"MSC" (space) message & send to 7575

ہمارا مستقبل اور ہمارے ہاتھ

امجد صدیقی سے میری ملاقات تو نہیں ہوئی‘لیکن ٹیلیفون پر دو‘ چار مرتبہ بار تبادلہ ٔ خیال ہوا ہے۔انہوں نے اپنی خود نوشت ''درد کا سفر‘‘ ارسال کی‘ تو کئی دن وہ میز پر پڑی رہی‘ اس کے سرورق پر اگرچہ لکھا ہوا تھا کہ ''عزم و ہمت اور بلند حوصلے کی حیران کن سوانح حیات‘‘ تاہم اسے کتاب کی طرف متوجہ کرنے کی ایک روایتی تعلّی قرار دے کر ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ فرصت ملی تو بے دلی سے اُٹھایا‘ اور ورق گردانی شروع کی‘لیکن جوں جوں پڑھتا گیا‘ حیرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔امجد صدیقی اب میرے ہیرو بن چکے ہیں‘ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اُنہیں فوراً ''نشانِ پاکستان‘‘ سے نواز دیتا۔ اُن کی کتابِ زندگی ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہیے جو مستقبل کے بارے میں پریشان رہتا ہے۔پاکستان میں ایسے حضرات کی کمی نہیں‘اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان کی تعداد میں شدید اضافہ ہو چکا ہے تو غلط نہیں ہو گا‘جو مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر کے خود بھی پریشان رہتے ہیں‘اور دوسروں کو بھی اس مرض میں مبتلا رکھتے ہیں۔بے روز گار نوجوان تو رہے ایک طرف کروڑوں‘اربوں کمانے والے بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے‘طرح طرح کے اندازے لگا کر ڈرتے اور ڈراتے چلے جاتے ہیں۔مجھ سے جہاں بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔اگر ہر شخص اپنا کام ٹھیک طرح کر رہا ہے‘ اپنی خودی کی تعمیر میں مصروف ہے‘ آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے‘ تو سب کا مستقبل روشن ہے‘لیکن اگر اپنے کام کی طرف توجہ نہیں دینی‘اور دوسروں کے کام میں مداخلت سے باز نہیں آنا تو ہمارا مستقبل بھی ہمارے حال سے مختلف نہیں ہو گا۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر شخص دوسروں کے بارے میں پریشان ہے‘لیکن اپنے کام کی طرف توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔افراد سے زیادہ ادارے اس کارِ بے خیر میں شریک ہیں۔دستورِ پاکستان کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ عدلیہ ہو یا مقننہ‘انتظامیہ ہو یا دوسرے ریاستی ادارے‘ حدود سے تجاوز نے اودھم مچا رکھا ہے۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف تو کر لیا جاتا ہے‘لیکن اسے درست کرنے کے لیے وہ عزم نہیں کیا جاتا جسے مصمم کہا جائے۔
اداروں کو چھوڑیے‘افراد کی طرف آ جائیے تو وسائل کی کمی کا رونا رونے والوں کی کمی نہیں ہے۔امجد صدیقی ایک ایسے نوجوان تھے جو ستر کی دہائی میں سعودی عرب پہنچے‘وہاں ایک بینک میں ملازمت مل گئی‘ زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی‘والدہ چاند سی دلہن کی تلاش میں لگی ہوئی تھیں کہ اُن کی کار کو حادثہ پیش آ گیا۔اس حادثے نے ہر چیز بدل ڈالی۔ اُن کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی‘اور اُن کا سینے سے نیچے کا حصہ مفلوج ہو گیا۔اس حادثے کو برسوں گزر چکے‘اُن کے کئی آپریشن ہو چکے‘کئی ہسپتالوں میں زیر علاج رہے‘کئی ڈاکٹروں سے علاج کرا چکے لیکن ان کا جسم ہنوز فالج زدہ ہے۔انہوں نے ملازمت کا ازسر نو آغاز کیا‘کاروبار شروع کیا‘ وہیل چیئر پر بیٹھ کر دنیا کے درجنوں ممالک کے دورے کئے‘اس دوران شادی ہو گئی‘اللہ نے دو بچے بھی عطا کر دیے‘لیکن ان کے جسد ِ خاکی کا نوے فیصد حصہ اب بھی کام نہیں کرتا۔ سعودی عرب میں کاروبار شروع کیا‘ وہ خوب پھیلا لیکن پاکستان کی محبت نے چین نہ لینے دیا‘بالآخر یہاں آئے‘ کاروبار کا آغاز کیا‘اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔اب انہوں نے اپنی داستانِ حیات لکھ ڈالی ہے۔اسے ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اگر امجد صدیقی اپنی دنیا بدل سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟ ہر وہ شخص جسے اللہ نے صحت بھی عطا کر رکھی ہے‘اور اُس کے تمام اعضا کام کر رہے ہیں‘وہ اگر حوصلہ چھوڑ رہا ہے یا بددل ہو رہا ہے یا مستقبل سے مایوس ہو رہا ہے‘تو اِس کا جواز کیا ہے؟
امجد صدیقی کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا‘جن سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑا‘اس کی ایک ایک تفصیل اُن کی کتاب میں موجود ہے۔امجد صدیقی کی زندگی پر فلمیں بننی چاہئیں‘انہیں ڈراموں کا موضوع بنایا جانا چاہیے‘ صدرِ پاکستان سے لے کر عام آدمی تک کو اُنہیں خراج پیش کرنا چاہیے۔مسلح افواج کے دستوں کو اُنہیں سلامی دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور اپنی دنیا آپ بنانے کی مثال قائم کر دی ہے۔پاکستان سے فرار ہونے والے ذرا یہ الفاظ پڑھیں۔
''میری پاکستان واپسی کی خواہش مزید بڑھ گئی ‘ دوسرے ملک میں کاروبار کرنا آسان نہیں ہوتا ہے لیکن کاروبار کو رول بیک کرنا یا ختم کرنا اس سے بھی مشکل ہوتا‘ مجھے ہر چیز قانونی طریقے سے وائنڈ اَپ کرنی تھی اور کسی چیز میں ذرا سی بھی خامی نہیں چھوڑنی تھی اور خاص طور پر ہر طرح کے لین دین کلیئر کرنے تھے‘ گورنمنٹ کے ٹیکسز اور دیگر لیگل معاملات بہت احتیاط سے مکمل کرنے تھے۔ الحمد للہ مجھے پاکستانی کمیونٹی میں ایک با عزت مقام حاصل تھا ‘ہر جگہ عزت دی جاتی تھی‘ لوگ اپنی تقریبات میں خصوصی طور پر عزت افزائی کرتے تھے‘ مجھے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا جاتا تھا‘ اُنہی دنوں ایک معروف سعودی تنظیم کی جانب سے مجھے میری 38 سالہ خدمات کے اعتراف میں ''Talented and Pioneer ‘‘ٹیلنٹڈ اینڈ پانیئر ایوارڈ سے نوازا گیا‘ سعودی عرب میں یہ اعزاز پہلی بار کسی پاکستانی کو ملا تھا۔اُن دِنوں جس دوست سے بھی بات ہوتی وہ میرے واپسی کے فیصلے کو سنگین غلطی سے تشبیہ دیتا تھا ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ بہترین کاروبار چل رہا ہے اور ہر جگہ تمہاری عزت ہے تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے پھر تم کیوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان جانا چاہتے ہو لیکن میرے سر پر بس پاکستان جانے کا ہی بھوت سوار تھا۔سعودیہ چھوڑنے کے امور آہستہ آہستہ طے پا رہے تھے‘ میں نے عمرہ ادا کرنے کیلئے مکہ مکرمہ کا رخت سفر باندھا‘ الحمد للہ نہایت اطمینانِ قلب سے عمرہ ادا کیا اور روشِ رسولؐ کی زیارت کیلئے مدینہ منورہ بھی حاضری نصیب ہوئی۔پاکستان کی ترقی‘ خوشحالی اور امن و سلامتی کے لیے خصوصی طور پر دُعائیں کیں۔ میں الحمد للہ 2020ء میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ مستقل طور پر پاکستان آ گیا ہوں۔''درد کا سفر‘‘ یہاں مکمل ہوا‘ پاکستان پہنچ کر روح کو سکون مل گیا ہے جہاں سب اپنے ہیں‘ بہن بھائی‘ رشتے دار‘ عزیز و اقارب جن سے ہم دور ہو گئے تھے‘ اب دکھ سکھ خوشی غمی اپنوں کے ساتھ منا سکیں گے اور سب سے بڑی بات اب مجھے اور میرے بچوں کو تازہ اور فریش گول گپے‘ دہی بھلے‘ گرم گلاب جامن‘ لڈو پیٹھی‘ سری پائے‘ نہاری اور سڑک کنارے ملنے والے مکئی کے سٹے اور گرما گرم چنے کھانے سے کوئی نہیں روک سکے گا ؎
دل دل پاکستان جان جان پاکستان
پاکستان زندہ باد... پاکستان پائندہ باد
