"MSC" (space) message & send to 7575

نیا بھٹو۔۔۔ نیا ولی خان؟

پاکستان کئی تجربوں‘ حادثوں اور آزمائشوں سے گزر چکا۔ مسرت کے مقامات بھی آئے اور صدمے بھی اُٹھانا پڑے۔ فتوحات بھی حصے میں آئیں‘ ناکامیوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا لیکن بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم نے حوصلہ نہیں ہارا۔ سفر جاری رکھا اور بہت سی مشکلات پر قابو پا کر بھی دکھایا لیکن اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ ہمارے اہلِ سیاست نے وہ کچھ نہیں سیکھا جو اُنہیں سیکھ لینا چاہیے تھا۔ ان میں سے بہت سوں کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں‘ اُن کے خلاف مقدمات درج ہوئے‘ وطن کی زمین تنگ ہو گئی‘ وہ ملک چھوڑ کر جانے پر بھی مجبور ہوئے لیکن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ عام نہیں ہو پایا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سو فیصد اہلِ سیاست تنگ نظر ہیں لیکن یہ بہرحال کہا جا سکتا ہے کہ جو بڑی جماعتیں اُبھریں اور بڑے بڑے رہنما سامنے آئے‘ اُن کی بڑی تعداد نے برداشت‘ رواداری اور تحمل کو عادت نہیں بنایا۔ پاکستانی سیاست کی تاریخ اہلِ سیاست کے جھگڑوں اور تنازعوں سے بھری پڑی ہے‘ پاکستان میں مارشل لاء بار بار نافذ ہوتا رہا تواس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ اسے خوش آمدید کہنے والے موجود تھے۔ اگر اہلِ سیاست یکجا ہو کر طے کر لیتے کہ وہ کسی بھی صورت کسی ماورائے دستور اقدام کی حمایت نہیں کریں گے تو تاریخ مختلف ہوتی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی جاری رہی‘ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور اُن کے مخالف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے رہے۔ چہرے بدل جاتے ہیں‘ نام مختلف ہو جاتے ہیں لیکن کردار نہیں بدلتے۔ آج عمران خان اور اُن کے مخالفین کے درمیان بداعتمادی اور کدورت بلکہ عناد کی جو خلیج حائل ہے وہ کسی صورت پاٹی نہیں جا رہی۔ خان صاحب جیل میں ہیں‘ اگست کی پانچ تاریخ کو ان کی قید کے دو سال پورے ہو جائیں گے لیکن نہ اُن کے مخالفوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا ہے اور نہ خان صاحب نے اپنے اندر کسی تبدیلی کا کوئی احساس دلایا ہے۔
تحریک انصاف پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے‘ اس نے جن حالات میں گزشتہ انتخابات میں حصہ لیا وہ سب کے سامنے ہیں۔ وجوہات اور اسباب جو بھی ہوں‘ ذمہ دار جس کو بھی ٹھہرایا جائے لیکن اس حقیقت کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو کسی ایک نشان کے تحت انتخاب لڑنے کا موقع نہیں ملا‘ انہوں نے مختلف نشانات کے تحت معرکے میں شرکت کی اور بڑی تعداد میں کامیابی بھی حاصل کر لی۔ وفاق میں اکثریت نہیں ملی لیکن وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری جبکہ خیبرپختونخوا میں بلاشرکتِ غیرے اس کی حکومت قائم ہوئی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی حزبِ اختلاف کی قیادت اس کے حصے میں آئی‘ سینیٹ میں بھی یہ منصب اسی نے سنبھالا۔ انتخابی دھاندلی کی شکایات کو اگر درخورِ اعتنا نہ سمجھا جائے تو بھی اس جماعت کی نمائندہ حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ وہ ایسی سیاسی حقیقت ہے جس کا انکار کرنے سے پہلے آنکھیں پھوڑ لینا ہوں گی۔ تحریک انصاف اس حقیقت کا ادراک کر پا رہی ہے‘ نہ اس کی مخالف جماعتیں۔ تحریک انصاف دستوری نظام کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے بار بار سڑکوں کا رُخ کرتی اور اپنی مشکلات میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے جبکہ مخالف اس کی شکایات کی شنوائی کا کوئی اہتمام کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ دنیا کا کوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جہاں جمہوریت کے نام پر یہ تماشا رچایا جا رہا ہو۔ ہر ملک میں اہلِ اقتدار اور اہلِ اختلاف اپنا اپنا کردار ادا کرتے اور ایک دوسرے کو کام کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ انتخابات کی شفافیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا‘ عوام کی رائے کو بروئے کار آنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں نہ انتخابات کی شفافیت کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے‘ نہ ہی اقتدار کی بے ثباتی پر یقین کیا جاتا ہے۔ برسرِ اقتدار اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے اور اہلِ اختلاف انہیں کرسی سے گرانے کو اپنا فرضِ اولین قرار دے لیتے ہیں۔
روزنامہ ''وفاق‘‘ کے بانی چیف ایڈیٹر مصطفی صادق مرحوم کی یادداشتیں ان کے رفیقِ خاص جناب جمیل اطہر نے جو اَب جناب الطاف حسن قریشی کے ساتھ ساتھ پاکستانی صحافت کے سینئر ترین ایڈیٹر اور بابائے صحافت ہیں‘ اپنے زیر اہتمام ''داستانِ صادق‘‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں شائع کرائی ہیں‘ اُن کا تفصیلی تذکرہ تو پھر کسی روز ہو گا‘ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ایک ملاقات کی تفصیل اب ملاحظہ فرما لیجیے۔ روزنامہ ''جسارت‘‘ کے شہید ایڈیٹر محمد صلاح الدین قید کاٹ کر رہا ہوئے تو جناب مصطفی صادق نے بھٹو صاحب سے اُن کی ملاقات کرائی کہ روزنامہ ''جسارت‘‘ کا ڈیکلریشن بحال نہیں کیا جا رہا تھا۔ لاڑکانہ میں ہونے والی اس ملاقات کے حوالے سے صادق صاحب (جو بھٹو صاحب کے بہی خواہ اور دوست سمجھے جاتے تھے) بیان کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو ایک سنگین شکایت یہ تھی کہ ''جسارت‘‘ میں خان عبدالولی خان کی خبریں کیوں شائع ہوتی ہیں۔ مدیر ''جسارت‘‘ کا جواب تھا کہ جمہوریت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہر سیاستدان کی تقریر کو مناسب انداز میں شائع کیا جائے‘ قطع نظر اس حقیقت کے کون سا سیاستدان اخبار کے نظریات سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے۔ اگر ہم کسی کا بیان شائع نہیں کریں گے تو اُس پر ہمیں تبصرے کا حق بھی نہیں پہنچتا۔ ہمارے نزدیک جمہوریت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہر سیاستدان کا بیان بھی شائع ہو اور حسبِ ضرورت اس پر تبصرہ بھی کیا جائے۔ واضح رہے کہ روزنامہ ''جسارت‘‘ جماعت اسلامی کا ترجمان ہے۔ محمد صلاح الدین اُس کے ایڈیٹر ہونے کے ناتے خان عبدالولی خان یا اُن کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے تھے‘ لیکن بھٹو صاحب کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ عبدالولی خان کا کوئی بیان اخبار میں جگہ پائے۔ محمد صلاح الدین کو جن ''جرائم‘‘ کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا‘ اُن میں یہ جرم نمایاں تھا۔ جناب مصطفی صادق کی زبانی ایک اور واقعہ سنیے۔ نو اپریل 1976ء کو وہ المیہ پیش آیا جب لاہور کے تاریخی شہر میں پولیس نے تحریک نظام مصطفی کے جلوس پر صرف لاٹھی چارج کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انتہائی بے ہنگم انداز میں فائرنگ کی‘ جس کے نتیجے میں 19افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ روزنامہ ''وفاق‘‘ میں اس سانحے کو شہ سرخی کے ساتھ انتہائی نمایاں انداز میں چھاپا گیا جس کے نتیجے میں وزیراعظم بھٹو بے حد برا فروختہ ہوئے۔ 10اپریل کی رات مجھے دس بجے رات گورنر ہاؤس میں طلب کیا گیا اور سخت الفاظ میں ''وفاق‘‘ کے اس رویے کی مذمت کی۔ وہ مجھے طعنہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ دوسرے اخبارات نے اس خبر کو اتنا نمایاں نہیں کیا جبکہ تم نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ یاد رہے دوسرے اخبارات نے محکمہ اطلاعات کی ''ایڈوائس‘‘ پر اس ہولناک خبر کو دبا دیا تھا جبکہ روزنامہ ''وفاق‘‘ کے نیوز ایڈیٹر جمیل اطہر نے حکومتی ہدایت کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑا کر اپنی صحافتی ذمہ داری کا حق ادا کیا تھا۔
ایک دوسرے کو بات کرنے کا حق نہ دینے والے‘ اور حقائق کو دبانے کا حکم دینے والے کیا یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ جمہوری رہنما ہیں یا اُن کے ذریعے جمہوری عمل مستحکم ہو رہا ہے۔ بھٹو صاحب اور عبدالولی خان دونوں اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہیں نئے بھٹو اور نئے ولی خان تو ہمیں میسر نہیں آ گئے؟
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں