آئینی ترمیم کے ذریعے دو اہداف حاصل کیے گئے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان ریٹائر نہ ہو پائے‘ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار اقبال ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیے گئے۔ کسی بھی اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس کی مدت (Tenure) کو چار سال پر محیط ہونا تھا۔ اگر کوئی صاحب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جائیں تو بھی وہ چار سال کی مدت پوری کیے بغیر ریٹائر نہیں ہو سکتے تھے‘لیکن اگر چیف صاحب کی مدتِ ملازمت باقی ہو اور وہ چار سال کیلئے چیف جسٹس رہ چکے ہوں تو اُنہیں اپنا منصب چھوڑنا پڑنا تھا۔وہ سینئر جج کے طور پر ملازمت جاری رکھ سکتے تھے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان اس ترمیم کے نتیجے میں ریٹائر نہ ہو پائے۔ سینئر ترین جج جسٹس انوار الحق کا راستہ روک لیا گیا‘ لیکن لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال کا معاملہ مختلف تھا‘وہ چار سال پورے کر چکے تھے لیکن ان کا عرصۂ ملازمت ختم نہیں ہوا تھا۔ان کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ جس عدالت کے وہ سربراہ رہے ہوں‘اس میں ایک جج کے طور پر کام جاری رکھیں۔انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور یوں عہدہ خالی ہو گیا۔اب بلا خوفِ تردید مولوی مشتاق حسین سینئر ترین جج تھے‘ ان کی ''تاجپوشی‘‘ یقینی تھی‘ لیکن اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے ذاتی دوست جسٹس اسلم ریاض حسین پر نگاہِ انتخاب ٹھہری‘ اور وہ ساتویں نمبر سے پہلے پر لا بٹھائے گئے۔وہ تحریک پاکستان کی ممتاز رہنما بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے صاحبزادے تھے‘ اور تحریکی حوالے سے یحییٰ بختیار کے ہم دمِ دیرینہ۔مولوی مشتاق حسین کو یہ دوسری چوٹ تھی‘ جو بھٹو اقتدار نے لگائی تھی۔ انہوں نے استعفیٰ تو نہ دیا لیکن رخصت پر چلے گئے‘جب تک اسلم ریاض حسین چیف جسٹس رہے‘ مولوی صاحب نے فرائض نہیں سنبھالے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ اقتدار میں مولوی صاحب نے ریلیف دیا تھا‘ گورنر نواب کالا باغ اور انکے ''آقا‘‘ فیلڈ مارشل کی سرخ سرخ آنکھوں سے مرعوب ہونے کے بجائے میانوالی اور ساہیوال جیل کے قیدی ذوالفقار علی بھٹو کا پروانۂ رہائی جاری کر دیا تھا‘ اس لیے مولوی صاحب کو بھٹو اقتدار میں چیف جسٹس بننے کے اہل نہ سمجھا گیا۔یہ نکتہ دیوار بن گیا کہ ایوب خان اور کالا باغ اقتدار کو خاطر میں نہ لانے والا جج اگر اب چیف جسٹس بنا ڈالا گیا تو وہ بھٹو اقتدار کو کیوں خاطر میں لائے گا؟ اے روشنی ٔ طبع تو برمن بلا شدی...
آئینی و قانونی نکات‘ اور بھٹو صاحب کے خلاف مقدمے میں وکلائے استغاثہ کے دلائل اور شواہد سے قطع نظر ‘ جس مولوی مشتاق حسین سے محفوظ رہنے کیلئے بھٹو اقتدار نے ایک انتہائی جونیئر جج کو چیف جسٹس کے منصب پر لا بٹھایا تھااور ان کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی تھی‘وہی ان کے خلاف دو دھاری تلوار ثابت ہوا۔ موصوف اپنے دل میں غبار بھرے بیٹھے تھے کہ ان کی اپنی نظر میں ان کا مقام بہت بلند تھا۔ مولوی صاحب ایک پُرزور جج تھے‘ ان کے کسی حکم سے سرتابی کی مجال نہیں ہو سکتی تھی‘ ان کے اپنے ذہن میں چیف جسٹس کے طور پر صوبے کو انصاف فراہم کرنے کا ایک نقشہ تھا‘ وہ عدالتی نظام کو انتہائی مؤثر اور توانا بنانا چاہتے‘اور تاریخ کے صفحات پر اپنا نقش جمانا چاہتے تھے۔ جب جسٹس اسلم ریاض حسین کو چیف بنایا گیا تو چند اخبار نویس دوستوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مولوی صاحب کہیں طیش میں آ کر استعفیٰ نہ دے دیں‘اس طرح عدلیہ ایک اعلیٰ پایے کے منصف سے محروم ہو جائے گی۔تجویز ہوا کہ میں مولوی صاحب سے ملوں‘اور اُن سے گزارش کروں کہ وہ استعفیٰ نہ دیں۔ میری مولوی صاحب سے کوئی ملاقات نہیں تھی‘ لیکن اخبار نویس کے طور پر میں غیر معروف بھی نہیں تھا۔ہمارے ہفت روزہ کی دھمک سے ایوان لرزتے رہتے تھے۔ سو‘ میں نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ٹیلی فون کیا تو مولوی صاحب نے خود ہی اسے رسیو کیا‘اپنا نام بتا کر ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو‘ انہوں نے ازراہ ِکرم اگلے روز کا وقت دے دیا۔ ماڈل ٹائون میں ان کے گھر پہنچا تو ششدر رہ گیا۔ان کے ڈرائنگ روم میں بوسیدہ سا فرنیچر پڑا تھا۔ماحول گواہی دے رہا تھا کہ اس مکان کے رہائشی کو دنیاوی سازو سامان سے کوئی رغبت نہیں۔ وہ قناعت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مولوی صاحب کی خدمت میں اپنے دوستوں کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے فوراً کہا‘ آپ کی بات درست ہے‘ میں استعفیٰ دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ ''وہ‘‘ مجھے سپریم کورٹ بھیجنے کا کہہ رہے تھے لیکن ہم تو اپنے علاقے کے تھانیدار تھے‘ اسے ہی درست کرنا چاہتے تھے‘ہمیں ڈی آئی جی یا آئی جی بننے سے کیا غرض؟ ان کا جواب سن کر اطمینان تو ہوا‘لیکن یہ بے اطمینانی بھی پیدا ہوئی کہ مولوی صاحب کے نزدیک چیف جسٹس کا منصب کیا اہمیت اور نوعیت رکھتا ہے‘اور وہ کس طرح اس کے ذریعے نظام کی چھان پھٹک کرنا چاہتے ہیں‘دوستوں کو واپس آ کر بتایا تو سب میرے اطمینان اور بے اطمینانی میں شریک ہو گئے۔مولوی صاحب رخصت پر چلے گئے‘ اور بات آئی گئی ہو گئی۔ اگر مولوی صاحب کو چیف جسٹس بنا دیا جاتا تو اُن کے دل میں وہ کھٹاس جمع نہ ہوتی‘ جس کا مظاہرہ بعدازاں دیکھنے کو ملا‘اور جو بھٹو صاحب کو ''انصاف‘‘ دینے پر بضد نظر آئی۔بھٹو صاحب نے اپنے تحفظ کیلئے جو قدم اٹھایا تھا‘ وہ بالآخر انہیں غیر محفوظ بنانے پر منتج ہوا۔
مولوی مشتاق حسین ہوں یا انکے دوسرے رفقا جو بینچ پر بیٹھے تھے‘ یہ سب کے سب اعتبار اور وقار کے حامل تھے‘ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے کردار پر اُنگلی اٹھائی جا سکے‘چیف جسٹس انوار الحق بھی اپنی شان رکھتے تھے۔ وہ ڈپٹی کمشنر کا منصب چھوڑ کر ڈسٹرکٹ جج بنے تھے کہ اُن دنوں سول سروس کے اعلیٰ افسران کے پاس یہ چوائس موجود تھا کہ وہ انتظامیہ سے عدلیہ میں جا سکتے تھے۔ ڈپٹی کمشنری سے دستبرداری یہ ظاہر کرتی ہے کہ شیخ صاحب کو اپنا تحکم قائم کرنے سے کوئی غرض نہیں تھی‘ڈپٹی کمشنر کے طور پر انہوں نے اپنے کردار کی دھاک بٹھائی تھی لیکن اُنکے مزاج میں افسرانہ خو بو نہیں تھی۔وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم رہنما رہے تھے‘تحریک پاکستان اُنکے خون میں رچی بسی تھی‘انہوں نے سادہ اور آسان زندگی گزاری ‘ اور لالچ یا ہوس سے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیں ہونے دیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ لاہور میں سماجی تقریبات کی جان بنے رہے‘ بلا خوف و خطر روز و شب گزارتے رہے‘ان سے بھٹو فیصلے کے بارے میں جب بھی سوال کیا گیا‘ انہوں نے تبصرے سے گریز کیا۔میرے شدید اصرار پر بھی وہ اس موضوع پر بات کرنے کیلئے تیار نہ ہوئے‘ اُنکا یہی کہنا تھا کہ جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں‘ اپنی زبان سے نہیں۔ مجھ پر زور دیا کہ فیصلہ اچھی طرح پڑھوں اور پھر رائے قائم کروں۔ اُن سے گفتگو کے بعد ہی میں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا اردو ترجمہ کرایا‘ اور اپنے ہفت روزے کے ایک خصوصی شمارے میں اسے شائع کیا‘تاکہ لوگ اسے پڑھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں‘سنی سنائی پر رائے نہ دیتے رہیں۔
مولوی مشتاق حسین ہوں یا شیخ انوار الحق انہیں کسی دبائو میں نہیں لایا جا سکتا تھا‘ نہ کسی لالچ میں ورغلایا جا سکتا تھا‘اُن کے اپنے احساسات‘ جذبات یا ''تعصبات‘‘ ہی انکی رائے پر اثر انداز ہو سکتے تھے‘ اور مقدمے کے معاملات پر غور کرتے ہوئے وہی اثر انداز ہوئے ہوں گے۔مولوی صاحب بھٹو صاحب کی طرح ''خبط ِ عظمت‘‘ میں مبتلا تھے‘ سو اُن دونوں کا ٹکرائو کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے‘ جہاں تک انوار الحق کا تعلق ہے‘ تحریک پاکستان سے انکی وابستگی اور سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے‘ دوران اور بعد میں پیش آنیوالے واقعات نے اُنہیں متاثر کیا ہو گا‘ اور وہ بھٹو صاحب کے بارے میں ایسی رائے قائم کر چکے ہوں گے‘ جو اُنکے حامیوں یا مداحوں کی رائے کے علی الرغم ہو۔ ان پر کوئی دبائو ہو سکتا تھا‘ تو اپنی ہی سوچ‘ اپنے ہی نظریات یا اپنے ہی سلسلۂ خیالات کا دبائو ہو گا‘ جس میں وہ بہتے چلے گئے ہوں گے۔ (جاری)
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)