی کے بعد) وزیراعلیٰ بنے تو پہلے پہل انہوں نے اس سیکرٹریٹ میں بیٹھنے سے گریز کیا کہ یہاں کا ''شاہانہ پن‘‘ ان کے مزاج کو راس نہیں آ رہا تھا لیکن بعدازاں حالات سے سمجھوتہ کر لیا کہ اس سیکرٹریٹ کو استعمال نہ کرنا بھی وسائل کا ضیاع گردانا جانے لگا۔ ترو تازہ وزیراعلیٰ نے بھی فی الحال اس سے فاصلہ پیدا کر رکھا ہے۔ وہ7۔ کلب روڈ پر اپنا دفتر سجائے ہوئے ہیں۔یہاں پہنچے تو نواز شریف صاحب کی اولین وزارتِ علیا کی یاد تازہ ہو گئی‘ 35‘36 سال کی عمر میں وہ اس منصب پر فائز ہوئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد آئی جے آئی کی پرورش یہیں ہوئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی منہ زور سیاست سے پنجاب کو محفوظ کرنے کے منصوبے بھی یہیں بنے۔ آنکھوں کے سامنے گزرے ہوئے ماہ و سال تیر رہے تھے کہ محسن نقوی اپنے کمرے سے نمودار ہوئے اور اُسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے جہاں کبھی نواز شریف رونق افروز ہوتے تھے۔ محسن ماشاء اللہ 44سال کے ہیں اور نگران بن کر یہاں پہنچے ہیں‘ چند لمحوں بعد انہوں نے دفتر کی طرف چلنے کی دعوت دی تو اُس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں نواز شریف اور اُن کے بعد کے کئی وزرائے اعلیٰ کی یادیں محفوظ ہیں۔
محسن نقوی نے کریسنٹ ماڈل سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی‘ گورنمنٹ کالج سے بھی رابطہ ہوا لیکن پھر امریکہ چلے گئے۔ وہاں پڑھتے پڑھتے سی این این سے تعلق بنا جویوں مضبوط ہوا کہ وہ اس کے نمائندے بن کر پاکستان آ گئے‘ محنت اور صلاحیت رنگ لائی اور وہ چوکڑیاں بھرنے لگے۔ پاکستان کے صحافتی اور سیاسی حلقوں کی آنکھ کا تارا ہو گئے۔جہاں جاتے نظروں میں تو سماتے ہی‘ دل میں بھی جگہ بنا لیتے۔ سٹی 42 کے نام سے نیوز چینل کی بنیاد رکھی اور پھر کئی شہروں تک پھیل گئے۔شہری چینلز کی ایک زنجیر بنا ڈالی‘ سٹی 42کے نام سے اخبار بھی نکالا اور 24نیوز کے نام سے ایک قومی نیوز چینل کا اجراء بھی کر گزرے۔ آصف علی زرداری کی آنکھوں میں کھب گئے‘ چودھری صاحبان سے تعلق مضبوط ہوا‘ مسلم لیگ (ن) سے بھی بے تکلفی ہو گئی‘ چودھری پرویز الٰہی کی بھانجی سے اُن کی شادی ہوئی تو چودھری سالک حسین اُن کے ہم زلف قرار پائے کہ اُن کی خواہر نسبتی اُن سے بیاہی گئی تھیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان اُن کی چوہدراہٹ بھی قائم ہو گئی۔ محسن سیاست کی دنیا میں معروف ہوئے تو صحافت کی دنیا بھی اُن کی دیوانی ہو گئی۔ عاجزی‘ انکساری اور ملنساری نے اُن کا قد لمبا کر دیا۔ دستر خوان وسیع تھا‘ اپنے کارکنوں سے بھی گھل مل کر رہتے۔ رمضان المبارک میں افطار کا اہتمام کرتے تو ہزاروں افراد اُس سے مستفید ہوتے۔اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے کارکنوں کو بیرون ملک بھجواتے ‘ عمرے پر لے کر جاتے‘ زیارتوں کا اہتمام کرتے۔ وہ اپنے حلقہ ٔ اثر میں اضافہ کرتے اور اُڑتے چلے گئے‘ یہاں تک کہ اُن کا نام نگران وزیرعلیٰ کے لیے پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں نے پیش کر دیا۔ تحریک انصاف نہ مانی تو معاملہ الیکشن کمیشن تک پہنچا جہاں قرعۂ فال اُن کے نام نکل آیا۔محسن پنجاب کے تیسرے نگران وزیر اعلیٰ ہیں جن کا تعلق میڈیا سے ہے۔اس سے پہلے نجم سیٹھی اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی اس صورتحال میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ نجم سیٹھی پر تو عمران خان اتنے برہم ہوئے کہ دونوں کے درمیان دوریاں کم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ محسن نقوی کی نامزدگی بھی عمران خان کو پسند نہیں آئی‘ وہ اُن پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں‘ انہیں آصف علی زرداری کا ''فرنٹ مین‘‘ قرار دے رہے ہیں‘اُن کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔ انکشاف کیا گیا ہے کہ عمرانی حکومت کے خاتمے میں محسن نے بنیادی کردار ادا کیا تھا‘ اُن کے حریفوں کو اکٹھا کرنے کے لیے دن رات ایک کئے تھے۔ گویا‘ بات ڈونلڈ لو سے چلتے چلتے محسن تک آ پہنچی ہے۔
محسن نقوی نے جواب میں کچھ کہا ہے اور نہ کہیں گے۔ وہ مستقبل پر نظریں رکھے ہوئے ہیں‘ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ان کی منزل ہیں۔اُن کے دفتر میں وہی لوگ آتے ہیں جن کی ملاقات کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ اپنے سیکرٹریٹ میں سکون اور اطمینان انہیں وافر مقدار میں میسر ہے۔ کابینہ انہوں نے بنا لی ہے‘ نئے چہرے بھی متعارف کرا دیئے ہیں۔ ایس ایم تنویر‘ ابراہیم حسن مراد اور بلال افضل جیسے نوجوان ہم سفر ہیں تو عامر میر جیسے اڑیل بھی میسّر آگئے ہیں۔انہوں نے تنخواہ اور مراعات نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ کھانا‘ چائے‘ بسکٹ ہر شے گھر سے لے کر آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے لیے ایک ہی دفتر مختص کر دیا ہے جگہ جگہ قائم دفاتر بند کر دیئے ہیں۔اُن سے میٹھی میٹھی باتیں ہوئیں‘ وہ نوازشریفانہ انداز میں گاڑی تک چھوڑنے آئے ''میڈیا بھائی‘‘ ہونے کے ناتے ہماری دعائیں اور ہمدریاں اُن کے ساتھ ہیں۔ اللہ کرے‘اُن کے زیر نگرانی ایسے انتخابات کا انعقاد ہو کہ جن کے نتائج پر انگلی نہ اُٹھائی جا سکے۔ ابھی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ہم سب کی طرح محسن نقوی بھی اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پنجاب کی24 کروڑ آنکھیں اُن کی نگرانی کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ نظرِ بد دور۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روز نامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)