"MSC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کے ’’غائب ارکان‘‘

پاکستان پیپلزپارٹی نے تاریخ میں پہلی بار کراچی میئر کا انتخاب جیت لیا ہے‘ مرتضیٰ وہاب نے اپنے حریف حافظ نعیم الرحمن کو 13 ووٹوں سے شکست دے دی۔ 160 کے مقابلے میں173 افراد نے اُن کے حق میں ہاتھ کھڑے کئے‘اور یوں وہ خواب پورا ہو گیا جو وہ(بقول منفرد کالم نگار محمد حنیف) لڑکپن سے دیکھتے آ رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست جب نقطہ ٔعروج پر تھی‘ اُس وقت بھی شہرِ کراچی پر جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے پاکستان کے جھنڈے لہراتے تھے۔بھٹو صاحب کے نعرے لگانیوالے اگرچہ کم نہیں تھے تاہم انتخابی پلڑا ان کے حریفوں کا بھاری تھا۔ بعدازاں کراچی اور سندھ کے شہری علاقے لسانی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ الطاف حسین کا ڈ نکا بجنے لگا اور انہوں نے اپنے حقوق حاصل کرتے کرتے دوسروں کے حقوق اس طرح پامال کیے کہ کسی صنم کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری۔ نتیجتاً کراچی تاراج ہو گیا۔اس کی روشنیاں اندھیروں میں گم ہو گئیں۔ بالآخر الطاف حسین نے اپنے ساتھ وہ کر دکھایا جو دوسروں کیساتھ کرتے چلے آ رہے تھے۔پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے‘ لندن بیٹھ کر ڈوریاں ہلانے لگے‘لیکن پھر بے احتیاطی اور بدزبانی ان کو لے ڈوبی۔ پاکستان کے خلاف زبان اس طرح کھولی کہ اپنے بھی پرائے بن گئے۔ کراچی کو ان کی سیادت سے نجات مل گئی‘آج ایم کیو ایم ان کا نام لیتے ہوئے بھی گھبراتی ہے اس کی سیاست اب مقامی رہنمائوں کے ہاتھ میں ہے‘ جو لڑنے جھگڑنے‘ اور کئی ٹکڑوں میں بٹ کر ایک دوسرے کو تہہ تیغ کرنے کی تمام تر کوششیں کرنے کے بعد اب ایک دوسرے کیساتھ کھڑے ہیں اور اپنی غلطیوں پر پچھتا رہے ہیں۔ان کی جماعت آج بھی اپنی جڑیں رکھتی ہے لیکن اس کی اجارہ داری ختم ہو چکی۔ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے یہاں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور کراچی کے عوام کی نمائندگی کی دعویدار بن گئی۔اب اسکے پائوں تلے سے بھی زمین سرک گئی ہے۔اسکے لیڈر اس سے جان چھڑا کر اپنی جان بچا رہے ہیں۔ اس نے بھی اپنے ساتھ وہ کر ڈالا ہے جو الطاف حسین نے کیا تھا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم مناظروں میں ایسی ا لجھی کہ اُس نے بائیکاٹ کا اعلان کر کے اپنے حریفوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا۔جماعت اسلامی‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بڑی طاقت بن کر ابھریں‘کسی کو سادہ اکثرت حاصل نہیں ہوئی تھی لیکن تینوں میں سے کوئی دو مل کر کراچی پر اپنا پھریرا لہرا سکتی تھیں۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن ایک متحرک اور مضبوط شخص ہیں۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں جماعت اسلامی اپنا کھویا ہوا اثرو رسوخ واپس حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کر چکی ہے‘ان کیساتھ پیپلز پارٹی کا معاملہ نہ ہو سکا تو تحریک انصاف نے اپنے ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیے‘ اور یوں اس دو جماعتی اتحاد کو عددی برتری حاصل ہو گئی۔ کراچی کی ''بلدیاتی پارلیمنٹ‘‘ کی کل367 نشستوں میں سے155 پیپلز پارٹی (اور اس کے اتحادیوں) کے پاس تھیں جبکہ جماعت اسلامی کے 130 اور تحریک انصاف کے63ارکان مل کر193 بن جاتے تھے۔
اس پارٹی پوزیشن کے باوجود پیپلزپارٹی کی طرف سے بار بار اعلان کیا جا رہا تھا کہ میئر اس کا ہو گا۔تحریک انصاف کے کئی ارکان جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیں گے۔بلدیاتی قانون میں تبدیلی کر کے مرتضیٰ وہاب کی امیدواری کا راستہ بھی ہموار کر لیا گیا۔کوئی ایسا شخص بھی میئر یا ڈپٹی میئر کا امیدوار ہو سکتا تھا جو بلدیاتی پارلیمنٹ کا رکن نہیں تھا‘یعنی کسی یونین کونسل کا چیئرمین منتخب نہیں ہوا تھا۔اسے انتخاب کے60 دن کے اندر اندر کسی یو سی کا انتخاب لڑ کر جیتنا تھا‘اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کی میئر شپ بھی برقرار نہیں رہے گی۔