"MSC" (space) message & send to 7575

کشمیر کا انتقام

پاکستان اور بھارت کے آسمانوں پر جنگ کے جو بادل منڈلا رہے تھے‘ وہ ایک حد تک چھٹ گئے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مطلع صاف ہو گیا ہے اور نیلا آسمان دکھائی دے رہا ہے‘ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ''گھنگھور گھٹائیں‘‘ ''جھوم جھوم‘‘ کر نہیں آ رہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی کہانی عجیب ہے‘ انہیں سنورتے اور بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ ایسے لمحات آئے ہیں جب دوستی کی مثالی فضا قائم ہوتی دکھائی دے رہی تھی‘ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تناؤ میں ایسا اضافہ ہوا کہ طبلِ جنگ بج گیا۔ واجپائی جی نے کہا تھا کہ دوست تبدیل ہو سکتے ہیں‘ ہمسائے نہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اندھوں کو بھی دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ تو یوں بدلی جا سکتی ہے کہ اس کی دہرائی روک دی جائے۔ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر کی جائے لیکن جغرافیہ نہیں بدلا جا سکتا۔ نہ پہاڑ اٹھا کر کسی دوسری جگہ لے جائے جا سکتے ہیں‘ نہ دریا ''اگائے‘‘ جا سکتے ہیں۔
آج کا بھارت تاریخی طور پر کبھی ایک ملک نہیں رہا‘ مختلف ادوار میں اس کے مختلف حصوں میں مختلف لوگ حکومت کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو کم و بیش 565ریاستیں موجود تھیں۔ ان پر براہِ راست برطانوی حکومت قائم تھی‘ نہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان ریاستوں نے مختلف معاہدوں کے تحت دفاعی‘ خارجی اور مالیاتی امور تاجِ برطانیہ کو سونپے‘ اور داخلی خود مختاری حاصل کر لی۔ ان ریاستوں کے راجے اور نواب اپنی حدود میں اپنا سکہ چلاتے رہے۔ ہندوستان کا ایک تہائی رقبہ اور ایک چوتھائی آبادی دیسی حکمرانوں ہی کے زیر نگیں رہی۔ ان میں نہ تو سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں‘ نہ ''برطانوی ہندوستان‘‘ کی طرح انتخابات کا انعقاد ہوا‘ نہ ان میں آزادی کی تحریک چلی کہ یہاں کے باشندوں کو تو اپنے ''آزاد‘‘ ہونے کا یقین تھا‘ وہ صرف برطانوی ہند کے لوگوں کو غلام گردانتے تھے۔ کئی ریاستوں میں تو برطانوی ہند یا دوسری ریاستوں کے رہنے والوں کو ''غیر ملکی‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی راج ختم ہو رہا تھا تو ان دیسی حکمرانوں کے دِل میں مکمل آزادی کی امنگ پیدا ہوئی‘ لیکن تقسیم ہند کے فارمولے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ان راجوں اور نوابوں کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا تھا۔ آزادی کے بعد جو کچھ ہوا‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایک بھی نوابی ریاست اپنا وجود نہیں رکھتی‘ بھاری تعداد بھارت کی جغرافیائی حدود میں تھی سو اس نے انہیں اپنے اندر ''جذب‘‘ کر لیا‘ جو پاکستان کے حصے میں آئیں وہ پاکستان کا حصہ بن گئیں۔ ایک ریاست جموں و کشمیر کا معاملہ مگر اُلجھ گیا۔ اس کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے تو دوسرے کو بھارت اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے۔ سات سے دس لاکھ بھارتی فوجی یہاں اپنا تسلط قائم کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو کچل نہیں پا رہے۔ اس تنازع نے دونوں ممالک کے تعلقات ہی کو نہیں جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔
اس ریاست کا کوئی زمینی رابطہ بھارت سے نہیں تھا‘ 80فیصد سے زائد آبادی مسلمان تھی‘ اگر برصغیر کی تقسیم منصفانہ ہوتی تو پاکستان سے الحاق اس کا واحد آپشن ہوتا لیکن حد بندی کمیشن نے ماؤنٹ بیٹن نہرو گٹھ جوڑ کے زیر اثر بھارت کو کشمیر تک پہنچنے کے لیے زمینی راستہ فراہم کر دیا۔ آزادی کے فوراً بعد دونوں نئی ریاستیں ایک دوسرے کے مقابل تھیں۔ جنگ شروع ہوئی تو بھارت دوڑ کر سلامتی کونسل جا پہنچا۔ وہاں طویل بحثا بحثی کے بعد طے پایا کہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ریفرنڈم کا انعقاد ہو گا کشمیر کے عوام فیصلہ کریں گے کہ انہیں پاکستان یا ہندوستان کے درمیان کس کا انتخاب کرنا ہے۔ گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کی تحریری یقین دہانی کرائی۔ پاکستان اور کشمیر کے حکمرانوں نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے‘ اس قرارداد پر عمل نہیں ہو سکا۔ بھارت اس سے انکاری ہے۔ نریندر مودی کا رونا کیا روئیں‘ پنڈت نہرو جیسے سیکولر اور تحریک آزادی کے علمبردار نے اپنی زبان کا پاس نہیں کیا ؎
