"MSC" (space) message & send to 7575

مسلمان ملکوں کے درمیان دفاعی معاہدہ

ایران پر اسرائیلی حملے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ پورا پاکستان اس پر سراپا احتجاج ہے۔ صدرِ مملکت‘ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سخت الفاظ میں ان کی مذمت کی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتے ہوئے اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور دوسرے مسلمان ممالک میں بھی کم و بیش انہی جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہر وہ شخص جو قانون اور انسانیت کا کچھ بھی لحاظ یا پاس رکھتا ہے‘ اس صورتِ حال پر مضطرب ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ نے بھی اپنے آپ کو اس حملے سے الگ کر رکھا ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کے وزیر خارجہ بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اس کارروائی میں شریک نہیں ہے‘ اس کی طرف سے نیتن یاہو کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ ایران اس امریکی مؤقف کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں‘ اس کا کہنا ہے کہ امریکی ملی بھگت کے بغیر اسرائیل اس اقدام کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اگر ایران کے ارد گرد واقع ممالک میں امریکی اڈوں پر حملے کیے گئے تو اس سے امریکہ کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ اس وقت اس نے اپنے چہرے پر جو بھی نقاب اوڑھا ہوا ہے‘ اس کی وجہ سے وہ جنگ میں براہِ راست شریک نہیں ہو پا رہا۔ اگر یہ نقاب نوچ ڈالا گیا تو حالات مزید گمبھیر ہو جائیں گے۔ امریکہ اس جنگ سے اگر اپنے آپ کو (بظاہر ہی سہی) الگ رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے اسرائیل سے نبٹنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔
ایران پر اسرائیلی حملے کا خطرہ ایک عرصے سے منڈلا رہا تھا۔ اسرائیل نے اپنے ارادوں کو چھپا کر نہیں رکھا۔ ایران اُن سے بخوبی آگاہ تھا اور اس کی طرف سے اسرائیل کو سبق سکھانے کے اعلانات بھی جاری تھے۔ امریکہ کو بھی متنبہ کیا جا رہا تھا بلکہ دونوں سے بیک وقت نبٹنے کے دعوے کیے جا رہے تھے لیکن اسرائیلی حملے کی جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں‘ اس نے دیکھنے اور سننے والوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ ایران کی اعلیٰ ترین فوجی اور سائنسی قیادت کو جس طرح پہلے ہی ہلّے میں مار ڈالا گیا‘ جنگی تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے اندر موساد کے ایجنٹوں کا جو جال بچھا رکھا تھا ان کی بھرپور معاونت سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ کئی فوجی ماہرین کو ایران کا فوجی سسٹم اسرائیل کے مقابلے میں کم تر اور Low Tech دکھائی دے رہا ہے۔ ایران نے جوابی حملہ کیا ہے‘ سینکڑوں میزائل داغے ہیں‘ ان سے اسرائیل کو کتنا نقصان پہنچایا جا سکا ہے‘ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے دفاعی نظام نے بڑی تعداد میں میزائل دبوچ لیے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ کے آغاز پر اپنے وڈیو پیغام میں برملا کہا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو شدید خطرہ ہے۔ ایران اگر یہ صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ اسرائیل کو نشانہ بنائے گا۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے اسرائیل پر میزائل داغے تھے‘ اگر اس کے پاس ایٹمی ہتھیار آ گئے تو وہ انہیں اسرائیل کے خلاف استعمال کرے گا اس لیے اسرائیل نے اپنے ''دفاع‘‘ کا حق استعمال کرتے ہوئے اس پر حملے کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ایران کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ اس کی تنصیبات کو نشانہ بنائیں گے اور اسے کبھی ایٹمی طاقت نہیں بننے دیں گے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل خود ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اس نے ایٹمی تجربہ تو نہیں کیا لیکن دنیا اس بات سے بخوبی واقف ہے۔ ایران نے چند روز پہلے اس کی ایٹمی تنصیبات کی تفصیل حاصل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہی اسرائیل بضد ہے کہ ایران کا راستہ روکے گا‘ اور اس کے لیے کسی قاعدے قانون کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ امریکہ اس کی پشت پر ہے۔ وہ اصرار کر رہا ہے کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کی اس حد تک اجازت نہیں دی جائے گی جس سے ہتھیار بنائے جا سکیں۔ ایران بار بار اعلان کر چکا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنانا چاہتا‘ اس کا پروگرام پُرامن اور توانائی کے حصول کے لیے ہے لیکن امریکہ اور اس کے حواری کی تشفی نہیں ہو رہی۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے بھی ایران کے خلاف قرارداد منظور کر ڈالی ہے۔ صدر ٹرمپ کھلم کھلا کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ سے بات چیت جاری رکھے اور ایٹمی تنصیبات کے دروازے کھول دے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے حملے جاری رہیں گے جبکہ ایرانی قیادت بھی جواب کے حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں‘ یقینا وہ منہ توڑ جواب دینے کا حق رکھتی ہے۔ آئندہ چند روز میں یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ فریقین میں سے کون کتنے پانی میں ہے؟ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے بھی کردار ادا کرنے کی توقعات لگائی جا رہی ہیں لیکن اس سب سے قطع نظر ''میدانِ جنگ‘‘ میں جو کچھ ہو گا‘ اس کے اثرات کو کسی فورم پر مدھم نہیں کیا جا سکے گا۔ ایران کے بہی خواہ اس کی طرف اس امید سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل پر کاری ضرب لگائے‘ ایرانی قیادت کے پُرعزم لہجے نے ان توقعات کو بڑھاوا دیا ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی اور کون سا فریق پہلے ہانپنے لگے گا۔
مسلمان ملکوں کی تعداد 50کے لگ بھگ ہے‘ ان کی ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم ''آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘‘ بھی موجود ہے لیکن ہر ایک ملک اپنی خارجی اور دفاعی پالیسی خود بناتا ہے۔ اس تنظیم نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ کسی ایک ملک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جائے گا۔ یہ نیٹو طرز کا پلیٹ فارم نہیں ہے‘ اس میں شامل ہر ملک دفاعی‘ خارجی اور مالی امور میں خود مختار ہے۔ کوئی کسی دوسرے کو کوئی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ہر ملک کو اپنے اقدامات‘ فیصلوں اور پالیسیوں کے اثرات خود بھگتنا ہوتے ہیں۔ اگر او آئی سی کا ایجنڈا تبدیل کرنا ہے تو پھر اسے اختیارات بھی دینا ہوں گے‘ اس کے رکن ممالک کو اپنے خارجی اور دفاعی امور پر اس کی نگرانی تسلیم کرنا ہو گی۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر اس سے آسمان کو چھونے والی توقعات بھی نہیں لگائی جا سکتیں۔ ایسی صورت میں ہم خیال مسلمان ممالک اگر آپس میں معاہدہ کر لیں تو انہیں اجتماعی تحفظ فراہم ہو سکتا ہے۔ پاکستان‘ ترکیہ‘ سعودی عرب اس حوالے سے فعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جُڑ جانے والے ممالک کی استعداد‘ صلاحیت‘ طاقت اور وسائل کو یکجا کیا جائے گا تو پھر کسی آوارہ مزاج کو حد سے نکلنے کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں