"MSC" (space) message & send to 7575

… کوئی زنداں تو نہیں تھا

پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی جو پاکستان کے ڈپٹی پرائم منسٹر بھی رہ چکے ہیں‘لاہور ہائی کورٹ سے رہائی کا پروانہ حاصل کرنے کے باوجود رہا نہ ہو سکے۔عدالت نے حکم دیا تھا کہ انہیں کوئی بھی ایجنسی کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہیں کر سکتی۔وہ چار گھنٹے سے زیادہ کمرۂ عدالت میں موجود رہے اور تحریری حکم حاصل کر کے ہی باہر قدم رکھنے پر آمادہ ہوئے۔ فاضل عدالت کے شدید دبائو کے تحت نیب نے اُنہیں پیش کیا تھا‘ منہ زور وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ پولیس کو پابند کرے کہ ملزم کو بحفاظت اس کی رہائش گاہ تک پہنچائے تو یہ حکم جاری کر دیا گیا۔ کھوسہ صاحب جو پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن ہیں‘ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی صحبت کا لطف اٹھا چکے اور پنجاب کے گورنر ہائوس کو بھی رونق بخش چکے‘آج کل عمران خان کی محبت میں مبتلا ہیں‘ اُن میں اُنہیں اپنے ''شہید بابا بھٹو‘‘ کا عکس نظر آ رہا ہے‘اب چودھری پرویز الٰہی کی وکالت کا حق ادا کر رہے ہیں‘ وہ گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھے‘پولیس افسران بھی ان کے دائیں بائیں یا آگے پیچھے تھے۔چودھری صاحب کو ان کی رہائش گاہ تک بحفاظت پہنچانے کے لیے ''مہم‘‘ کا آغاز کر دیا گیا۔ پولیس کی متعدد گاڑیاں آگے پیچھے تھیں اور یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ عدالت کے حکم پر ''من و عن‘‘ عمل کر کے دکھایا جائے گا‘ لیکن پھر یہ ہوا کہ چودھری صاحب کو گھر پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ اسلام آباد پولیس نے راستے میں روکا اور کھوسہ صاحب کے بقول دو درجن نقاب پوشوں نے انہیں بوری کی طرح اٹھا کر دوسری گاڑی میں پٹخ دیا۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے تقاضے پر اُنہیں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کا حکم نامہ دکھا دیا گیا‘جس کے تحت چودھری صاحب کو پندرہ روز کیلئے تحفظ امن عامہ آرڈیننس کے تحت نظر بند کر دیا گیا تھا۔
پنجاب پولیس کا اصرار ہے کہ اس نے قانون کے تقاضے پورے کر دیے لیکن نکتہ سنج پوچھ رہے ہیں کہ گھر تک پہنچانے کا عدالتی حکم کیوں ہوا میں اُڑا دیا گیا‘ اگر چند منٹ صبر کر لیا جاتا تو عدالت کی ہدایت پر حرف بحرف عمل ہو جاتا۔چودھری صاحب اپنی اُس رہائش گاہ تک پہنچ جاتے جس کے دروازے چند ہفتے قبل توڑ ڈالے گئے تھے‘اگرچودھری صاحب گھر پہنچ کر اپنے اہلِ خانہ سے مل لیتے تو پھر اسلام آباد پولیس ان کا گھیرائو کر لیتی اور انہیں گرفتار کر کے ڈپٹی کمشنر اور ان کے متعلقین کی روح کو ایصالِ ثواب کر سکتی تھی لیکن گھر والوں کو مسرت کے چند لمحے دینا بھی گوارا نہ کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر کے حکم میں لکھا گیا تھا کہ چودھری صاحب کی سرگرمیوں سے وہاں نقصِ امن کا اندیشہ ہے کہ تحریک انصاف کے بہت سے حامی اس شہر میں موجود ہیں۔سب جانتے ہیں کہ چودھری صاحب نے اسلام آباد میں کسی مظاہرے کی کال دی تھی‘ نہ وہاں جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا‘ڈپٹی کمشنر اگر اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوئے تو انہیں چاہیے تھا کہ اُن کے اسلام آباد داخلے پر پابندی لگا دیتے۔بہرحال اسلام آباد پولیس نے وہ کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ دیارِ غیر میں بیٹھے ہوئے مونس الٰہی نے اسے ''اغوا‘‘ کی واردات قرار دیا اور گرجے برسے لیکن 70سالہ چودھری کو اٹک جیل میں پہنچایا جا چکا تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین بھی وہیں موجود ہیں‘ان دونوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملے یا نہ ملے‘وہ لذتِ ہمسائیگی سے استفادہ ضرور کر سکیں گے۔امید کی جانی چاہیے کہ جناب چیئرمین کی طرح انہیں بھی دیسی مرغی کا شوربہ اور دیگر لوازمات فراہم کیے جائیں گے۔ چودھری صاحب تحریک انصاف کے صدر ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے احاطہ میں کھڑے ہو کر انہوں نے یہ اعلان ایک بار پھر دہرایا ہے کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے‘اُس نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے اقتدار کی یاد تازہ کر دی ہے‘جب چودھری صاحب کے چچا اور سسر چودھری ظہور الٰہی سینہ تان کر کھڑے تھے اور بھٹو شاہی زچ ہو رہی تھی۔ انہیں ایک مقدمے میں ضمانت پر رہائی ملتی تو دوسرا درج کر لیا جاتا‘ دوسرے میں رہائی کا پروانہ جاری ہوتا تو تیسرا راستہ روک لیتا‘ تنگ آ کر یہ حکم جاری کیا گیا کہ اُن کے خلاف جو مقدمے درج ہو چکے ہیں‘ اُن میں بھی اور جو درج ہونے والے ہیں‘ان میں بھی ضمانت منظور کی جاتی ہے‘چودھری پرویز الٰہی پر بھی اسی نوعیت کا تجربہ کیا گیا‘نیب‘ ایف آئی اے‘محکمہ انسدادِ رشوت ستانی سب حرکت میں آئے‘مقدمے کے بعد مقدمہ درج ہوتا رہا‘وہ رہائی کے احکامات حاصل کر کے بھی رہا نہ ہو پاسکے۔گزشتہ دو مہینے اسی کشمکش میں گزرے‘یہاں تک کہ عدالت عالیہ لاہور نے حکم دیا کہ انہیں کوئی بھی ایجنسی کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہیں کر سکتی‘ یہاں تک کہ امتناعی نظربندی کا حکم بھی جاری نہیں کیا جا سکتا۔چودھری ظہور الٰہی کو بعدازاں بلوچستان کی جیل میں پہنچا دیا گیا تھا اور نواب اکبر بگٹی مرحوم جو کہ گورنر تھے‘ سے یہ فرمائش کی گئی تھی کہ انہیں کسی نہ کسی طور راہی ٔ ملک ِ عدم بنا دیا جائے لیکن بلوچ سردار کی حمیت نے یہ گوارا نہ کیا‘اُس نے صاف انکار کرتے ہوئے اپنا سر اونچا کر لیا اور حکم دینے والوں کا سر ایسا نیچا کیا کہ ابھی تک اٹھائے نہیں اُٹھ رہا۔چودھری پرویز الٰہی کو کوہلو کے بجائے اڈیالہ جیل پہنچایا گیا ہے۔ ان کا مقدمہ بالآخر سپریم کورٹ تک جائے گا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے رہائی کا پروانہ حاصل کرنے کے باوجود انہیں کسی دوسرے صوبے کی سیر کرائی جا سکتی ہے جیسا کہ عزیزم حسان نیازی کو کرائی جاتی رہی۔ لاہور سے پشاور‘ وہاں سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے کوئٹہ۔ وفاق پاکستان کی وسعتوں کا مشاہدہ کرانے کا یہ انوکھا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ان کے وکیلوں اور گھر والوں کو ان سے ملنے کا موقع ملتا رہا‘حسان اللہ نیازی کے والد اور والدہ کو تو یہ سعادت بھی نصیب نہیں ہوئی۔تحریک انصاف کے سینئر اور جونیئر کئی رہنما اور کارکن جیلوں میں ہیں‘ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔محمود الرشید جیسے متوازن اور اعجاز چودھری جیسے پُرزور بھی‘ کئی عثمان ڈار اور حماد اظہر کی طرح اب تک ''روپوش‘‘ ہیں‘ اسیروں میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس کے لواحقین کو ملاقات کی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ کوئی چالان پیش کیا گیا ہے نہ ہی عدالتی کارروائی شروع کی گئی ہے۔چودھری پرویز الٰہی ہوں یا محمود الرشید یا عثمان ڈار یا حماد اظہر یا ایمان مزاری یا بیگم یاسمین راشد یااکرم عثمان یا عالیہ حمزہ جو بھی قانون کو مطلوب ہے‘اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہیے۔ ہرپاکستانی کا حق ہے کہ اس سے آئین اور قانون کے تحت معاملہ کیا جائے‘ اس کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جائے اور عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا جائے‘حکومت نگران ہو یا مستقل اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کی لاج رکھنی چاہیے کہ اسلامی اور جمہوریہ دونوں اس کا جزو لاینفک ہیں۔حبیب جالب کیا بروقت یاد آئے ؎
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ‘ کوئی شبنم‘ کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سرِ عرشِ بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے‘ جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے‘ کوئی زنداں تو نہیں تھا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں