پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان آئندہ ماہ (اگست) کی پانچ تاریخ کو اپنی ''جیل یاترا‘‘ کے دو سال مکمل کر لیں گے۔ پہلی بار اُنہیں نو مئی 2023ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے نیب حکام نے رینجرز کے ذریعے گرفتار کیا تھا۔ یہ گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس کی وجہ سے عمل میں لائی گئی تھی‘ اُن پر اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام تھا کہ انہوں نے ملک ریاض حسین سے ایک قطعہ زمین حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے‘ نو مئی کو تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں نے جو احتجاج کیا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ پہلی بار ایک ایسی کشمکش کا آغاز ہوا‘ جس میں دفاعی ادارے نشانہ تھے۔ اس کا خمیازہ تحریک انصاف اور جناب عمران خان آج تک بھگت رہے ہیں۔ مئی کی گرفتاری تو چند روزہ ثابت ہوئی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رہائی کا حکم جاری کر دیا۔ ان کے بقول عدالت کے احاطے سے رینجرز کے ذریعے ان کی گرفتاری ایک غیرقانونی عمل تھا۔ خان صاحب پر ''درِ زنداں‘‘ وا ہو گیا‘ وہ 'وی‘ کا نشان بناتے گھر واپس آ گئے۔ لیکن اس آزادی کا دورانیہ مختصر تھا‘ پانچ اگست کو اُنہیں توشہ خانہ ریفرنس کیس میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے جنابِ خان جیل میں ہیں۔ ان کی رہائی کی کوئی عدالتی یا غیرعدالتی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ انہیں جنوری 2024ء میں قومی راز افشا کرنے کے الزام میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی‘ توشہ خانہ کیس میں وہ 14سال قید کے ''مستحق‘‘ قرار پائے۔ بشریٰ بی بی سے عدت کے دوران نکاح کرنے کے الزام میں سات سال کی قید اُن کا مقدر بنی اور القادر ٹرسٹ کیس میں 14سال قید کی سزا اُنہیں سنائی جا چکی ہے۔ غالباً دو مقدمات میں ان کی سزائیں ہائیکورٹ معطل کر چکی ہے‘ اس کے باوجود قانونی طور پر اس وقت وہ ایک سزا یافتہ شخص ہیں۔ جب تک ان کی باقی ماندہ سزائیں بھی معطل (یا ختم) نہیں ہوتیں‘ ان کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ انہیں جو بھی سزائیں سنائی گئی ہیں وہ ابتدائی عدالتوں نے سنائی ہیں‘ انہیں دو اپیلوں کا حق حاصل ہے‘ ہائیکورٹ کے بعد وہ سپریم کورٹ کی طرف بھی رجوع کر سکتے ہیں‘ اور جب تک وہاں سے فیصلہ صادر نہ ہو جائے انہیں حتمی طور پر ''مجرم‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کسی بڑے سیاسی رہنما کو قید کرنا‘ اس پر مقدمہ چلانا یا اس کو سزا کا مستحق ٹھہرانا غیر معمولی معاملہ نہیں ہے۔ ہماری کتابِ سیاست ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حسین شہید سہروردی سے لے کر شیخ مجیب الرحمن تک‘ خان عبدالغفار خان سے لے کر مولانا ابو الاعلی مودودیؒ تک‘ نوابزادہ نصر اللہ خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری بلکہ نواز شریف تک ہر ایک برسوں جیل میں گزار چکا ہے۔ کئی ایک پر ''ریاست‘‘ مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا تو کئی ایک کو کرپشن کا مرتکب گردانا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو تو اپنے ایک سیاسی مخالف کو نشانہ بنانے کی پاداش میں پھانسی کے مستحق ٹھہرے۔ عمران خان نہ پہلے پاکستانی سیاستدان ہیں جو حوالۂ زنداں ہیں اور نہ آخری ہوں گے کہ پاکستانی سیاست اپنے انداز بدلنے پر تیار نہیں ہے۔ کوئی بھی برسرِ اقتدار آنے والے ایسا اداراتی انتظام کرنے پر تیار نہیں جس کی موجودگی میں کسی سیاستدان کو جرمِ سیاست کی سزا نہ دی جا سکے‘ نتیجہ یہ ہے کہ دائرے کا سفر جاری ہے۔ اگر پاکستان کے تمام تفتیشی اور احتسابی ادارے آزاد ہو جائیں۔ انتظامیہ یا کوئی اور طاقتور ان کو زیر اثر نہ لا سکے تو اہلِ سیاست کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا‘ وہ کچھ ہوتا رہے گا‘ جو گزشتہ کئی عشروں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔
