عمران خان وزیراعظم بنے تو اُن سے پہلی ملاقات برادرِ عزیز کامران شاہد کی معیت (یا قیادت) میں انہی کی تحریک پر ہوئی۔ 2014ء کی دھرنا سیاست کے بعد خان صاحب سے ذہنی فاصلہ پیدا ہو چکا تھا‘اور اُن کے اسلوبِ سیاست سے لاتعلقی(یا بیزاری) بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے باوجود اُن سے میل ملاقات جاری تھی‘ تبادلہ ٔ خیال بھی ہو جاتا تھا۔ عمران خان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی صلاحیتیں عطا کی تھیں‘اور اُن کا زمانہ معترف تھا لیکن پاور پالیٹکس میں انہوں نے اپنے ہاتھ صاف نہ رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ صاف ستھری سیاست پر یقین رکھنے اور اس حوالے سے توقعات قائم کرنے والوں کے لیے یہ ایک ایسا صدمہ تھا‘ جو برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔عمران خان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو اس میں پیشہ ورانہ شرکت کی‘اُن سے علیک سلیک ہوئی‘ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا‘ اور پھر سناٹا چھا گیا۔ کامران شاہد نے ملاقات کا سامان کیا تو وزیراعظم ہائوس پہنچے‘ملٹری سیکرٹری(یا ان کے معاون) کی طرف سے بتایا گیا کہ بیس منٹ کا وقت مقرر ہے‘جو کچھ بھی کہنا(اور سننا) ہے‘اسی دورانیے میں سمیٹنا ہو گا۔دفتر میں داخل ہوئے تو وزیر اعظم نے خوش آمدید کہا‘اور فوراً یہ سوال داغ دیا کہ ''برادرِ یوسف‘‘ کا کیا حال ہے؟ ان کا اشارہ اپنے برادرِ نسبتی(اور سابق چیف آف سٹاف) برادرم حفیظ اللہ نیازی کی طرف تھا کہ جن سے میری دوستی کئی برسوں کو محیط تھی‘اور اس کی گہرائی سے عمران خان بخوبی واقف تھے۔عرض کیا کہ ہمیں بتایا گیا ہے ملاقات بیس منٹ میں ختم ہو جائے گی‘اگر آپ نے اپنے ایجنڈے پر بات کرنی ہے تو اسے بیس منٹ سے الگ رکھا جائے۔ہمارے بیس منٹ اُس وقت شروع ہوں‘ جب آپ کی بات مکمل ہو جائے۔ اس پر اُنہوں نے مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا‘ استفسار کیا گیا کہ آپ نے ''برادرِ یوسف‘‘ کے بارے میں پوچھا ہے‘ تو کیا آپ خود کو یوسف سمجھتے ہیں(یعنی اپنے آپ کو اُن کی جگہ رکھتے ہیں) اس پر وہ خاموش رہے تو تفصیل بیان کی گئی کہ یہی بات حفیظ اللہ نیازی بھی پوچھتے رہتے ہیں‘وہ آپ کو ''برادرِ یوسف‘‘ قرار دیتے ہیں‘ لیکن خود یوسف بننے پر تیار نہیں ہوتے‘اگر آپ مقامِ یوسف کی اہمیت اور نوعیت کو سمجھتے ہیں‘ تو پھر گزارش کی جائے گی کہ یوسف ؑ کی پیروی کر کے دکھائیں‘جو اپنے مخالفین کو برادرِ یوسف گردانے گا لیکن خود یوسف ؑ کی سی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنے پر تیار نہیں ہو گا‘اسے یوسف نہیں سمجھا جا سکے گا۔کئی منٹ اس موضوع پر بات ہوتی رہی‘اور جناب وزیراعظم سے باتکرار یہ بات کہی گئی کہ وہ سورۂ یوسف کا بغور مطالعہ فرمائیں‘ اپنے ''بھائیوں‘‘ کو گلے لگائیں‘ تبھی دادِ فراست دی جائے گی‘اور اس نئے دور کا آغاز ہو سکے گا‘جس کی ملک اور قوم کو ضرورت ہے۔
خان صاحب نے اپنے ''بھائیوں‘‘ کو معاف کر دینے کی ہامی نہ بھری تو بات بدل گئی‘اور ہمارے بیس منٹ کا آغاز ہو گیا‘اس دوران جو کچھ کہا گیا اس کی تفصیل پھر کبھی بیان ہو گی۔ نواز شریف اپنی بیماری کے علاج کے لیے لندن پہنچے‘تو کچھ ہی عرصہ بعد وہاں جانے اور اُن سے ملنے کا موقع ملا۔عزیزم عمر مجیب شامی بھی ہمراہ تھے‘اور میاں صاحب کو عزیزم حسین نواز کی معاونت حاصل تھی‘ان سے طویل ملاقات رہی‘حالات اور واقعات کاجائزہ لیا جاتا رہا‘میں نے ان کی توجہ سورۂ یوسف کی طرف دلائی‘ اور (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے) حسین نواز کو بھی اس طرف متوجہ کیا کہ یہ سورہ اندھیرے میں روشنی دکھاتی‘ اور مشکلات کے آسانیوں میں تبدیل ہونے کا مژدہ سناتی ہے۔