پاکستانی سیاست بے لگام ہوتی چلی جا رہی ہے‘ جس کے منہ میں جو آتا ہے‘ بولتا چلا جاتا ہے‘جو کرنا چاہتا ہے کرتا چلا جا رہا ہے۔یہ احساس نہیں کر پا رہا کہ ملکی معیشت سسکیاں لے رہی ہے۔آئی ایم ایف سے معاملہ کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلے جا رہے ہیں‘اُن سے زندگی دوبھر سے بڑھ کو دوبھر ہو رہی ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور کروڑوں افراد کے لیے پیٹ کا دوزخ بھرنا مشکل ہو رہا ہے‘جو کچھ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے‘ اُس کی ذمہ داری کسی ایک شخص یا جماعت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر کسی نے اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالا ہے۔گزشتہ کئی عشروں سے جو کھیل کھیلے جا رہے تھے‘ بالآخر وہ رنگ لا رہے ہیں بلکہ لا چکے ہیں۔اب کسی کو ہمارے ساتھ ہمدردی نہیں ہے‘ہر کوئی شکنجہ کسنا چاہتا ہے‘اپنے تئیں ہمیں نظم و ضبط کا پابند بنانے پر لگا ہوا ہے۔ سرد جنگ کے دوران ہمیں ترقی کے جو مواقع ملے تھے‘اُن سے کما حقہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا۔ ہم نے اپنی فوج اور خفیہ ادارے تو منظم کر لیے لیکن یہ حقیقت نظر انداز کر دی کہ ہاتھی دروازے پر باندھنے والوں کو اُس کے ''نان و نفقے‘‘ کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے‘اخراجات بڑھائے جاتے رہے‘آمدن پر توجہ نہیں دی گئی۔ڈالروں کی ضرورت‘اُن کی آمد سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔برسوں سے ہم کرنٹ اکائونٹ کے خسارے کا سامنا کر رہے ہیں اور قرضے اُٹھاتے چلے جا رہے ہیں۔اب قرض ہماری مجموی قومی پیداوار کے برابر پہنچ رہا ہے اور ہاتھ پائوں پھولتے چلے جا رہے ہیں۔
اس ماحول میں لازم تھا کہ کوئی قومی حکومت بنائی جاتی‘ یا تمام سیاسی جماعتوں کے زعما اپنے اپنے معاشی ماہرین کو یک جا کرتے اور کوئی ایسا لائحہ عمل بنایا جاتا جس پر سب کو اتفاق ہوتا۔دبائو میں آ جانے والی معیشت پر مزید دبائو بڑھانے کے بجائے‘اُس کی مضبوطی کا سامان ہوتا کہ مشکل حالات کا سامنا بھی انسانی معاشروں کو کرنا پڑ جاتا ہے۔کئی ممالک کی مثالیں سامنے ہیں‘اپنے ہمسائے ہی کو لے لیجیے چار عشرے پہلے اُس کی حالت کیا تھی لیکن اس کے نیتائوں نے ہمت نہ ہاری‘ نرسیمارائو اور منموہن سنگھ کے اقدامات نے ایک نئے انڈیا کی بنیاد رکھی تھی اور آج وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے استقلال نے اُسے وہاں لاکھڑا کیا ہے جہاں مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں لیکن ہم کٹھ پتلیوں کو تلاش کرنے اور نچانے کے شوق میں ایسے مبتلا ہوئے کہ عدم استحکام کا کینسر ہماری رگوں میں داخل ہو گیا۔نظام ہچکولے کھاتا رہا‘ افراد بدلتے رہے‘ اپنی اپنی حدود سے تجاوز کیا جاتا رہا اور ملک کو وہاں پہنچا دیا گیا جہاں چند قدم چلنے سے سانس پھولنے لگتی ہے۔
المیے سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ اہل ِ سیاست ایک دوسرے کو زچ کرنے کے شوقِ فضول سے باز آنے کو تیار نہیں ہیں‘اور تو اور‘ اب عدلیہ بھی لپیٹ میں آ رہی ہے۔حاضر سروس ججوں کے بارے میں عوامی اجتماعات کے اندر جس لہجے میں باتیں ہو رہی ہیں‘اُس نے ہر باشعور پاکستانی کا سر چکرا دیا ہے۔سیاست دان ہر مسئلہ عدالتوں میں دھکیلتے ہیں‘خود اپنا کام کرنے پر تیار نہیں ہو پاتے نتیجتاً مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے کا معاملہ زیر سماعت ہے۔سپریم کورٹ کو بقول خود ازخود نوٹس لینا پڑا ہے کہ 90دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ہوتا نظر نہیں آ رہا‘ آئین کی طرف سے عائد کردہ پابندی نظر انداز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے متعلقین چاہتے ہیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات فوری طور پر نہ ہوں جبکہ اپوزیشن فوراً سے پیشتر اُن کا انعقاد چاہتی ہے۔ فریقین کے دلائل اپنے اپنے ہیں اور اُن میں وزن بھی ہے لیکن اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر راستہ نکالنا چاہیے تھا۔ ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کسی تاریخ پر اتفاق کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے بجائے معاملے کو اُلجھانے اور لٹکانے میں عافیت سمجھی گئی‘اُس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو مداخلت کا موقع مل گیا۔کسی بھی سیاسی معاملے یا سیاست دانوں کے معاملے میں جو بھی فیصلہ آئے گا وہ کسی کو خوش کرے گا تو کوئی ناراض ہو گا‘اس کے اثرات عدالتی استحکام پر بھی ہوں گے۔اگر بینچ بنانے میں احتیاط سے کام نہیں لیا جائے گا‘ سینئر نظر انداز ہوں گے‘اہم آئینی معاملات پر فل کورٹ سے استفادہ نہیں کیا جا سکے گا تو پھر زبان درازوں کو زبانیں دراز کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی درست ہے کہ اگر حاضر سروس ججوں کو عام جلسوں میں نشانہ بنایا جائے گا تو پھر کوئی بھی جج اپنا کام نہیں کر سکے گا اور عدلیہ کا حال بھی وہ ہو جائے گا جو سیاست کا ہو چکا ہے۔سپریم کورٹ افراد‘صوبوں اور اداروں کے درمیان تنازعات کو طے کرنے کا آخری اور حتمی ادارہ ہے۔اس ادارے ہی کی بدولت معاشرہ افراتفری اور انارکی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور رہا ہے۔اس کے کسی فیصلے سے کسی کو اختلاف ہو یا اتفاق‘ اُسے تسلیم کرنا (سب کے مفاد میں) لازم ہے۔ہماری سیاست جس طرح سپریم کورٹ کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہے اُس کے نتیجے میں وہ کچھ ہو سکتا ہے جو آج ایک ڈرائونا خواب معلوم ہوتا ہے۔جج صاحبان سے شکایات کے ازالے کے لیے آئینی اور قانونی ذرائع سے کام لینا ضروری ہے۔اہل ِ سیاست ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے شوق میں اپنا اپنا گلہ نہ کاٹیں‘لاشوں کی سیاست کرنے والے سیاست کو لاش نہ بنائیں‘اسے سانس لینے دیں‘زندہ رہنے دیں کہ لاش کی تدفین تو بہرحال کرنا پڑتی ہے‘ہو کر رہتی ہے۔
فواد حسن فواد اور ''کُنج ِ قفس‘‘
فواد حسن فواد(سابق) وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری تھے اور اپنی شان رکھتے تھے۔ وزیراعظم کو ان پر اعتماد تھااور انہیں اپنے آپ پر۔اُن کا شمار ہماری سول سروس کے بہترین افسروں میں ہوتا تھا‘وہ جس منصب پر بھی فائز رہے‘ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔لوگ انہیں عزت اور محبت سے یاد کرتے تھے۔ نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ کرنے والوں کی نگاہ میں اُن کے پرنسپل سیکرٹری بھی کھٹکتے تھے‘ انہیں اس کی سزا طویل قید اور بے سروپا الزامات کی صورت میں بھگتنا پڑی۔ بلند بانگ دعوے کرنے والا عدالتی نظام اُن کے کام نہ آ سکا۔فواد حسن فواد قیدِ تنہائی میں رہے لیکن انہوں نے شعر و سخن کا جہاں آباد کر لیا‘کتابیں پڑھتے اور شعر کہتے رہے‘ فیض احمد فیض اور حسرت موہانی کی طرح انہوں نے بھی ''کُنجِ قفس‘‘ کو آشیانہ بنا لیا۔وہ پورے قد سے کھڑے رہے‘ بالآخر زنجیریں ٹوٹیں‘اُن کو رہائی نصیب ہوئی اور ایک نیا فواد حسن فواد ہمارے سامنے آیا۔باوقار اور بااعتبار تو وہ ہمیشہ سے تھے لیکن کردار کی گواہی نے اُنہیں ہر اُس شخص کا محبوب بنا دیاجو پاکستان کو آزاد اور باوقار دیکھنا چاہتا ہے؎
میں نہ جانے کب سے سفر میں ہوں مگر اب بھی میری جبیں پر
نہ شکستہ عزم کا داغ ہے نہ لکیر گردِ ملال کی
اُن کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ''کُنجِ قفس‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔اس شخص ِ بے مثال کو ہمارا سلام۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)