نواب مشتاق احمد گرمانی پاکستان کے انتہائی ممتاز سیاستدانوں میں شمار ہوتے تھے۔وزیر بحالیات رہے‘ داخلہ اور امورِ کشمیر کی وزارت سنبھالی۔ مغربی پاکستان کے گورنر رہے‘اب وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں رہیں اور پاکستان کے مسائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ 1979ء میں ان کا ایک انٹرویو اپنے مجلے ''قومی ڈائجسٹ‘‘ کے لیے کیا۔ پرانی فائلوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے نظر اُس پر آکر ٹھہر گئی۔44برس پہلے ظاہر کیے گئے ان کے خیالات دیکھئے‘ اور آج جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا ہے‘اس پر نظر ڈالیے۔ دائرے کا سفر جاری ہے‘آگے بڑھنے کے باوجود ہم آگے بڑھ نہیں پائے‘سوال جواب کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔
... دیکھو تو سہی مارشل لائوں نے ہمیں کیا دیا ہے؟ یہ عجب بات ہے کہ مارشل لاء کے ذریعے آنے والے اہلِ سیاست پر برستے ہیں حالانکہ یہ تو پیداوار ہی اہل ِ سیاست کی ہیں۔ یہ کہاں تھے؟ پاکستان انہوں نے فتح کیا تھا؟ انہوں نے بنایا تھا؟ یا انہیں ہم نے بنایا تھا؟ ... کیا آپ بھول گئے تقسیم کے بعد ہمیں کسی قسم کا فوجی اسلحہ نہ ملا‘ صرف وہ سپاہی ملے جن کا وطن پاکستان تھا۔ فوجی سامان نام کی کوئی چیز تھی‘ تو اوور سائز بوٹ تھے جن میں ہندو سپاہیوں کے منحنی پائوں فٹ نہ بیٹھتے تھے‘ سو ہمیں عنایت کر دیے گئے۔ پاکستان میں کوئی آرڈیننس فیکٹری نہ تھی۔ جغرافیائی صورتحال ایسی تھی کہ مناسب وسعت نہیں تھی‘ لیکن پاکستان کی عظیم الشان فوج کی تشکیل ہوئی۔ اس وقت ہمارے جوان لکڑی کی رائفلوں پر تربیت لیا کرتے تھے۔
س: سیاستدان آپس میں لڑ کر اپنے آپ پر سے عوام کا اعتماد اٹھا جو دیتے ہیں...
ج: سیاستدان کسی فرقے کا نام نہیں‘ درحقیقت پاکستان کا ہر باشندہ سیاستدان ہے اور اس کا حق ہے‘ اپنے ملک کی سیاست کے متعلق رائے رکھنا‘ اس رائے کو منوانا اور اس پر عمل کرانا‘ سیاسی بلوغ پر آپ پہنچے ہیں‘ تو قومی آزادی کا حق آپ کو ملا ہے اس حق کو اُچک لینے سے کچھ تعمیر نہیں ہو سکتا۔ انسانوں کے اوپر غلبہ حاصل کرنے کو میں غلبہ نہیں مانتا‘ میں لوہے کا یہ حق نہیں تسلیم کرتا کہ وہ انسانوں پر حکومت کرے۔
مارشل لاء مسائل کے حل کا نام نہیں ہے اور آج تک کسی مارشل لاء نے ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ آج کے حالات ہی کو دیکھیے‘ کیا انتشار دو سال پہلے‘ اس ماہ جون میں زیادہ تھا... یا آج 79ء کے جون میں زیادہ ہے؟ یہ عجب بات ہے کہ 58ء کا مارشل لاء آیا تو انتخابات سبوتاژ ہو گئے۔ 69ء کا مارشل لاء آیا‘ تو انتخابی عمل مؤخر کرنے کے لیے اور موجودہ مارشل لاء نے بھی انتخابات کو مؤخر کر دیا...گویا خلفشار تو ملک میں الیکشن سے ہوتا ہے نا ان کے نزدیک! ہر موقع پر الیکشن کے وقت خلفشار کے آثار نظر آتے تھے کیا؟میں تو سمجھتا ہوں ایوب خاں کے عہد سے لے کر آج تک ایک دور ہے۔ ملک نے صرف دوا دوار دیکھے ہیں‘ دو عہدوں سے گزرا ہوں۔ ایک 47ء سے 58ء تک کا دور... اور پھر 58ء سے آج تک کا دور...
