پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اُن کے بڑے بھائی اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے۔ اس موقع پر نواز شریف ان کے ساتھ کھڑے تھے لیکن اُنہوں نے کوئی گفتگو نہیں کی گویا اُن کی خاموشی نے اپنے چھوٹے بھائی کے کہے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ لندن میں مقیم انتہائی باخبر اخبار نویس مرتضیٰ علی شاہ نے بعدازاں پیشگوئی کی یہ زلزلہ15اکتوبر کو برپا ہو گا۔ مسلم لیگ(ن) کے کسی لیڈر نے ابھی تک اس تاریخ کی توثیق نہیں کی لیکن ہر ایک کا خیال ہے کہ نواز شریف کے آنے سے ملکی سیاست میں بھونچال آئے گا‘ مسلم لیگ(ن) کے مخالف منہ کے بل گریں گے اور اُس کی انتخابی جیت کے لیے میدان ہموار ہو جائے گا۔ چار برس پہلے جب نواز شریف کو بغرضِ علاج پاکستان سے جانے کی اجازت ملی تھی‘ عدالت اور حکومت نے اتفاقِ رائے سے جیل کے دروازے کھول دیے تھے تو عمران خان کی حکومت کے اقتدار کی عمر پندرہ ماہ تھی‘ ان سے توقعات لگانے والے پُرجوش تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ پاکستانی معیشت کو چار چاند لگا دیں گے اور ان کے اقتدار کا سورج غروب نہیں ہو پائے گا۔ نواز شریف مقدمات کا سامنا کر رہے تھے‘ اُنہیں تاحیات نااہل قرار دیا جا چکا تھا‘ وہ انتخابات تو کجا سیاست میں حصہ لینے کا حق بھی کھو چکے تھے۔ جیل میں اُن کی طبیعت خراب تھی اور خدشہ تھا کہ کسی بھی وقت کوئی انہونی ہو سکتی ہے‘ اُنہیں اقتدار سے بے دخل کرنے والے گھبرا گئے کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ کہیں مہِ کامل نہ بن جائے۔ نواز شریف کو لندن بھجوا کر ان کے مخالفوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ایسا ہی اطمینان کا سانس پرویز مشرف نے اُس وقت لیا تھا جب طویل قید کی سزا بھگتنے والے نواز شریف کو جدہ روانہ کیا گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف انہی کے دستخطوں سے چیف آف آرمی سٹاف بنے تھے۔ وہ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل نہیں تھے لیکن نگاہِ انتخاب ان پر ٹھہر گئی۔ نواز شریف کو ان کی کون سی خوبی بھائی‘ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ انہوں نے دھوکہ کھایا ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ چیف آف آرمی سٹاف کے تعلقات کچھ عرصہ تو بڑے ہموار اور خوشگوار رہے لیکن پھر چیف صاحب کے دل میں کشمیر فتح کرنے کا جذبہ انگڑائیاں لینے لگا‘ اور انہوں نے چوری چھپے یہ کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بھارت کو گردن سے دبوچ کر دھول چاٹنے پر مجبور کر دیں گے۔ سری نگر سے نئی دہلی کا رابطہ کاٹ کر وہ کر دکھائیں گے جو ان سے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان نہیں کر سکے تھے۔ ان کی بچگانہ بلکہ احمقانہ واردات نے پاکستان کو شدید مشکلات میں مبتلا کیا۔ بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا دروازہ بند ہو گیا اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی انتہائی سنجیدہ کوشش کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف نے حکومت سے بالا ہی بالا جس کارگل ایڈونچر کا آغاز کیا تھا‘ اس کے واشگاف ہونے پر حق بنتا تھا کہ انہیں نہ صرف برطرف کیا جائے بلکہ ان کا کورٹ مارشل بھی کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان کی تاریخ آج بہت مختلف ہوتی۔ مہم جُو جرنیلوں سے قوم کو ہمیشہ کے لیے نجات مل سکتی تھی۔ نواز شریف پرویز مشرف کی بدنظمی کے اثرات کو زائل کرنے امریکہ پہنچے اور صدر کلنٹن کی معاونت سے پاک بھارت جنگ کا راستہ روکا لیکن پرویز مشرف کو کیفر کردار تک پہنچانے پر آمادہ نہ ہوئے‘ ڈگمگا گئے۔ بعدازاں ان کی خود سری سے تنگ آ کر انہیں برطرف کرنے کی ٹھانی‘ لیکن سانپ ہاتھ سے نکل چکا تھا‘ ان کے سامنے صرف لکیر تھی اسے پیٹ رہے تھے کہ چیف آف آرمی سٹاف نے وزیراعظم کو برطرف کر دیا۔ دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا مارشل لا تھا جو ایک شخص نے اپنی ملازمت بچانے کے لیے لگایا۔ نواز شریف کو بے سروپا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا اور پاکستان کے عدالتی اور سیاسی ادارے جرنیلی اقتدار کے سامنے کورنش بجا لانے میں مصروف ہو گئے۔
