الحمدللہ‘ پاکستان ایک اور انتخابی آزمائش سے گزر چکا ہے۔ 8فروری کو پانچ کروڑ پاکستانیوں نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ٹرن آئوٹ 48فیصد رہا یعنی ووٹ کا حق رکھنے والے ایک سو افراد میں سے 48نے اس سے فائدہ اٹھایا جبکہ 52اس جھمیلے سے دور رہے۔ ان میں سے ہر ایک کی وجہ اپنی ہو سکتی ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا تھا۔ وہ جماعت جو اپنے انتخابی نشان سے محروم کر دی گئی تھی‘جسے انتخابی مہم کے دوران بھی مشکلات درپیش رہی تھیں‘ جس کے بانی چیئرمین اور کئی ممتاز رہنما اور کارکن پسِ دیوارِ زنداں تھے اور جس کے متعلقین و متوسلین انتخابی مہم کے دوران بھی پولیس اور انتظامیہ کی حرکتوں سے شاکی رہے تھے‘ اُس نے بھی کسی مرحلے پر انتخابی عمل سے الگ ہونے کا اعلان تو کیا اشارہ تک نہیں کیا۔ اس کے ''چیئرمین‘‘ بیرسٹر گوہر‘ ''سیکرٹری جنرل‘‘ عمر ایوب اور دوسرے رہنما اپنے کارکنوں سے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اپیل کرتے اور اس یقین کا اظہار کرتے رہے کہ وہ کامیابی حاصل کرکے دکھائیں گے۔اس پس منظر میں 48 فیصد ٹرن آئوٹ قابلِ اطمینان سمجھا جا سکتا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد نے انتخابی عمل میں حصہ لے کر اسے توانا اور معتبر بنا دیا۔
انتخابات سے پہلے جو کچھ ہوا‘ تحریک انصاف پر جو کچھ گزری‘ اس کی اپنی غلطیاں اس کی ذمہ دار ہوں یا اس کے مخالفین کی کارستانیاں‘ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس کیلئے فضا ناسازگار تھی۔ اگرعمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد پارلیمانی جمہوریت کے قواعد و ضوابط کے مطابق کردار ادا کرتے تو ان کے راستے میں وہ رکاوٹیں کھڑی نہ کی جا سکتیں جو کہ کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا جو 9مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں سے آلودہ ہو گیا۔ اس کی پاداش میں انہیں اور ان کی جماعت کو وہ کچھ بھگتنا پڑا کہ جسے ''کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری‘‘۔
8فروری کو انتخابی عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہوا۔ دہشت گردی یا تصادم کا کوئی بڑا واقعہ بھی پیش نہیں آیا لیکن پولنگ ختم ہونے کے بعد نتائج کے اعلان میں برتی جانے والی تاخیر نے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔ الیکشن کمیشن نے جو انتظامات کیے تھے‘ وہ دھرے کے دھرے رہ گئے جو وقت مقرر کیا تھا‘ وہ بھی منہ دیکھتا رہ گیا۔انٹرنیٹ کی بندش نے معاملے کو الجھا دیا‘ نگران وزیرداخلہ دہشت گردی کے خطرے کی جو بھی تفصیل بیان کریں اور انٹرنیٹ کی بندش کو کتنا بھی نتیجہ خیز قرار دیں‘بندش کی طوالت نے نتائج کو الجھانے میں ہاتھ ضرور بٹایا۔2018ء میں بھی گنتی کے دوران جو کچھ ہوا تھا‘ اس نے انتخابی عمل کو گدلا کر دیا تھا‘ اب جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے جوابدہ بنایا جانا چاہیے اور اس ''بدانتظامی‘‘ کی تفصیل بہرحال قوم کے سامنے آنی چاہیے۔ ذمہ داری کا تعین بھی ہونا چاہیے۔
انتخابی نتائج سے یہ بات بہرحال واضح ہو گئی کہ تحریک انصاف کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کے ''آزاد‘‘ امیدواروں نے جہاں خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کرلی ہے وہاں قومی اسمبلی میں سب سے بڑے گروپ کے طور پر ابھرے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بھی انہوں نے اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کیا ہے‘مسلم لیگ(ن) کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں۔ قومی اسمبلی میں کسی جماعت کو فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ مسلم لیگ (ن) تکنیکی طور پر سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ پیپلزپارٹی کا نمبر دوسرا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اکثریت تو رکھتے ہیں لیکن انہیں جماعت کا درجہ نہیں دیا جا رہا اس لئے وہ حصہ بقدر جثہ حاصل نہیں کر پا رہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے جبکہ سندھ اور کے پی کے میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا پرچم لہرا رہا ہے۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنے گی‘ اسے لیڈ کون کرے گا‘ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں طاقت تین دائروں میں بٹی ہوئی ہے‘ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کو پیپلزپارٹی کے ساتھ معاملہ کرنا ہوگا یا پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے آزادوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کر سکے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف نے اپنی جماعت کے صدر شہبازشریف کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ دوسری جماعتوں سے رابطہ کرکے حکومت سازی کا عمل شروع کریں۔ شہبازشریف اور آصف علی زرداری (بمعہ بلاول بھٹو زرداری) آپس میں مل بھی چکے ہیں لیکن یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوئی کہ آئندہ حکومت کے خدوخال کیا ہوں گے۔انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ (ن) کے بجائے تحریک انصاف کے آزاد ارکان سے معاملے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ اب انہیں از سرِ نو اپنے پتے پھینکنا پڑیں گے۔مخلوط حکومت میں کس کے حصے میں کیا آئے گا اور کس ایوان میں کون بیٹھے گا‘اس بارے میں اندازے لگائے جا رہے ہیں‘ آنکھیں شہباز شریف پر ٹک رہی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی آپس میں جو بھی لین دین کریں‘ تحریک انصاف کے آزادوں کو جنسِ بازار نہیں بنایا جانا چاہئے۔ ان پر بھی لازم ہے کہ اپنے وقار اور اعتبار کو صدمہ نہ پہنچنے دیں اور ان کے مخالفین بھی انہیں دعوت گناہ دینے کی جسارت نہ کریں۔
جماعت اسلامی کو بڑا صدمہ یوں پہنچا ہے کہ سراج الحق اپنے آبائی حلقے سے تحریک انصاف کے 'آزاد‘ سے شکست کھا گئے ہیں۔کراچی سے حافظ نعیم الرحمن کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں۔ یہ شہر متحدہ قومی موومنٹ نے دوبارہ ''فتح‘‘کر لیا ہے یا حافظ نعیم کے بقول طشتری میں رکھ کر اسے پیش کر دیا گیا ہے۔ سراج الحق نے البتہ اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ جماعت کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ نکتہ اسے بے اطمینانی میں بدل دیتا ہے کہ پارلیمانی نظام میں طاقت ووٹوں سے نشستوں میں منتقل نہ ہو تو ہوا میں اُڑ جاتی ہے۔
تحریک انصاف کو ایک جماعت کے طور پر منتخب اداروں میں کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں نگران حکومت کو دور کر دینی چاہئیں‘ اس کیلئے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ اگر نگران حکومت کو اس کی توفیق نہ ہو تو پھر سپریم کورٹ کی طرف نگاہیں مرکوز ہوں گی۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے۔ تحریک انصاف پورے ملک میں دندنا رہی ہے ‘ ہر اسمبلی میں اس کے نمائندے موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی شوق سے دائو پیچ لڑائیں اور اپنے یا ایک دوسرے کے سروں پر جو بھی کلغیاں سجائیں‘ قوم ان سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے سر جو سہرا عوام نے باندھا ہے‘ اسے نوچنے کی کوشش نہ کریں۔ عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں جو کچھ بھی کیا ہو اور اپنی سیاست کی بنیاد جس طرح بھی دوسروں کی تخریب پر رکھی ہو‘ ان کی وہ طاقت ضرور تسلیم کی جانی چاہئے جو 8 فروری نے انہیں فراہم کی ہے۔ اس دن کا تقاضا یہی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)