س: تو کیا... 58ء سے پہلے حکومت عوام کے پاس تھی؟ کیا اس دور میں عوام کے مسائل حل کیے گئے؟
ج: مشکلات تھیں‘ مصائب تھے لیکن معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ میں تھے‘ انہوں نے حالات کو ایک واضح رُخ پر ڈالا‘ ملک کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا۔ایڈمنسٹریشن نہیں تھی‘ فوج نہیں تھی‘ ہمارے ہاں اتنا کپڑا نہیں تھا کہ مُردوں کو کفن دیا جا سکے۔ تقسیم کے بعد مردے چٹائیوں میں دفن کیے گئے تھے۔ مغربی پاکستان میں کپڑے کے صرف دو کارخانے تھے اور دونوں ہندوئوں کی ملکیت‘ اس کے علاوہ کراچی میں ڈالمیا کا نیم منہدم سیمنٹ کا کارخانہ تھا۔ یہ کل صنعتی کائنات تھی۔ سات سال کے عرصے میں ملک نہ صرف روزمرہ کی اشیا میں خود کفیل ہوا بلکہ برآمد بھی شروع کر دی۔ آخر یہ سب کس نے کیا تھا‘ کون قوم کو بے سروسامانی سے سہارا دے کر اس منزل پر لایا تھا؟
زرعی ترقی کے لیے نہروں کا وسیع جال کس نے بچھایا؟ انگریزوں نے ڈیڑھ سو برس میں جتنا کام کیا تھا‘ پاکستان کے پہلے دس برس میں وسعت اور رقبے کے اعتبار سے اس کے برابر برابر آبپاشی کا نظام فراہم کیا گیا‘ نہ بیرونی امداد لی گئی‘ نہ بیرونی مشیر بلائے گئے‘ نہ بیرونی ٹھیکیداروں کو طلب کیا گیا۔ تھل بیراج‘ تونسہ بیراج‘ غلام محمد بیراج اور گدو بیراج... سب کس ملک کے انجینئروں نے بنائے تھے؟ اور پھر 58ء کے بعد اپنے ہم وطنوں کے مقابلے میں غیرملکیوں کو جس طرح ترجیح دی گئی اور جس طرح ان کی درآمد کی گئی اس کو پیش نظر رکھ کر بتائیے‘ برا کون تھا‘ ہم کہ وہ؟آرڈیننس فیکٹری کب بنی؟ جیوٹ ملز کب بنی؟ یہ کس نے بنائیں؟ سڑکوں کا نظام کس نے بنایا؟ 52‘ 53ء میں پختہ سڑکوں کی بنوائی اوسطاً ایک میل روزانہ تھی‘ مشرقی پاکستان میں تقسیم کے وقت اتنی بجلی بھی پیدا نہیں ہوتی تھی جتنی ایک بڑا بجلی گھر پیدا کرتا ہے۔
بھارت کے برعکس ہمارا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ تقسیم سے بھارت کے صرف دو صوبے بنگال اور پنجاب متاثر ہوئے تھے۔ باقی سب صوبوں کی انتظامی کیفیت مستحکم تھی‘ جوں کی توں رہی۔ انتظامی لحاظ سے ہمارے صرف دو صوبے ہی ''بالغ‘‘ کہے جا سکتے تھے‘ بنگال اور پنجاب... یہ دونوں تقسیم ہو گئے۔ ان کی بھی ازسرنو تشکیل کی ضرورت تھی‘ ہمارے پاس نہ ڈاکٹر تھے نہ بینکر نہ سول سروس کے ارکان‘ ہمیں ورثے میں جو ملازمین ملے ان میں مستقل عہدے کے لحاظ سے ڈپٹی سیکرٹری سے اونچے حضرات تین سے زیادہ نہیں تھے۔ سندھ میں ملازمتوں کا کیڈر بمبئی کے ساتھ تھا‘ بلوچستان کی اپنی سروس ہی نہ تھی۔ سرحد کے پانچ اضلاع کے سوا باقی تمام علاقہ مرکزی حکومت کے زیرنگیں تھا‘ پھر یہ کہ مرکزی حکومت نام کی کسی شے کا وجود ہی نہ تھا۔ سیاستدان ارسطو اور افلاطون تو نہیں تھے لیکن انہوں نے محدود وسائل سے انتظامی ڈھانچے کو جنم دیا اور جذبۂ آزادی و بیداری کو بروئے کار لا کر پاکستان کو نامساعد حالات کے مقابل ٹھہرا دیا۔ مہاجرین کی آمد اور آباد کاری کا مسئلہ اتنا گمبھیر اور شدید تھا کہ دیکھا نہ سنا... اس سے پہلے‘ اتنے کم عرصے میں اتنی زیادہ آبادی کے انتقال کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ جو مہاجر پاکستان پہنچے وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی اجتماعی آبادی کے برابر تھے۔ انہیں آباد کرنا ایک بڑا امتحان تھا۔ اللہ کا شکر ہے اس امتحان میں بھی کامیابی نصیب ہوئی۔
ہمارے عہد میں گوادر پُرامن طور پر پاکستان کا حصہ بنا وہ قبائلی علاقے جو کسی بھی حکومت کا باقاعدہ حصہ نہیں رہے تھے‘ پاکستانی سیاستدانوں کی مساعی ہی سے پاکستان کا حصہ بنے۔ میں نے ان علاقوں میں مزید فوجیں بھیجنے کے بجائے وہاں سے تمام دستے واپس بلا لیے تھے کہ میں ان دنوں قبائلی امور کا وزیر بھی تھا۔ صرف عقل اور سوجھ بوجھ سے کام لینے کی بدولت ہی قبائلی حضرات کو پاکستان میں شمولیت پررضامند کیا جا سکا۔ اور تو اور کشمیر کے بارے میں جتنی قراردادیں اقوام متحدہ نے پاس کیں‘ سیاستدانوں کے عہد ہی میں کیں۔ ناظم رائے شماری تک مقرر ہو گیا۔ 58ء کے بعد تو ان قراردادوں کو دہرایا بھی نہیں جا سکا‘ مسئلہ کشمیر کا حل تو دور کی بات ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)