یوسف ؑ کو ان کے بھائیوں نے کنوئیں میں دھکا دے دیا‘ اور یہ سمجھ کر کہ وہ زندہ نہیں بچے ہوں گے‘اپنے والد کو اُن کے بارے میں یہ کہانی گھڑ کر سنا دی کہ اُنہیں بھیڑیا اُٹھا لے گیا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا‘ حضرت یوسف ؑ کو ایک تجارتی قافلے نے کنوئیں سے نکالا اور مصر لے جا کر نیلام کر ڈالا۔وہ غلام بن کر ایک مقتدر گھرانے میں پہنچے‘یہاں اُن پر تہمت لگائی گئی‘اور حوالہ ٔ زنداں کر دیا گیا۔ وہاں سے بادشاہ نے انہیں نکالا اور اپنا مقربِ خاص بنا لیا۔اقتدار کی چابیاں ان کے حوالے ہو گئیں‘ قحط پڑا‘ تو ان کے بھائی فریاد کرتے دربارِ شاہی میں حاضر ہوئے۔حضرت یوسف ؑ نے پہچان کر انہیں انعام و اکرام سے لاد دِیا‘قتل کی سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے مشکیں کسنے کے بجائے ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں‘ اور دنیا کے لیے مثال قائم کر دی۔اب جبکہ نواز شریف چار سال بیرونِ ملک گزارنے کے بعد وطن واپس آ چکے ہیں۔انہیں کنوئیں میں دھکا دینے والے اور تہمتیں لگانے والے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘ مقتدرہ بھی سجدہ سہو کر رہی ہے تو توقع رکھنی چاہیے کہ وہ اسوۂ یوسف کی پیروی کریں گے‘ اور ملک کو محاذ آرائی اور کشیدگی کی دلدل سے باہر نکالیں گے۔ صاحبِ تفہیم القرآن مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سورۂ یوسف کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''اس قصے سے قرآن حکیم یہ گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے‘ وہ بہرحال پورا ہو کر رہتا ہے۔انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا‘اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اُس کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اُس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا‘ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنوئیں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ انہوں نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا‘مگر فی الواقع انہوں نے یوسف علیہ السلام کو بامِ عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں سے لاکھڑا کیا‘جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا‘اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف علیہ السلام کے بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔عزیز ِمصر کی بیوی یوسف کو قید خانے بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر حتیٰ الوسع اس نے ان کے لیے تخت ِ سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا‘اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو بھی علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانا پڑی‘‘۔
نواز شریف آزمائش سے گزر کر اقتدار کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ان پر مقدمات کی بوچھاڑ کرنے والے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں جبکہ عمران خان کنوئیں میں گرے ہوئے ہیں۔آنے والا وقت کس کے لیے کیا لے کر آئے گا‘اس کے لیے تو انتظار کرنا پڑے گا‘لیکن یوسف بن جانے (یا بننے کا خواب دیکھنے) والوں کو اسوۂ یوسف کو نگاہ سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)