گرمی تمہارے حسن کی میرا تن من جھلس گئی
یہ کیا ہوا میں چاند کی کرنوں سے جل گیا
کشمیر کا تنازع کھڑا نہ کیا جاتا‘ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو‘ ریڈ کلف کو آزادانہ کام کرنے دیتے یا اقوام متحدہ کی قرارداد پر صدق دِل سے عمل کر دکھاتے تو آج پاکستان اور بھارت کے درمیان مثالی تعلقات قائم ہوتے۔ دونوں ایک دوسرے کی طاقت بن جاتے‘ امن اور چین کی بانسریاں بج رہی ہوتیں‘ بھارت کا زمینی رابطہ افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے قائم ہوتا‘ آزادانہ تجارت‘ افراد اور اشیا کی آزادانہ نقل و حرکت ہو رہی ہوتی‘ سرحدی لکیریں بے معنی ہو جاتیں۔ جنوبی ایشیا‘ یورپ کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔
بھارت اور پاکستان کئی جنگیں لڑ چکے۔ آل انڈیا کانگریس کی سیکولر اور نیشنلسٹ وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے دور میں بھارت نے آزادیٔ ہند کے قانون اور روح کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو پہلے علیحدگی پر اُکسایا‘ بعد ازاں ننگی جارحیت کے ذریعے اسے الگ ملک بنا ڈالا‘ اس کارِ بے خیر میں پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادتوں کی بے تدبیریوں اور حماقتوں کا بھی بڑا حصہ ہے‘ اگر انہیں اقتدار کی ہوس اندھا نہ کر دیتی تو بھی تاریخ مختلف ہوتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت براہِ راست فوجی مداخلت نہ کرتا تو بنگلہ دیش وجود میں نہ آ پاتا۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر مطمئن ہونے والے آج کفِ افسوس مل رہے ہیں کہ پچاس سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہاں مسلم قومیت کے احساس کو دفن نہیں کیا جا سکا۔ آج کا بنگلہ دیش اپنے آزادانہ تشخص پر اصرار کر رہا ہے‘ وہاں سے بھارت کو دیس نکالا مل چکا ہے۔
بدقسمتی سے ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں جنگی ماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔ پہلگام میں دہشت گردی کا جو گھناؤنا واقعہ پیش آیا‘ اس کا الزام پاکستان پر لگا کر بھارتی حکومت اور میڈیا جنگی جنون میں مبتلا ہوئے لیکن انہیں دنیا سے کہیں تھپکی نہیں مل سکی۔ ہر ملک نے ثبوت کے بغیر الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کا جوابی بیانیہ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر چکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام سانحے کی آزادانہ غیرجانبدارانہ عالمی تحقیقات کا مطالبہ کر کے مودی اور ان کے حواریوں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔ فوجی قیادت نے بھی اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی دھاک بٹھا دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیدار مغز سربراہ کی آواز پوری دنیا میں گونج رہی ہے‘ اُن کے پیش کردہ ثبوتوں نے حریفانہ بداعمالیوں کا پردہ چاک کر ڈالا ہے۔ بھارت ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے‘ وقوعے کے دس منٹ بعد درج کرائی جانیوالی ایف آئی آر میں پاکستان کو ملزم نامزد کر کے وہ خود کش حملے کا ارتکاب کر گزرا ہے۔ کنٹرول لائن سے سینکڑوں کلو میٹر دور دہشت گرد کیسے پہنچے‘ لاکھوں فوجی ان کا راستہ کیوں نہ روک سکے؟ یہ سوال بھارت کے اندر بھی پوچھا جا رہا ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے تیز قدمی کے ساتھ دنیا بھر سے رابطے کیے‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس یکساں جذبات سے سرشار نظر آئے‘ بھارتی میڈیا اور حکومت منہ لٹکائے بیٹھے ہیں۔ ایٹمی پاکستان ایٹمی بھارت پر واضح کر چکا ہے‘ پہل نہیں کریں گے لیکن حملہ کیا گیا تو پھر جنگ کے خاتمے کا فیصلہ ہم کریں گے۔ کشمیر جنت نظیر کو جہنم بنانے کی کوشش میں مصروف بھارتی حکمرانوں نے اگر روش نہ بدلی تو کشمیر ان سے انتقام لے گا انہیں جہنم میں دھکیل کر رہے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں