ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روز تک جاری رہنے والی جنگ بند ہو چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد ''ثالث‘‘ کا روپ دھار لیا‘ دونوں ممالک کو جنگ بند کرنے پر آمادہ کیا اور یوں امن کے پیامبر بھی بن گئے۔ وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا... اب فریقین اپنی اپنی کامیابی کے اعلانات میں مصروف ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ ایران برسوں پیچھے جا چکا ہے‘ اس کا ایٹمی طاقت بننے کا خواب پاش پاش کر دیا گیا ہے۔ امریکی میڈیا ہی میں ان کے اس دعوے پر انگلیاں اٹھائی گئیں اور امریکی انٹیلی جنس کی ایک ایسی رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا جس میں ایران کی زیر زمین ایٹمی تنصیبات کی مکمل تباہی پر شکوک کا اظہار کیا گیا تھا تو صدر ٹرمپ آگ بگولہ ہو گئے۔ اپنے میڈیا کو کچرا قرار دے دیا۔ جناب صدر اور ان کے حواری بضد ہیں کہ ان کے حاسدین ان کی کامیابیوں سے جل کر جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر تاریخ کا انتہائی بڑا حملہ کرکے انہوں نے جو شاندار کامیابی حاصل کی ہے اسے دھندلایا جا رہا ہے۔ حقیقت کیا ہے‘ اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایران کی زیر زمین ایٹمی تنصیبات تہس نہس ہو چکیں یا جلد ان کی تعمیرِ نو ممکن ہے‘ اس کے پاس جو افزدہ یورینیم موجود تھا وہ محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا یا بھسم ہو چکا‘ اس کا بھی قطعی جواب کوئی نہیں دے پا رہا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو معائنہ کرنے کی اجازت ملے گی تو معلوم ہو سکے گا کہ کس کے دعوے میں کس حد تک سچائی ہے۔ اس سے قطع نظر صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے ساتھ ہی ایران سے مذاکرات اور معاہدے کی امید ظاہر کر دی تھی‘ اس کے لیے دعائیہ کلمات بھی ادا کر دیے تھے‘ اس پر لگائی جانے والی معاشی پابندیوں کو ختم کرنے کا عندیہ بھی دے دیا تھا لیکن جب آیت اللہ خامنہ ای نے پیغامِ فتح جاری کیا‘ اپنی قوم کو مبارک باد دی اور ڈنکے کی چوٹ کہا کہ امریکہ کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا گیا ہے اور یہ کہ ایران کبھی 'سرینڈر‘ نہیں کرے گا اور اپنے راستے پر گامزن رہے گا تو صدر ٹرمپ بھڑک اُٹھے‘ انہوں نے خامنہ ای کی ''جان بخشی‘‘ کا احسان جتاتے ہوئے دھمکی دے ڈالی ہے کہ ایران اگر ایٹمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گا تو اس پر دوبارہ حملہ کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ اسرائیل خامنہ ای کو جان سے مارنے پر تلا ہوا تھا لیکن انہوں نے اس کی اجازت نہیں دی اور خامنہ ای ''بھیانک انجام‘‘ سے محفوظ رہے۔
صدر ٹرمپ جو بھی کہیں‘ اسرائیل جو بھی دعویٰ کرے‘ ایران نے ثابت قدم رہ کر اپنا قد بڑھا لیا ہے‘ اسے ''سرینڈر‘‘ پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔ اسرائیل جب حملہ آور ہوا تھا تو ایران میں حکومت کی تبدیلی کو بھی اپنا ہدف قرار دیا تھا‘ ایران کے حصے بخرے کرنے کے بلند بانگ دعوے بھی کیے جا رہے تھے لیکن ایرانی حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا نہ ریاستی سالمیت کو کوئی نقصان پہنچا۔ ایران نے جنگ کے دوران اسرائیل پر جس طرح میزائل برسائے اور اس کے ایئر ڈیفنس سسٹم کی جس طرح قلعی کھلی وہ پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔
پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور اپنے برادر ہمسایہ ملک کے ساتھ کھڑا ہو گیا جبکہ بھارت نے اسرائیل سے ساز باز جاری رکھی۔ ایران کو اس جنگ کے آغاز ہی میں اپنے اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور ایٹمی سائنسدانوں کی بڑی تعداد سے ہاتھ دھونا پڑے‘ اسرائیل نے انہیں چُن چُن کر نشانہ بنایا۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی کہ ایران کے اندر اسرائیل کا انٹیلی جنس نیٹ ورک بہت وسیع تھا۔ بی بی سی فارسی کی رپورٹ کے مطابق موساد کے ایجنٹوں نے ایران کے فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے لیے ملک میں سمگل کیے گئے ڈرونز استعمال کیے۔ متعدد رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایرانی دفاعی نظام‘ میزائل ڈپو‘ کمانڈ سینٹرز کو نشانہ بنانے اور ایرانی سرزمین کے اندر ٹارگٹ کلنگز کے لیے طویل عرصے سے سرگرمیاں جاری تھیں۔ ایرانی میڈیا کی جانب سے ایسی تصاویر اور رپورٹیں منظر عام پر لائی گئی ہیں جن میں ریموٹ کنٹرول میزائلوں کی تعیناتی سے ڈرون تیار کرنے والی فیکٹریوں کا تعلق موساد اور اسرائیل سے جوڑا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے نہ صرف حساس معلومات حاصل کیں بلکہ ہتھیاروں کی تیاری بھی ایرانی سرزمین ہی پر کرنے کے لیے باقاعدہ انفراسٹرکچر تیار کیا۔ اسرائیل نے سمگلنگ کے جدید ترین طریقے استعمال کرتے ہوئے ایران میں حساس ڈرون اور میزائلوں کے پرزوں کو بتدریج سمگل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ موساد کے انجینئرز کے قائم کردہ خفیہ اڈوں پر ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا جو حملوں میں استعمال ہو سکے۔ ایران کے رے شہر میں ایک تین منزلہ عمارت کا سراغ لگایا گیا جو خود کش ڈرون بنانے اور ذخیرہ کرنے کا اڈہ تھا۔ اصفہان میں ایک ایسی ورکشاپ دریافت ہوئی جہاں ڈرون میں استعمال ہونے والے پرزوں اور آلات کی بڑی تعداد کو ذخیرہ کیا گیا تھا۔ ایران کے اندر خفیہ اسرائیلی سرگرمیوں کی تفصیل جمع کی جائے تو ایک حیرت انگیز جاسوسی ناول تیار ہو جائے گا۔
ایران میں اسرائیلی انٹیلی جنس نے جس طرح پنجے گاڑ رکھے تھے اس نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ایرانی خفیہ اداروں کی یہ ناکامی ایسی ہے جس کے زخم بآسانی مندمل نہیں ہو سکیں گے۔ فارسی بولنے والے اسرائیلی کارندے ایرانی جرنیلوں کو فون پر دھمکیاں دے رہے تھے اور انہیں بغاوت پر اُکسا رہے تھے‘ انہیں ڈرا رہے تھے کہ جس طرح ان کے پیشروؤں کو قتل کیا گیا‘ اسی طرح انہیں بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ فوجی افسروں کے گھروں میں خطوط پھینکے جا رہے تھے‘ اہلِ خانہ کے ذریعے انہیں خوفزدہ کیا جا رہا تھا‘ گویا موساد کے کارندے دندناتے پھر رہے تھے‘ ان پر آنکھ رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ بلوچستان میں سرگرم دہشت گردوں کے ایرانی علاقوں میں واقع ٹھکانوں کی جب بھی بات ہوتی تھی‘ کئی پاکستانی حلقے دبے دبے ایرانی حکومت سے شکایت کا اظہار کر دیتے تھے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ایرانی حکومت میں موجود عناصر کی سرپرستی یا ساز باز کے بغیر دہشت گرد وہاں محفوظ ٹھکانے کیسے بنا سکتے ہیں؟ اب جو کچھ سامنے آیا ہے اس نے واضح کر دیا ہے کہ ایرانی خفیہ ادارے اگر اپنی سرزمین پر موجود موساد کے کارندوں کی ایران کے خلاف سرگرمیوں سے بے خبر تھے تو پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کے سرپرستوں تک ان کا ہاتھ کیسے پہنچ سکتا تھا؟ ''را‘‘ اور ''موساد‘‘ کا گٹھ جوڑ ایران کی محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھا بلوچستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے تھا۔ 12روزہ جنگ کے شر سے یہ خیر البتہ برآمد ہوئی ہے کہ موساد (اور 'را‘) کے نیٹ ورک بے نقاب ہوئے ہیں‘ ان سے ایران اور پاکستان دونوں کو محفوظ بنانے کے لیے دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایران کی سرزمین پر اسرائیل اور بھارت کے خفیہ اڈوں کا قلع قمع اور ان کے جاسوسوں کا چُن چُن کر خاتمہ جب تک نہیں ہو گا‘ ایران محفوظ ہو گا نہ اس کے ہمسایہ ممالک میں امن قائم ہو سکے گا۔ پاکستان اور ایران کے ریاستی اداروں کو کندھے سے کندھا ملا کر یہ کام ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)