اسلام آباد میں تحریک انصاف کا جلسہ بڑی دھوم دھام سے منعقد ہو رہا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیر ہدایت انتظامیہ اس کی اجازت دے چکی تھی۔ پورے پاکستان میں تحریک کے رہنما اور کارکن حرکت میں تھے۔ اسلام آباد میں جمع ہونے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اور دھاڑا جا رہا تھا کہ یہ جلسہ انقلاب برپا کر دے گا‘ عوام کا ایسا سمندر ہو گا کہ جس میں بہت کچھ غرق ہو جائے گا لیکن پھر وہی ہوا جو کہ ہوتا چلا آیا ہے۔ انتظامیہ نے ایک انگڑائی لی اور ''پروانۂ اجازت‘‘ منسوخ کر ڈالا۔ یہ گویا جلتی پر تیل تھا‘ علی امین گنڈا پور سے لے کر شیر افضل مروت تک آگ بگولہ ہو گئے۔ للکارنے لگے کہ جلسہ ہر حالت میں اور ہر صورت ہو گا۔ ایک دوسرے کو اُکسایا اور گرمایا جانے لگا۔ سوشل میڈیا ''مجاہدین‘‘ بھی حرکت میں آئے اور ایسا سماں باندھا کہ الامان الحفیظ۔ لگتا تھا حکومت کے دن گِنے جا چکے ہیں۔ جلسہ کیا ہو گا پانی پت کی چوتھی لڑائی چھڑے گی اور حکمرانوں کے ساتھ وہی ہو گا جو ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ دُم دبا کر بھاگیں گے اور اگر دُم کی حفاظت میں لگ گئے تو سر سلامت نہیں رہ سکیں گے۔ سر اور دھڑ کی بازی ایسے لگے گی کہ نہ سر رہے گا نہ دھڑ۔ خیبرپختونخوا سے اعلان ہوا کہ ہر حال میں صوابی انٹر چینج پر لوگ اکٹھے ہوں اور پھر بگٹٹ وزیراعلیٰ کی قیادت میں راستے میں آنے والی ہر شے کو کچلتے ہوئے میدانِ کار زار پہنچ جائیں۔ خواب دیکھے اور دکھائے جا رہے تھے کہ بانی چیئرمین کی رہائی کا وقت آن پہنچا ہے‘ تاج اُچھالے اور تخت گرائے جائیں گے تو جیل کی دیواریں کب سلامت رہ سکیں گی؟ اولاً تو داروغہ خود ہی جان کی امان مانگتے پائے جائیں گے‘ اگر کوتاہی سرزد ہو گئی تو عوام کا سیلاب انہیں بہا کر لے جائے گا۔ جنابِ خان اپنے لوگوں کے درمیان ہوں گے اور ایک بار پھر وہ سب کچھ ہونے لگے گا جو اُن کے جیل جانے سے پہلے ہو رہا تھا۔
یہ سب کچھ سمجھایا اور بتلایا جا رہا تھا کہ اچانک خبر آئی‘ بجلی تھی کہ جو ارمانوں پر گرا دی گئی۔ سات بجے صبح اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر اڈیالہ جیل پہنچ گئے۔ انہیں ''قیدی بادشاہ‘‘ نے اذنِ باریابی بخشا‘ اسے کچھ ایسا بتایا اور کچھ ایسا دکھلایا کہ جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ کورنش بجا لانے والوں کو حکم دیا گیا کہ جاؤ اور ہر خاص و عام کو بتا دو‘ ظلِ الٰہی نے این او سی کو منسوخ کرنے کا فیصلہ قبول کر لیا ہے‘ جلسہ نہیں ہو گا‘ اس کے لیے ستمبر کی کوئی تاریخ مقرر کر دی جائے گی۔ جلسہ منسوخ ہو کر بھی منسوخ نہیں ہوا تھا‘ انعقاد کرنے کا اعلان جوں کا توں تھا لیکن تاریخ بدل دی گئی تھی۔ ملک اور قوم کی تاریخ تو نہ بدلی‘ جلسے کی تاریخ بدل گئی۔ اس پر بڑے چھوٹے لال بھبوکاہو گئے۔ اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر پر غصہ نکالنے لگے‘ اُنہیں قیدی بابا کے پاس جانے‘ جیل کا دروازہ کھلوانے کی جرأت کیسے ہوئی؟ علیمہ خان کہ خان کی بہن اور میدانِ سیاست میں قدم رکھنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہیں‘ پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں پر برسنے لگیں جنہوں نے جلسے کی منسوخی (یا التوا) کا اعلان کرایا تھا۔ کوسنے دینے لگیں کہ انہیں خان کی رہائی مطلوب ہی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی کارکن ایک دوسرے سے اُلجھتے پائے گئے۔ ہر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا۔ اسے ردّ انقلاب کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا۔ تھوڑا سکون آیا تو تحقیق و تفتیش شروع ہوئی۔ جیل کا دروازہ کس نے کھلوایا ہے؟ ہوّا کس نے دکھایا ہے؟ سیدھی سی بات سمجھنے کو کوئی تیار نہ تھا کہ خان کی مرضی کے بغیر کوئی ان سے کیسے مل سکتا تھا؟ جب انہوں نے اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر سے ملاقات کرکے انہیں مامور کر دیا تو اب جو غصہ اتارنا یا نکالنا ہے‘ وہ ان پر اتارو۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ اُوسان بحال ہونے لگے تو یہ ''راز‘‘ کھلتا گیا کہ خان سے ''کسی‘‘ نے رابطہ کیا ہے؟ وہ ''کسی‘‘ کون تھا‘ اس کے بارے میں اندازے لگائے جانے لگے۔ ابھی تک ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہیں‘ موافق تو پریشان تھے ہی مخالف بھی حیران ہیں کہ یہ پَل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا؟ جیل کے قواعد کے مطابق صبح سات بجے کسی قیدی یا ملاقاتی سے ملنا ممکن نہیں ہے‘ اس کے لیے کسی بھاری بھر کم شخص کا بھاری بھر کم حکم چاہیے۔ جیل کے دروازے کھلے اور اُس وقت کھلے جب کہ کسی طور کھل نہ سکتے تھے۔ دو پارٹی لیڈر اُن سے گزر کر خان تک پہنچے‘ خان نے ان کا سواگت کیا‘ ان کے مشورے کے مطابق فیصلہ کیا۔ یہ سامنے کا منظر ہے لیکن اس کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ خان صاحب عدالتی کارروائی میں حصہ لینے کے لیے کنجِ قفس سے باہر آئے تو میڈیا کی تیز نگاہوں کی زد میں تھے۔ دیکھنے والی آنکھوں نے ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کو بھانپ لیا۔ وہ بدلے بدلے سے نظر آ رہے تھے۔ چہرہ کھِلا ہوا تھا‘ وہ حکومت سے بات چیت نہ کرنے کا اعلان تو کر رہے تھے لیکن آنکھوں سے نااُمیدی کے بجائے اُمید کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ گویا جلسے کی منسوخی (یا التوا) کے لیے جو کچھ ہوا‘ اس نے ان میں نئی روح پھونک دی تھی۔ رابطہ ہو چکا تھا‘ بات آگے بڑھ چکی تھی‘ ''کُٹّی‘‘ کو کاٹ دیا گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ معاملہ ایک جلسے کا تھا لیکن ایک جلسے کے لیے بات ہو سکتی ہے‘ سمجھی اور سمجھائی جا سکتی ہے تو آگے کیوں نہیں بڑھ سکتی؟ ایک نکتے سے معاملہ کئی نکتوں کی طرف کیوں نہیں جا سکتا؟ الطاف حسن قریشی کہاں یاد آ گئے ؎
سامنا ہو گیا
چشم تر ہو گئی
نبض ڈوبی رُکی
تیز تر ہو گئی
جنہوں نے قاصد بھیجے تھے‘ وہ کبھی خود بھی آئیں گے یا اس پر مجبور کر دیے جائیں گے۔ ایک دن کا امن حاصل کرنے کے لیے اتنا تردد ہو سکتا ہے تو امن اور چین کی بانسری مسلسل بجانے کے لیے کچھ اور ترددکیوں نہیں کیا جا سکتا۔ خان صاحب چشمِ براہ ہیں‘ کوئی قدم بڑھائے تو سہی‘ ہاتھ ملائے تو سہی‘ گلے لگائے تو سہی ؎
جگر وہ بھی از سر تا پا محبت ہی محبت ہیں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی
تحریک انصاف اگر ان مذہبی جماعتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہے تو اسے ضرور ایسا کرگزرنا چاہیے جن کے رہنما اور کارکن بڑی تعداد میں سپریم کورٹ کے باہر جمع ہو کر امتناعِ قادیانیت قانون کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے‘ انہی کی وجہ سے تصادم کا خطرہ پیدا ہوا تھا جو جلسے کے التوا کا جواز بنایا گیا۔ اگر صبح سات بجے جیل کے دروازے کھلوانے والے چاہیں تو وہ بھی اس شکریے میں شریک ہو سکتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے پُرجوش کارکنوں نے قاضی فائز عیسیٰ سے ان کے فیصلے کے دو پیرا گراف حذف نہیں کرائے‘ ''قیدی بادشاہ‘‘ اور ''داروغہ‘‘ سے بھی نظرثانی کی اپیلیں منظورکرا لی ہیں۔ سپریم کورٹ نظرثانی پر نظرثانی کرتے ہوئے علمائے کرام کو ٹھنڈا کر سکتی ہے‘ تو قیدی نمبر 804 کیوں اپنے معاملات پر نظرثانی نہیں کر سکتے۔ مقدمات پر مقدمات قائم کرنے والے اپنے احکامات میں سے چند پیرا گراف کیوں نہیں حذف کر سکتے؟ برادرِ عزیز کامران شاہد لاکھ خبر دیتے رہیں کہ دروازے ہنوز بند ہیں‘ یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ دروازہ نہیں کھولنا تھا تو پھر تالہ کیوں کھولا؟
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)