اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ جاری ہے۔ فریقین ایک دوسرے کو بھاری نقصانات پہنچانے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اسرائیل کو البتہ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ختم کرنا اُس کے بس کا روگ نہیں۔ اس کے لیے اُسے امریکہ کی براہِ راست مدد درکار ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ امریکہ اُن کے جال میں پھنس جائے اور ایران پر چڑھ دوڑے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایران کا بڑا انرچمنٹ پلانٹ تہران کے جنوب مغرب میں 95کلو میٹر پر ایک پہاڑ کے اندر تین سو فٹ کی گہرائی میں واقع ہے۔ اُس کو تہس نہس کرنے کی طاقت صرف امریکہ کے پاس ہے جو اپنے بھاری بمبار طیاروں کے ذریعے ہزاروں پونڈ کے دھماکہ خیز وار ہیڈ وہاں تک پہنچا سکتا اور اسرائیل کے من میں پھول کھلا سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلو بدل رہے ہیں‘ ایران پر دباؤ بڑھا رہے ہیں لیکن فوری اقدام کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ کینیڈا میں جی سیون ممالک کانفرنس سے قبل از وقت اُٹھ کر واپس واشنگٹن پہنچے تھے تاکہ وائٹ ہاؤس میں نیشنل سکیورٹی کے اہم اجلاس میں شریک ہو سکیں۔ کہا جا رہا تھا کہ وہ ایران پر چڑھائی کا اعلان کر دیں گے لیکن اُنہوں نے فیصلہ دو ہفتوں کیلئے مؤخرکر دیا۔ واشنگٹن پہنچ کر اُنہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا پُرجوش استقبال کیا۔ اُن کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جہاں اُن کے اہم وزرا بھی موجود تھے۔ فیلڈ مارشل کی میزبانی کو اُنہوں نے اپنے لیے باعثِ اعزاز قرار دیا اور ڈنکے کی چوٹ کہا کہ انہوں نے پاک بھارت جنگ کو ختم کرانے پر اُن کا شکریہ ادا کرنے کیلئے اُنہیں مدعو کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پندرہویں یا سولہویں بار یہ بات دہرائی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ اُن کی مداخلت پر ختم ہوئی تھی اور اُنہوں نے دنیا کو ایک بڑی ایٹمی جنگ سے بچا لیا۔ صدر ٹرمپ جب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں بھارتی وزیراعظم مودی اور اُن کے حواریوں کے سینے پر مونگ دل دیتے ہیں جو یہ جھوٹ پھیلانے میں مسلسل مصروف ہیں کہ جنگ بندی اُنہوں نے پاکستان سے براہِ راست رابطے کے ذریعے ممکن بنائی تھی‘ اس میں صدر ٹرمپ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے جی سیون کانفرنس سے واپس آ کر وزیراعظم نریندر مودی کو (جو ابھی کینیڈا ہی میں تھے) فون پر دعوت دی کہ وہ واپس جاتے ہوئے واشنگٹن رُک جائیں لیکن مودی نے پہلے سے طے شدہ مصروفیات کا بہانہ بنا لیا۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہا کہ اگر مودی واشنگٹن آ جاتے تو صدر ٹرمپ انہیں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بیک وقت مدعو کرکے ایک انتہائی بڑی عالمی خبر بنا سکتے تھے۔ وہ دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے دو متحارب ایٹمی ممالک کی قیادتوں کو یکجا کرکے تاریخ کا رُخ بدل دیا ہے۔ مودی شاید اسے بھانپ گئے یا اتفاقاً اُن سے معذرت سر زد ہو گئی اور یوں وہ ''بخیرو عافیت‘‘ نئی دہلی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ صدر ٹرمپ کی ملاقات کا طے شدہ دورانیہ ایک گھنٹے کا تھا لیکن یہ دو گھنٹے پر پھیل گئی۔ پاکستان کیلئے انتہائی اطمینان اور مسرت کا لمحہ تھا کہ دنیا کی طاقتور ترین شخصیت نے پاکستان کے آرمی چیف کی صلاحیت اور اہمیت کا اعتراف کیا ہے‘ اس ملاقات کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے اُس سے ظاہر ہے کہ اس میں ایران‘ افغانستان اور ہندوستان سے جڑے معاملات زیر بحث آئے۔ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا اندازہ صدر ٹرمپ کو بھی ہے‘ اُنہوں نے اس کا بار بار ذکر کرکے اس کی اہمیت کا اعتراف کر رکھا ہے‘ پاکستان اس حوالے سے اُن سے کردار ادا کرنے کی توقع رکھتا ہے جبکہ ایران‘ اسرائیل جنگ کے حوالے سے ہمارا مؤقف بھی بڑا واضح ہے۔ ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایران کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کیلئے قراردادیں اتفاقِ رائے سے منظور ہو چکی ہیں۔ پاکستان ایران پر اسرائیل کی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتا اور ایران سے بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برملا کہا کہ فیلڈ مارشل سے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے اور وہ ایران کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ اس تاریخی ملاقات نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے‘ پاکستان نے اپنا مؤقف براہِ راست امریکی صدر تک پہنچایا اور پُرزور کوشش کی ہے کہ امریکہ براہِ راست فوجی کارروائی نہ کرے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے اعتماد سے مالا مال فوجی قیادت نے پاکستان کے مؤقف کو مدلل انداز میں پیش کیا‘ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ جنگ میں براہِ راست فریق نہیں بنے گا۔ صدر ٹرمپ کا لہجہ تبدیل ہو رہا ہے۔ یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایران سے رابطے ہیں۔ پاکستان صدر ٹرمپ کو امن کا داعی اور پیامبر قرار دیتا ہے‘ اُس کی کوشش ہے کہ ان کا یہ کردار مؤثر سے مؤثر تر ہو۔ حکومتِ پاکستان نے صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کیلئے نامزد بھی کر دیا ہے۔ سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پاک بھارت جنگ کو صدر ٹرمپ کی کوشش سے روکا گیا اور یوں اُنہوں نے عالمی امن کو برقرار رکھنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ناروے میں مقیم نوبل انعام کمیٹی کو بھیجے گئے مراسلے میں پاکستان نے صدر ٹرمپ کی مساعی کا شاندار الفاظ میں اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں یہ انعام دینے کی سفارش کی ہے۔
حکومتِ پاکستان کے اس اقدام نے عالمی منظر نامے پر ایک نیا نقشہ ابھار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا میں جاری جنگوں کو ختم کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اُن کے پہلے عہدِ صدارت میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ''ابراہام معاہدہ‘‘ ممکن بنانے پر بھی انہیں نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے ووٹر کسی بھی جنگ میں امریکہ کی براہِ راست شرکت کے خلاف ہیں۔ رائے عامہ کے سروے بتا رہے ہیں کہ 80فیصد امریکی اس رائے کے حامل ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے آپ کو ''مردِ امن‘‘ سمجھتے ہیں‘ اُنہوں نے خود کہا ہے کہ اُنہوں نے دنیا کے مختلف خطوں میں قیام امن کیلئے جو کردار ادا کیا ہے اس پر اُنہیں نوبل پرائز ملنا چاہیے تھا لیکن وہاں بیٹھے ہوئے ''لبرلز‘‘ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
پاکستان نے صدر ٹرمپ کے سینے پر امن کا سب سے بڑا تمغہ سجانے کیلئے تاریخی پیش رفت کی ہے یوں کہیے کہ سفارتی چھکاّ مار دیا ہے۔ پاکستان کے برعکس اسرائیل صدر ٹرمپ کا چہرہ داغدار کرنا چاہتا اور انہیں ایک جنگجو‘ جنونی بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی کوشش کامیاب ہو گی تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ صدر ٹرمپ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ایران پر چڑھ دوڑنے والا اسرائیل خود ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے اور این پی ٹی پر دستخط کرنے سے بھی انکاری ہے جبکہ ایران بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ اُس کا کوئی ارادہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا نہیں ہے۔ وہ اپنی یہ صلاحیت پُرامن مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ایک خاص سطح سے زیادہ یورینیم کی انرچمنٹ اُس کا مقصود نہیں ہے۔ ایران کو حکمت اور دانائی سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ امریکہ اور اُس کے درمیان کوئی ''اصولی‘‘ اختلاف نہیں ہے۔ خوف اور بداعتمادی کی فضا ختم کرنے کیلئے مؤثر اقدامات پر اتفاق ناممکن نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان نے بہرحال امن کے راستے پر انتہائی اہم پیشرفت کر ڈالی ہے۔ اللہ ہمارے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو کامیاب کرے۔ ایران زندہ و پائندہ رہے اور صدر ٹرمپ بھی اپنی چھاتی پر امن کا وہ تمغہ سجا سکیں جو اُن کی تمنا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)