اس ترمیم کو ایک شخص کیلئے خصوصی قرار دے کر جماعت اسلامی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا‘اس کی استدعا تھی کہ انتخابی عمل کے آغاز کے بعد اس طرح کی ترمیم ''دھاندلی‘‘ کے مترادف ہے‘ اسے کالعدم قرار دیا جائے۔عدالت نے اسے قبول کیا نہ حکم امتناعی جاری کیا‘سماعت کیلئے البتہ منظور کر لیا۔اگر جماعت کا مؤقف تسلیم کر لیا گیا تو پھر مرتضیٰ وہاب کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے‘لیکن پارلیمانی سیاست کے کئی ماہرین پُراعتماد ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکے گا۔اگر آئین کے تحت اسمبلی کا رکن بنے بغیر چھ ماہ تک وزیر بنایا جا سکتا ہے‘ تو پھر میئر کا منصب کیوں نہیں سنبھالا جا سکتا؟ اس بحث سے قطع نظر مرتضیٰ وہاب میئر کا منصب سنبھال رہے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ عدالتوں‘ سڑکوں اور ایوانوں میں جدوجہد جاری رکھیں گے‘ اور اس انتخابی نتیجے کو کبھی قبول نہیں کریں گے جس نے1970ء کی یاد دلا دی ہے‘ جب قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنیوالی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی راہ میں دوسرے نمبر پر آنیوالی پیپلزپارٹی نے روڑے اٹکائے تھے‘ اور ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہو گیا تھا۔ حافظ نعیم الرحمن مجیب الرحمن نہیں ہیں‘ وہ پاک سرزمین سے جڑے ہوئے ہیں اور کراچی کی تعمیر کے اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے پُرعزم ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ 40 سالہ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب جوش و جذبے سے مالا مال ہیں۔ان کی والدہ فوزیہ وہاب پیپلزپارٹی کی سرگرم رہنما تھیں‘ اُن کے والد وہاب صدیقی اخبار نویس تھے لیکن نظریاتی طور پر پیپلزپارٹی سے جڑے ہوئے تھے۔ یوں ان کی رگوں میں پیپلزپارٹی کا خون دوڑ رہا ہے۔ ان کی میئر شپ کراچی کیلئے یوں مبارک ثابت ہو سکتی ہے کہ صوبائی حکومت ان کی پشت پر ہو گی‘وسائل انہیں فراہم ہو سکیں گے اور کراچی کی سیاست پر پیپلز پارٹی کا نقش ثبت کرنے کیلئے جو جو بھی پاپڑ بیلنا پڑے‘بیل کر دکھائے جائیں گے۔لیکن اس انتخاب کے حوالے سے جو بنیادی سوال حافظ نعیم الرحمن اور ان کے رفقا اٹھا رہے ہیں‘جب تک اس کا جواب نہیں ملے گا‘ حالات پُرسکون نہیں ہوں گے۔تحریک انصاف کے30ارکان نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔ وہ ہنوز منظر سے غائب ہیں‘ اُنہیں غائب کیا گیا یا وہ خود روپوش ہو گئے‘ان کا ووٹ نہ دینے کا فیصلہ رضاکارانہ تھایا کسی نے ان پر مسلط کر دیا تھا؟ قانون نافذ کرنیوالے ادارے اس کا جواب دے پا رہے ہیں نہ الیکشن کمیشن یہ گتھی سلجھا پایا ہے‘ نہ وفاقی اور صوائی حکومتیں ٹس سے مس ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے متعلقین اور متوسلین پر اس وقت جو بیت رہی ہے‘وہ کسی سے پوشیدہ نہیں‘اُس کی تفصیل میں جائے بغیر یہ سوال اپنی جگہ کھڑا ہے۔ان ارکان کی غیر حاضری میں حاصل کیا جانیوالا کوئی نتیجہ کیسے معتبر ہو سکتا ہے؟ اسے ''عوام کا فیصلہ‘‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے‘اس پر شادیانے کیسے بجائے جا سکتے ہیں‘شاہ محمود قریشی کی اس بات کا وزن کیسے کم کیا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اگرچہ جیت گئی ہے‘ تاہم جمہوریت ہار گئی ہے۔ اکثریت‘ اہلیت کے سامنے بے بس بنا دی گئی ہے!!
شاہد ملک کے ''چاند چہرے‘‘
شاہد ملک اخبار نویس کے طور پر منفرد پہچان رکھتے ہیں۔سیالکوٹ میں پیدا ہوئے‘ اور پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہوتے ہوئے لندن جا پہنچے۔بی بی سی سے وابستہ ہوئے تو یہ اُن کی پہچان بن گئی۔آج کل مختلف یونیورسٹیوں میں انگریزی ادب اور صحافت کی تدریس میں مصروف ہیں۔ ان کی کالم نگاری نے بھی اپنا لوہا منوایا ہے‘ان جیسی نثر لکھنے والے صحافیوں تو کیا ادیبوں میں بھی ڈھونڈے نہیں جا سکتے۔مختلف ہم عصر شخصیات کے بارے میں انہوں نے جو کچھ لکھا‘ وہ الحمد پبلی کیشنز (پرانی انار کلی لاہور) نے ''چاند چہرے‘‘ کے زیر عنوان شائع کر دیا ہے۔انہیں پڑھیے اور سر دھنیے کہ پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں