پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ(پیکا) میں یکطرفہ ترامیم کے ذریعے اسے مزید کاٹ دار بنا دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ ترامیم منظور کی گئیں تو ایوانِ صدر سے توقع لگائی گئی تھی کہ وہاں ان پر جلدی سے دستخط نہیں کیے جائیں گے۔ میڈیا تنظیموں کے اعتراضات اور خدشات دور کرنے کی سعی ہو گی اور جنابِ صدرِ پاکستان اسے واپس حکومت کو بھجوا دیں گے کہ وہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد اسے قابلِ قبول بنائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جناب آصف علی زرداری نے بھی کان بند کرکے دستخط کیے اور ترمیمی بل کو قانون کا حصہ بنا ڈالا۔ جناب عطااللہ تارڑ سے لے کر محترم عرفان صدیقی تک دلاسہ دے رہے ہیں کہ گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں گیا۔ تارڑ صاحب کا کہنا ہے کہ قواعد و ضوابط بناتے وقت میڈیا تنظیموں کے خدشات کا ازالہ کر دیا جائے گا۔ اُن کی طرف سے قانون کے شق وار مطالعے پر زور دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ شق وار ترمیمات تجویز کی جائیں جبکہ عرفان صدیقی کا کہنا ہے اگر دستور میں ترمیم کے لیے 26ویں ترمیم لائی جا سکتی ہے تو پیکا ایکٹ کی ترمیمات میں مزید ترمیم بھی کی جا سکتی ہے اس لیے آگ بگولہ میڈیا ورکرز ٹھنڈا پانی پئیں لیکن میڈیا تنظیموں کے نمائندے بضد ہیں کہ عملدرآمد روکا جائے اور باقاعدہ مشاورت کے بعد تبدیلی کر کے ہی قانون کو نافذ کیا جائے۔ اعلیٰ عدالتوں میں بھی ترمیمی بل کو آئین میں درج بنیادی حقوق کے منافی قرار دے کر چیلنج کر دیا گیا ہے‘ کسی بھی عدالت نے ابھی تک حکم امتناعی جاری نہیں کیا لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ انصاف کے ایوانوں میں شنوائی ہو گی اور ترمیمی بل کے دانت کھٹے کر دیے جائیں گے۔ عدالتوں میں جو کچھ بھی ہو اُس سے قطع نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت صورتِ حال کا احساس کرے اور بے جا ضد کے بجائے میڈیا نمائندوں کے دلائل سنے‘ اُن کے خدشات دور کرے اور ایسی تبدیلیاں یقینی بنائے جس سے وہ اطمینان کا سانس لے سکیں۔
پیکا نو سال پہلے مسلم لیگ(ن) کے دورِ حکومت میں ایجاد کیا گیا تھا‘ وہ دن جائے اور آج کا آئے‘ اقتدار پر براجمان لوگ اسے سخت تر بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جبکہ حزبِ اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے والوں کو (اس کی وجہ سے) آزادیٔ اظہار خطرے میں نظر آتی ہے۔ گزشتہ نو برس شاہد ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف دونوں نے اس پر شدید تنقید بھی کی ہے اور اس کے فوائد اور ثمرات کی تفصیل بیان کرنے میں بھی وقت ضائع کیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے متعلقین اس کا نشانہ بنے ہیں اور انہوں نے ایف آئی اے کے اقدامات کو بھگتا بھی ہے۔ گزشتہ نو سال کے دوران حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ سوشل میڈیا اپنے کام میں مصروف رہا ہے‘ جھوٹ گھڑا اور پھیلایا جاتا رہا ہے‘ پیکا کے نفاذ سے کوئی مثبت نتیجہ خیزی ممکن نہیں ہو سکی۔
المیہ یہ ہے کہ غم و غصے کا اظہار تو سوشل میڈیا کے خلاف کیا جا رہا ہے‘ لیکن تلوار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سر پر لٹکا دی گئی ہے۔ اربابِ اقتدار یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ سوشل‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا نہیں جا سکتا۔ تینوں کے احوال و معاملات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو کچھ بھی منظر عام پر آتا ہے اُس کی ذمہ داری قبول کرنے والے موجود ہیں۔ اخبار کو شائع کرنے کے لیے ڈیکلریشن اور ٹی وی چینل چلانے کے لیے لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔ جو کچھ بھی چھپتا یا نشتر ہوتا ہے اُس کی ذمہ داری لینے والے منظرعام پر ہوتے ہیں‘ قانون کے سامنے جوابدہ بنائے جا سکتے ہیں۔ دونوں کے لیے قواعد اور ضوابط موجود ہیں۔ پریس کونسل اور پیمرا میں شکایات درج کرائی جا سکتی ہیں‘ اُن کا ازالہ ہو سکتا ہے‘ ہتک عزت کے قوانین کے تحت کارروائی بھی ہو سکتی ہے لیکن سوشل میڈیا کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ سب سے بڑا اور بنیادی فرق تو یہ ہے کہ اس میڈیا کے جتنے بھی پلیٹ فارم ہیں‘ ایکس‘ فیس بُک‘ یو ٹیوب اور ٹک ٹاک‘ ان میں سے کوئی بھی ہمارے کسی قانون کے سامنے جوابدہ نہیں ہے‘ نہ ہی ان میں سے کسی کا دفتر پاکستان میں موجود ہے۔ یہ بین الاقوامی پلیٹ فارم ہیں جو کسی بھی پاکستانی ادارے یا عدالت کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اخبار میں جو کچھ چھپتا ہے‘ اُس کے لیے لکھنے والے کے ساتھ ساتھ پبلشر اور ایڈیٹر بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر جو کچھ نشر ہوتا ہے‘ اُس کی ذمہ داری میں اینکر یا رپورٹر کے ساتھ ساتھ لائسنس ہولڈر بھی شریک ہوتا ہے اور اُس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے جو بھی مالک یا منتظم ہیں‘ وہ کسی قانون کے تابع نہیں ہیں‘ نہ ہی اُس کے سامنے جوابدہ ہیں‘ نہ ہی وہ نشر کیے جانے والے مواد کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں‘ نہ ہی ہماری دسترس میں ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے کسی شخص کا پاکستان میں مقیم ہونا ضروری نہیں۔ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں بیٹھ کر پاکستانی ناظرین یا قارئین کے کانوں یا آنکھوں میں کچھ بھی انڈیل سکتا ہے۔ جو خواتین و حضرات پاکستان کے اندر موجود ہیں‘ اُن تک تو قانون کی رسائی ممکن ہے لیکن غیر ممالک میں بیٹھ کر نشانہ باندھنے والوں کو نشانہ بنانے والا کوئی آلہ یا ہتھیار ہمارے ادارے ابھی تک ایجاد نہیں کر سکے۔ چین جیسے ممالک نے تو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنا لیے ہیں‘ غیر ملکی اداروں پر اپنی حدود بند کر دی ہیں‘ کیا ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب ابھی تک پاکستان کی کسی حکومت یا ادارے کی طرف سے فراہم نہیں کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی بدتمیزی یا بے لگامی ہو رہی ہے‘ اس کا غصہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نکالا جاتا ہے ؎
اور تو بس نہیں چلتا ہے رقیبوں کا مگر
سوز کے نام کو لکھ لکھ کے مٹا دیتے ہیں
سوشل میڈیا کو قانون کے سامنے جوابدہ بنانے کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے الگ کیا جائے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے جو ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہیں اُن پر پیکا کا اطلاق نہ ہو۔ جب تک یہ تمیز نہیں ہو گی‘ معاملہ اُلجھا رہے گا۔ سوشل میڈیا کو جس پیمانے پر قانون کے تابع بنایا جا سکتا ہے وہ بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا اپنی ساخت‘ نوعیت‘ مزاج‘ طریق کار اور افرادِ کار کے حوالے سے یکسر مختلف ہے‘ اسے الگ تھلگ کرکے اس سے الگ معاملہ کرنا ہو گا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خلط ملط کرنے سے کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔
آہ‘ جسٹس فقیر محمد کھوکھر
سپریم کورٹ کے سابق جج فقیر محمد کھوکھر مختصر علالت کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ چند ہی روز پیشتر اُنہیں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا لیکن وہ یہ ذمہ داری سنبھال نہ سکے۔ جسٹس مرحوم ایک عالی دماغ قانون دان تھے۔ اُنہیں قانون کا ''انسائیکلوپیڈیا‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ مختلف مقدمات کی تفصیلات اور نظیریں اُنہیں ازبر تھیں۔ بڑے بڑے قانون دان اُن سے استفادہ کرتے‘ وہ ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی تھے۔ اللہ اُن کی مغفرت کرے ؎
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟
اُٹھ گیا ناوک فگن‘ مارے گا دِل پر تیر کون؟
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ '' دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)