عمران خان اور ان کے ہمنوا سڑکوں کی سیاست کے خوگر ہیں‘ وہ کئی بار اپنے جوہر آزما چکے ہیں‘ اس کے نتیجے میں ان کی الجھنیں بڑھی ہیں‘ کم نہیں ہوئیں۔ ہر احتجاج اپنے اندر ایسے واقعات یا حادثات لے کر آیا کہ جس نے معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ اب جنابِ خان نے پھر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ فرمان جاری ہوا ہے کہ ملک بھر میں ان کے کارکن سڑکوں پر نکلیں اور انہیں نعرہ ہائے احتجاج سے بھر دیں۔ کاروبارِ زندگی معطل ہو جائے اور حکومت کے لیے گھٹنے ٹیکنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ علیمہ باجی نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ان کے لندن میں پرورش پانے والے بھتیجے قاسم اور سلیمان بھی اس احتجاج میں شریک ہوں گے۔ وہ پہلے امریکہ جا کر اپنے گرامیٔ قدر والد کے ساتھ ہونے والی (مبینہ) ناانصافیوں کی دہائی دیں گے‘ اس کے بعد پاکستان کا رخ کریں گے۔ گویا احتجاجی تحریک کو تیز کرنے کے لیے تحریک انصاف کے دیسی رہنماؤں کو کافی نہیں سمجھا جا رہا‘ برطانیہ سے کمک کی فراہمی لازم قرار پائی ہے۔ اس اعلان کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ نے جھنجھلا کر کہہ دیا کہ اگر ان کے بیٹے کسی پُرتشدد کارروائی میں شریک ہوں گے تو انہیں بھی جیل جانا پڑے گا۔ اس پر اُن کی والدہ جمائمہ نے سینہ کوبی کرتے ہوئے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا کہ یہ سیاست نہیں انتقام ہے۔ ان کے بچوں کو گرفتاری کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ اس پر حکومتی حلقے کچھ ڈھیلے پڑے ہیں لیکن قاسم اور سلیمان کو جو توجہ مطلوب تھی وہ انہیں حاصل ہو چکی۔ یہ دونوں نوجوان پاکستانی والد کے بیٹے ہونے کے ناتے پاکستانی اور برطانوی ماں کی نسبت سے برطانوی ہیں لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہوا کہ انہوں نے برطانیہ کے پاکستانی سفارت خانے سے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر رکھا ہے یا نہیں۔ قانونی طور پر کوئی بھی پاکستانی شہری‘ برطانوی اور برطانوی شہری پاکستانی پاسپورٹ رکھ سکتا ہے۔ دونوں ممالک کی شہریت سے بیک وقت استفادہ ممکن ہے۔ لیکن قاسم اور سلیمان کے والد عمران خان نے اس کا بروقت اہتمام کیا تھا یا نہیں‘ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ دونوں نوجوان کوئی پاکستانی زبان بولنے یا سمجھنے پر قادر ہیں یا نہیں۔ اگر انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ نہیں بنوایا‘ وہ برطانوی شہری کے طور پر پاکستان آئیں گے تو پھر معاملہ مختلف ہو گا لیکن اگر وہ اپنی پاکستانی شہریت کو ''ڈاکومنٹ‘‘ کر چکے ہیں تو پھر معاملہ اور ہو گا۔ بہرحال جو بھی ہو ان کی پاکستان آمد کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ موروثی سیاست کے حوالے سے خان صاحب اپنے حریفوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں‘ اب اُن کے حریف ان پر حملہ آور ہوں گے اس سے قطع نظر قاسم اور سلیمان اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے والد نے جب وزارتِ عظمیٰ کے منصب کا حلف اٹھایا تو وہ اس تاریخی تقریب میں ''مدعو‘‘ نہیں تھے یا موجود نہیں تھے۔ گزشتہ دو سال کے دوران بھی انہوں نے پاکستان کا رخ نہیں کیا۔ اب اگر ان کے والد نے ان کی یا انہوں نے اپنے والد کی ضرورت سمجھ کر یہاں آنے کا فیصلہ کیا ہے تو چشم ما روشن دِل ماشاد۔ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔
عمران خان نے جس تحریک کا ارادہ باندھ لیا ہے‘ اس کے حوالے سے یہ عرض کرنا مناسب ہو گا کہ وہ اپنی گزشتہ کارروائیوں کا اچھی طرح جائزہ لے لیں‘ جو تجربات حاصل کیے جا چکے ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں‘ مومن کو ایک سوراخ سے دوسری بار اپنے آپ کو نہیں ڈسوانا چاہیے۔ سانپ نہیں بدلتا تو سوراخ ہی بدل ڈالیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)