نواز شریف کو سزا تو دلوا دی گئی لیکن ان کی بلند ہمت اہلیہ کلثوم نواز نے میدان میں اُتر کر مزاحمت شروع کر دی۔ پرویز مشرف گھبرا گئے‘ اسی گھبراہٹ کے نتیجے میں دوست ممالک کی کوشش کامیاب ہوئی اور نواز شریف جدہ میں شاہی مہمان بن گئے۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے رفقا کا خیال تھا کہ نواز شریف کی سیاست کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا لیکن پانچ سال ہی گزرے تھے کہ انہیں واپسی کا پروانہ دینا پڑا۔ نواز شریف واپس آئے‘ انتخابات میں حصہ لیا اور پرویز مشرف ایوانِ صدارت سے نکال باہر کیے گئے۔ 2013ء میں انہیں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ 2018ء کے بعد بھی یہی ہوا نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلوں اور پاکستان سے ان کی رخصتی کے باوجود انہیں پاکستانی سیاست سے بے دخل نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے سمندر پار بیٹھ کر عمران حکومت کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا اور ایک وسیع تر کولیشن تشکیل دے کر انہیں اپوزیشن کے صحرا میں دھکیل دیا۔
نواز شریف اب واپس آ رہے ہیں تو ان کے حریفِ اول عمران خان جیل میں ہیں‘ تحریک انصاف کے ساتھ وہ کچھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہو رہا ہے جو وہ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ کرتی رہی ہے۔ عمران خان براہِ راست فوجی قیادت سے ٹکرانے کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ ان کے حامیوں نے 9مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کر کے پاکستانی سیاست کو برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ نئے انتخابات کی آمد آمد ہے‘ لیکن عمران خان نااہل قرار پا چکے ہیں۔ وہ چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں‘ انہیں عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے لیکن مقدمات قطار اندر قطار ہیں۔ عمران خان آئندہ انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں‘ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اندازے یہی ہیں کہ ان کا راستہ کشادہ نہیں ہو سکے گا۔ لیکن ان کے پُرجوش حامی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اُبھر کر ڈوب اور ڈوب کر اُبھر سکتے ہیں تو عمران خان بھی بازی پلٹ سکتے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف کے ساتھ اور نواز شریف نے عمران خان کے ساتھ جو کر دکھایا وہ سب کے سامنے ہے۔ اب ان کے کلیجے ٹھنڈے ہو جانے چاہئیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ وہ سلوک کر گزریں جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں تو ''پرجا‘‘ ان کی شکر گزار ہو گی۔ نواز شریف واپس آئیں‘ اپنے مقدمات کا سامنا کریں‘ مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم کو لیڈ کریں‘ چشم ما روشن دِل ماشاد۔ لیکن اگر یہی حق کسی نہ کسی طور عمران خان کو بھی مل جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ اگر یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کر لیں‘ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی تعمیر کا عہد کریں‘ سیاست کا کھیل کرکٹ کی طرح کھیلنے کا فیصلہ کر لیں‘ ایک دوسرے کو جینے کا حق دیں تو بے یقینی کی ڈسی ہوئی قوم ان کی شکر گزار ہو گی‘ ایک بار نہیں‘ سو بار‘ ہزار بار‘ لاکھ بار بلکہ کروڑوں بار‘ بلکہ بار بار شکریہ ادا کرے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)