بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ ''آپریشن سِندور‘‘ ابھی جاری ہے۔ پہلگام واقعہ کے بعد انہوں نے جو جنگی جنون طاری کیا‘ میدانِ جنگ میں منہ کی کھانے کے باوجود اس میں کمی نہیں آ پا رہی۔ وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں‘ زہر اُگلتے ہیں۔ پاکستانیوں کو تو انہوں نے براہِ راست دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ ان کی گولی کھانے کے لیے تیار رہیں۔ کسی ذمہ دار ملک کے کسی ذمہ دار حکمران کی زبان پر اس طرح کے الفاظ آ ہی نہیں سکتے۔ یہ گویا اس بات کا واضح یا کھلا ثبوت ہے کہ ایک غیر ذمہ دار شخص بھارت کو ایک غیر ذمہ دار ریاست بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ میدانِ جنگ میں پاکستان کے بہادر جوانوں نے حملہ آور کو جو ناکوں چنے چبوائے ہیں‘ اس کی پوری دنیا شاہد ہے۔ بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے بھی برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے ہمارے پانچ طیارے مار گرائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رافیل بہتر اور برتر ثابت نہیں ہوئے۔ ان کی خریداری کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے لیکن مودی کے برسر اقتدار رہتے ہوئے اس کی اُمید نہیں ہے۔ رافیل بنانے والی کمپنی بھارتی حکومت سے رابطہ کر ر ہی ہے کہ اس کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیا جا سکے۔ بھارتی فضائیہ اسے اعتماد میں لینے پر تیار نہیں ہے۔ توقع تو یہی تھی کہ نریندر مودی کو کچھ ٹھنڈ پڑ جائے گی‘ اور وہ ادراک کر لیں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل بات چیت کے ذریعے طے ہونا چاہئیں لیکن لگتا ہے کہ ابھی ان کے ہوش اچھی طرح ٹھکانے نہیں لگے۔ وہ اپنی ہزیمت کو بلند بانگ دعوؤں اور نعروں میں چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس میں بھی اُنہیں ناکامی ہو گی۔ بھارت اسوقت سفارتی سطح پر تنہا ہے۔ پہلگام واقعہ کے حوالے سے اسکے بیانیے کو پذیرائی ملی ہے‘ نہ میدانِ جنگ میں اس کی کارکردگی نے اس کا سر اونچا کیا ہے۔ گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارت کے چہرے پر سیکولر ازم اور جمہوریت کا جو نقاب چڑھایا تھا‘ بی جے پی اور نریندر مودی اسے نوچ رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں‘ مسیحیوں‘ سکھوں اور دلتوں کا جینا حرام ہے۔ انتہا پسند ہندو بھارت کو طاقتور بنانے کے زعم میں اسے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اپنے ہی کروڑوں شہریوں پر زمین تنگ کرنے والے اپنی چتا خود جلا رہے ہیں۔ اس میں انہی کو بھسم ہو جانا ہے۔ اسرائیل کیساتھ یارانہ گانٹھ کر‘ اس کے راستے پر چل کر ایک خونخوار درندے کے طور پر دھاک بٹھانے کی کوشش بالآخر بھارت کو برسوں پیچھے وہاں دھکیل دے گی جہاں اس نام کا کوئی ملک اس جغرافیے کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا۔
نریندر مودی متنازع امور کو طے کرنے کے بجائے طے شدہ معاملات کو متنازع بنانے کی لت میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں۔ دریائی پانی کی تقسیم کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے ادوار میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کو انہوں نے یکطرفہ طور پر ''معطل‘‘ کر دیا ہے‘ حالانکہ اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کی کوئی شق اس میں موجود نہیں۔ اس میں کوئی ترمیم یا تبدیلی دونوں ممالک کے درمیان اتفاقِ رائے ہی سے ممکن ہے۔ کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر اس کا کوئی لفظ یا شوشہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ نریندر مودی اپنے لوگوں کو اس معاہدے کے خلاف بھڑکا رہے ہیں‘ اسے بھارت کے مفاد کے خلاف قرار دے کر اپنے پیشروؤں پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے ناقدین پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ کوئی بھی دوطرفہ معاہدہ کسی ایک ملک کے مؤقف کا آئینہ دار نہیں ہو سکتا۔ فریقین ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھ کر ہی کسی متفقہ نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ کئی عشروں سے نافذ العمل ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگوں کے باوجود اسے ختم یا معطل نہیں کیا گیا۔ دونوں ممالک میں تمام تر تلخی کے باوجود یہ احساس غالب رہا ہے کہ طے شدہ مسائل کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہیے۔ دونوں ممالک نے رن آف کچھ‘ اور بیرو باڑی پر تنازعات کو طے بھی کیا ہے۔ جنگوں کے بعد دوطرفہ معاہدے کیے ہیں‘ اور ان کے ذریعے معاملات کو سنبھالنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند اور 71ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی بات چیت جاری رہی ہے۔ کئی بار سرنگ میں روشنی نظر آئی ہے‘ حالات معمول پر آتے نظر آئے ہیں۔ وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کا دور اس حوالے سے مثالی تھا کہ انہیں بعد از اقتدار حکومتِ پاکستان نے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا تھا۔ واجپائی اور نواز شریف کے درمیان بھی دوستی کی فضا قائم ہوئی تھی‘ جنرل پرویز مشرف سے بھی ان کا پُرتپاک مصافحہ ہوا تھا۔ من موہن سنگھ کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کی مفاہمت بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ دونوں ممالک کو اپنی تاریخ کے روشن لمحات کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان طاقت کا توازن ایسا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے۔ وہ ایک دوسرے کو تباہ تو کر سکتے ہیں لیکن فتح نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا قیام جس دو قومی نظریے کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا‘ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ صرف ایک قوم کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو یکجا کرکے پاکستان نہیں بنایا گیا تھا۔ پاکستان مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا جبکہ بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو آباد رہنا تھا‘ آج بھی وہ بھارت کے شہری ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے غیرمسلمانوں کو پاکستان ہی کا شہری بن کر رہنا تھا۔ اعلانِ آزادی کے موقع پر جو فسادات برپا ہوئے اور دونوں ممالک سے بڑی تعداد میں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی‘ وہ ایک ناگہانی آفت تھی۔ تقسیم ہند کے کسی منصوبے میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
دو قومی نظریے کا مطلب یہی تھا کہ مسلمانوں کو انکے حقوق کی آئینی ضمانت دی جائے‘ اگر متحدہ ہندوستان میں ایسا ہو جاتا تو تقسیم کی نوبت نہ آتی۔ کیبنٹ مشن پلان کے تحت جو وفاق تجویز کیا گیا تھا‘ اسے مسلم لیگ اور کانگرس دونوں نے قبول کر لیا تھا۔ اسے کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کے اس بیان نے سبوتاژ کر دیا کہ آزادی کے بعد اس پلان میں پارلیمنٹ تبدیلی کر سکے گی گویا اسے یکطرفہ طور پر بدلا جا سکے گا۔ ہندو اکثریت کی پارلیمنٹ کو یہ اختیار دینے کا مطلب مسلمانوں کے نزدیک خود کشی ہوتا‘ اس پر یہ پلان مسترد ہوا اور تقسیم کی نوبت آئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیل میں جائے بغیر یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ نہ پاکستان سو فیصد مسلمانوں کا وطن تھا‘ نہ بھارت سو فیصد ہندوؤں کا۔ دونوں کے اندر رہنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں کو برابر کے شہریوں کے طور پر وہیں رہنا تھا۔ برصغیر کی تقسیم انتظامی تقسیم تھی۔ دونوں بڑی اقوام نے اپنے اپنے آدرشوں کے مطابق اپنے اپنے سماج کی تعمیر کرنا تھی‘ اور دنیا کے سامنے مثال بن کر دکھانا تھا۔ قائداعظمؒ کے الفاظ میں‘ امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات برقرار رکھتے ہوئے۔ اب بھی سلامتی کا راستہ یہی ہے‘ جو اس پر نہیں چلے گا وہ راکھ ہو کر رہے گا۔
''عدلیہ میں میرے 44سال‘‘
عدلیہ میں 44سال گزارنے والے جسٹس آغا رفیق احمد خان کی خود نوشت سوانح حیات جاسوسی ناول کی طرح دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے سندھ کے ایک شہر سے سول جج کے طور پر ملازمت کا آغاز کیا۔ سندھ ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کی سربراہی تک پہنچے۔ عدالت میں سیاست اور سیاست میں عدالت کے مناظر ان کی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُمید ہے ان کی یہ خود نوشت انصاف کے ایوانوں میں دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔ اہلِ سیاست اور تاریخ بھی اس سے سبق حاصل کریں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)