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
امجد صدیقی سے میری ملاقات تو نہیں ہوئی‘لیکن ٹیلیفون پر دو‘ چار مرتبہ بار تبادلہ ٔ خیال ہوا ہے۔انہوں نے اپنی خود نوشت ''درد کا سفر‘‘ ارسال کی‘ تو کئی دن وہ میز پر پڑی رہی‘ اس کے سرورق پر اگرچہ لکھا ہوا تھا کہ ''عزم و ہمت اور بلند حوصلے کی حیران کن سوانح حیات‘‘ تاہم اسے کتاب کی طرف متوجہ کرنے کی ایک روایتی تعلّی قرار دے کر ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ فرصت ملی تو بے دلی سے اُٹھایا‘ اور ورق گردانی شروع کی‘لیکن جوں جوں پڑھتا گیا‘ حیرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔امجد صدیقی اب میرے ہیرو بن چکے ہیں‘ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اُنہیں فوراً ''نشانِ پاکستان‘‘ سے نواز دیتا۔ اُن کی کتابِ زندگی ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہیے جو مستقبل کے بارے میں پریشان رہتا ہے۔پاکستان میں ایسے حضرات کی کمی نہیں‘اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان کی تعداد میں شدید اضافہ ہو چکا ہے تو غلط نہیں ہو گا‘جو مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر کے خود بھی پریشان رہتے ہیں‘اور دوسروں کو بھی اس مرض میں مبتلا رکھتے ہیں۔بے روز گار نوجوان تو رہے ایک طرف کروڑوں‘اربوں کمانے والے بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے‘طرح طرح کے اندازے لگا کر ڈرتے اور ڈراتے چلے جاتے ہیں۔مجھ سے جہاں بھی یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔اگر ہر شخص اپنا کام ٹھیک طرح کر رہا ہے‘ اپنی خودی کی تعمیر میں مصروف ہے‘ آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے‘ تو سب کا مستقبل روشن ہے‘لیکن اگر اپنے کام کی طرف توجہ نہیں دینی‘اور دوسروں کے کام میں مداخلت سے باز نہیں آنا تو ہمارا مستقبل بھی ہمارے حال سے مختلف نہیں ہو گا۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر شخص دوسروں کے بارے میں پریشان ہے‘لیکن اپنے کام کی طرف توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔افراد سے زیادہ ادارے اس کارِ بے خیر میں شریک ہیں۔دستورِ پاکستان کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے سر لینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ عدلیہ ہو یا مقننہ‘انتظامیہ ہو یا دوسرے ریاستی ادارے‘ حدود سے تجاوز نے اودھم مچا رکھا ہے۔یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف تو کر لیا جاتا ہے‘لیکن اسے درست کرنے کے لیے وہ عزم نہیں کیا جاتا جسے مصمم کہا جائے۔
اداروں کو چھوڑیے‘افراد کی طرف آ جائیے تو وسائل کی کمی کا رونا رونے والوں کی کمی نہیں ہے۔امجد صدیقی ایک ایسے نوجوان تھے جو ستر کی دہائی میں سعودی عرب پہنچے‘وہاں ایک بینک میں ملازمت مل گئی‘ زندگی ہنسی خوشی بسر ہو رہی تھی‘والدہ چاند سی دلہن کی تلاش میں لگی ہوئی تھیں کہ اُن کی کار کو حادثہ پیش آ گیا۔اس حادثے نے ہر چیز بدل ڈالی۔ اُن کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی‘اور اُن کا سینے سے نیچے کا حصہ مفلوج ہو گیا۔اس حادثے کو برسوں گزر چکے‘اُن کے کئی آپریشن ہو چکے‘کئی ہسپتالوں میں زیر علاج رہے‘کئی ڈاکٹروں سے علاج کرا چکے لیکن ان کا جسم ہنوز فالج زدہ ہے۔انہوں نے ملازمت کا ازسر نو آغاز کیا‘کاروبار شروع کیا‘ وہیل چیئر پر بیٹھ کر دنیا کے درجنوں ممالک کے دورے کئے‘اس دوران شادی ہو گئی‘اللہ نے دو بچے بھی عطا کر دیے‘لیکن ان کے جسد ِ خاکی کا نوے فیصد حصہ اب بھی کام نہیں کرتا۔ سعودی عرب میں کاروبار شروع کیا‘ وہ خوب پھیلا لیکن پاکستان کی محبت نے چین نہ لینے دیا‘بالآخر یہاں آئے‘ کاروبار کا آغاز کیا‘اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔اب انہوں نے اپنی داستانِ حیات لکھ ڈالی ہے۔اسے ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اگر امجد صدیقی اپنی دنیا بدل سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟ ہر وہ شخص جسے اللہ نے صحت بھی عطا کر رکھی ہے‘اور اُس کے تمام اعضا کام کر رہے ہیں‘وہ اگر حوصلہ چھوڑ رہا ہے یا بددل ہو رہا ہے یا مستقبل سے مایوس ہو رہا ہے‘تو اِس کا جواز کیا ہے؟
امجد صدیقی کو جن مشکلات سے گزرنا پڑا‘جن سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑا‘اس کی ایک ایک تفصیل اُن کی کتاب میں موجود ہے۔امجد صدیقی کی زندگی پر فلمیں بننی چاہئیں‘انہیں ڈراموں کا موضوع بنایا جانا چاہیے‘ صدرِ پاکستان سے لے کر عام آدمی تک کو اُنہیں خراج پیش کرنا چاہیے۔مسلح افواج کے دستوں کو اُنہیں سلامی دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور اپنی دنیا آپ بنانے کی مثال قائم کر دی ہے۔پاکستان سے فرار ہونے والے ذرا یہ الفاظ پڑھیں۔
''میری پاکستان واپسی کی خواہش مزید بڑھ گئی ‘ دوسرے ملک میں کاروبار کرنا آسان نہیں ہوتا ہے لیکن کاروبار کو رول بیک کرنا یا ختم کرنا اس سے بھی مشکل ہوتا‘ مجھے ہر چیز قانونی طریقے سے وائنڈ اَپ کرنی تھی اور کسی چیز میں ذرا سی بھی خامی نہیں چھوڑنی تھی اور خاص طور پر ہر طرح کے لین دین کلیئر کرنے تھے‘ گورنمنٹ کے ٹیکسز اور دیگر لیگل معاملات بہت احتیاط سے مکمل کرنے تھے۔ الحمد للہ مجھے پاکستانی کمیونٹی میں ایک با عزت مقام حاصل تھا ‘ہر جگہ عزت دی جاتی تھی‘ لوگ اپنی تقریبات میں خصوصی طور پر عزت افزائی کرتے تھے‘ مجھے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا جاتا تھا‘ اُنہی دنوں ایک معروف سعودی تنظیم کی جانب سے مجھے میری 38 سالہ خدمات کے اعتراف میں ''Talented and Pioneer ‘‘ٹیلنٹڈ اینڈ پانیئر ایوارڈ سے نوازا گیا‘ سعودی عرب میں یہ اعزاز پہلی بار کسی پاکستانی کو ملا تھا۔اُن دِنوں جس دوست سے بھی بات ہوتی وہ میرے واپسی کے فیصلے کو سنگین غلطی سے تشبیہ دیتا تھا ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ بہترین کاروبار چل رہا ہے اور ہر جگہ تمہاری عزت ہے تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہے پھر تم کیوں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان جانا چاہتے ہو لیکن میرے سر پر بس پاکستان جانے کا ہی بھوت سوار تھا۔سعودیہ چھوڑنے کے امور آہستہ آہستہ طے پا رہے تھے‘ میں نے عمرہ ادا کرنے کیلئے مکہ مکرمہ کا رخت سفر باندھا‘ الحمد للہ نہایت اطمینانِ قلب سے عمرہ ادا کیا اور روشِ رسولؐ کی زیارت کیلئے مدینہ منورہ بھی حاضری نصیب ہوئی۔پاکستان کی ترقی‘ خوشحالی اور امن و سلامتی کے لیے خصوصی طور پر دُعائیں کیں۔ میں الحمد للہ 2020ء میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ مستقل طور پر پاکستان آ گیا ہوں۔''درد کا سفر‘‘ یہاں مکمل ہوا‘ پاکستان پہنچ کر روح کو سکون مل گیا ہے جہاں سب اپنے ہیں‘ بہن بھائی‘ رشتے دار‘ عزیز و اقارب جن سے ہم دور ہو گئے تھے‘ اب دکھ سکھ خوشی غمی اپنوں کے ساتھ منا سکیں گے اور سب سے بڑی بات اب مجھے اور میرے بچوں کو تازہ اور فریش گول گپے‘ دہی بھلے‘ گرم گلاب جامن‘ لڈو پیٹھی‘ سری پائے‘ نہاری اور سڑک کنارے ملنے والے مکئی کے سٹے اور گرما گرم چنے کھانے سے کوئی نہیں روک سکے گا ؎
دل دل پاکستان جان جان پاکستان
پاکستان زندہ باد... پاکستان پائندہ باد
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں