"MSC" (space) message & send to 7575

اپنے اپنے گریبان میں

پاکستانی سیاست پر رمضان کے مہینے کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ جو کچھ اس مبارک مہینے کے آغاز سے پہلے ہو رہا تھا‘ وہی اب بھی ہو رہا ہے‘ اپنے گریبان میں جھانکنے پر کوئی تیار نہیں‘ دوسروں کے گریبانوں سے کھیلنے والے بہت ہیں۔ وہ ان میں جھانکتے بھی ہیں اور انہیں چاک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ گریبان چاک کرنا اگرچہ اُردو محاورے میں قابلِ تحسین سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے‘ اپنا احتساب آپ کرنے کی روایت ہمارے ہاں مستحکم نہیں ہو پائی۔ تحریک انصاف اس وقت حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت قائم ہے تو مرکز اور پنجاب میں یہ دستوری اپوزیشن کے منصب پر فائز ہے۔ قومی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اسی کے سپوت ہیں‘ عمر ایوب خان اور ملک احمد خان بھچر دونوں طرح طرح سے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں لیکن عمران خان ایک سال سے زیادہ ہونے کو آیا‘ اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ان پر درجنوں مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ مختلف عدالتوں میں چند ایک کی سماعت بھی جاری ہے جبکہ درجنوں قطار میں لگے کھڑے ہیں‘ ان کی باری خدا معلوم کب آئے گی‘ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فائلوں میں پڑے پڑے ہی دم توڑ دیں۔ وقت کی کوئی کروٹ انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دے۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ ابھی تک اُلجھا ہوا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے جو انتخابات کرائے ہیں‘ الیکشن کمیشن ان میں سے کیڑے نکال رہا ہے‘ اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان اور ان کے رفقا کی مدتِ ملازمت ختم ہونے کے باوجود وہ اپنے مناصب پر موجود ہیں اور حسبِ توفیق وہی کچھ کر رہے ہیں جو کچھ کرنے میں ان کا پورا عہد گزرا ہے‘ جب تک نئے چیف الیکشن کمشنر مقرر نہیں ہوں گے‘ وہ اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے۔ حکومت کو اس کام میں کوئی جلدی دکھائی نہیں دیتی‘ وزیراعظم نے مشاورت کیلئے قائد حزبِ اختلاف سے تادمِ تحریر کوئی رابطہ قائم نہیں کیا‘ گویا آئین کے مطابق جو کارروائی بہت پہلے شروع ہو جانی چاہیے تھی‘ وہ نہ صرف شروع نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کے شروع کرنے پر غور کا آغاز کرنے کی بھی کوئی خبر نہیں آئی۔ اگر یہی صورت رہی تو پھر موجودہ الیکشن کمیشن نئے انتخابات تک بھی قائم رہ سکتا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ان رہنماؤں کو‘ جو جیل سے باہر ہیں‘ جیل میں کھولتے اُبلتے عمران خان اور دوسرے خواتین و حضرات کو رہا کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی چودھراہٹ جاری رکھنے کے لیے ''سٹیٹس کو‘‘ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کوئی ایسی تدبیر نہیں کر رہے جس سے عمران خان کا عرصۂ اِسارَت کم ہو۔ شاہ محمود قریشی جو تحریک کے وائس چیئرمین ہونے کی وجہ سے خان صاحب کے جانشین سمجھے جاتے تھے وہ بھی جیل میں ہیں لیکن انہیں کوئی یاد نہیں کر رہا۔ کوئی وکیل ان کی طرف جاتا ہے نہ پارٹی کارکن ان سے ملنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ان سے کسی مشاورت کی ضرورت کسی سطح پر محسوس نہیں کی جا رہی۔ عمران خان کی زبان پر کبھی ان کا نام آیا ہے‘ نہ ہی بیرسٹر گوہر‘ عمر ایوب یا سلمان اکرم راجہ نے ان کی سلاخوں کے پیچھے جھانکنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ تحریک انصاف کے جو دوسرے بڑے بڑے رہنما (محترمہ یاسمین راشد‘ محمود الرشید‘ عمر چیمہ اور سینیٹر اعجاز چودھری وغیرہ) جیلوں کو آباد کیے ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں بھی کہیں کوئی تشویش نہیں پائی جاتی۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بگٹٹ دوڑ رہا ہے‘ کشتوں کے پشتے لگا رہا ہے‘ امریکہ اور یورپ میں بیٹھے تحریکیے آگ اُگل رہے ہیں‘ خان صاحب کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیل رہے ہیں لیکن ہر تدبیر اُلٹی پڑ رہی ہے۔ ان کی شعلہ فشانیاں خان صاحب کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ سے جو امیدیں لگائی گئی تھیں اور انتخابی مہم میں عطیات دینے والے ان سے تعلق کے جو دعوے کر رہے تھے‘ وہ سب دم توڑ چکے ہیں یا ہچکیاں لے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران حکومتِ پاکستان کا جو پُرزور شکریہ ادا کیا‘ اس نے ہواؤں کا رُخ تبدیل کر ڈالا ہے۔ امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرنے والا شریف اللہ سی آئی اے کے ساتھ مل کر آئی ایس آئی نے پکڑا اور امریکی حکومت کی نذر کر دیا‘ اپنی اس عظیم الشان کامیابی پر صدر ٹرمپ پھولے نہیں سما رہے‘ وہ اس کی پوری پوری داد وصول کرنے کے لیے اس کے تذکرے میں مگن ہیں۔ معتبر ارکانِ حکومت بھی ڈونگرے برسا رہے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی گڈی کو اونچا اُڑاتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کے لیے صدر ٹرمپ کے ''ایگزیکٹو آرڈر‘‘ کا انتظار کرنے والوں کے طوطے اُڑ چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا موڈ کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے لیکن آخری خبریں آنے تک امریکہ میں سرگرم انصافی ٹولہ شدید پریشانی کا شکار ہے۔
شہباز حکومت سکون میں ہے۔ اپنا ایک سال مکمل ہونے پر کامیابی کے ڈھنڈورے پیٹے جا رہے ہیں‘ دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل چکا ہے‘ مہنگائی کے طوفان پر قابو پایا جا چکا‘ شرح سود کم ہو چکی‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم ہو چکا‘ سو اب آگے بڑھنے کی تیاریاں ہیں۔ دہشت گردی کا جِن بے قابو نظر آ رہا ہے‘ افغان سرزمین سے آپریٹ کرنے والے دہشت گرد وارداتوں پر وارداتیں کررہے ہیں لیکن مسلح افواج اور حکومت پُرعزم ہیں اور شانہ بشانہ مشکلات کو زیر کرنے میں لگے ہیں۔ حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف ایک وسیع تر اتحاد بنانے کی کوششوں میں لگی ہے لیکن ابھی تک کوئی واضح کامیابی نہیں ہو سکی۔ مولانا فضل الرحمن بیرون ملک ہیں‘ وہ واپس آئیں گے تو ان کے تحفظات پر بات ہو گی۔ شاہد خاقان عباسی بھی متحدہ کارواں کا حصہ بننے کے لیے پَر تول چکے ہیں لیکن سڑکوں کی سیاست انہیں مرغوب نہیں ہے۔ ایک بڑا محاذ بنانے کی کوشش اس بات کا اعلان ہے کہ تحریک انصاف تنہا وہ کچھ حاصل نہیں کر سکی جو حاصل کرنا اسے مقصود تھا۔ عمران خان کی مشکلات کم ہوئی ہیں‘ نہ ہی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ جنابِ خان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اتحادی حکومت کی مشکلات کم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان کو آئندہ کا لائحہ عمل بناتے ہوئے پہلے گزشتہ روز و شب کا حساب کرنا ہو گا۔ حکومت کا گریبان چاک کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا‘ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہنگامے اور تصادم کی سیاست پہلے نتیجہ خیز ہوئی ہے نہ اب ہو گی۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنی موجودہ کیفیت پر مطمئن و مسرور ہو کر نہ بیٹھ جائے اور عمران خان پر لازم ہے کہ پرانی سیاست گری سے اوپر اُٹھ کر سوچیں۔ فریقین ایک دوسرے کو زیر کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار ہوں‘ آمنے سامنے بیٹھیں۔ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کریں۔ عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے‘ اسے غصب یا سبوتاژ کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت اپنائی جائے گی تو سب کے گریبان سلامت رہیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں