"MSC" (space) message & send to 7575

جنرل ضیا الحق کا حادثہ

حادثۂ بہاولپور کو37سال گزر چکے۔ 1988ء میں اگست کی 17تاریخ کو جنرل ضیا الحق کا فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا۔ جنرل موصوف اپنے متعدد رفقا سمیت لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور افغان جہاد کے دوران آئی ایس آئی کی سربراہی کرنے والے جنرل اختر عبدالرحمن اور امریکی سفیر بھی اسی طیارے میں سفر کر رہے تھے۔ اس حادثے کے اسباب کا پتہ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا‘ جس طرح پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسۂ عام میں دن دہاڑے گولی کا نشانہ بنانے والوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا‘ اسی طرح جنرل ضیا الحق کے طیارے کی تباہی کے اسباب بھی معلوم نہیں ہو سکے۔ دونوں واقعات کو اتفاقیہ قرار دینا بھی مشکل ہے۔ لیاقت علی خان کو گولی کا نشانہ بنانے والا تو ایک پولیس افسر کی گولی سے فوراً ہی جہنم واصل ہو گیا‘ لیکن اس واردات کے منصوبہ ساز کون تھے‘ ان کے چہرے آج تک بے نقاب نہیں ہو پائے۔ پاکستان کی اجتماعی زندگی اس کے بعد البتہ تتر بتر ہو گئی۔ لیاقت علی خان قائداعظمؒ کے بعد تحریک پاکستان کے ایسے بڑے لیڈر تھے جن کا رعب طاری رہتا اور حکم چلتا تھا‘ ان کی رخصتی کے بعد شیرازہ منتشر ہوا۔ سیاسی بونوں اور سرکاری افسروں نے وہ آپا دھاپی مچائی کہ الامان الحفیظ۔
جنرل ضیا الحق اپنے رفقا سمیت منظر عام سے غائب ہوئے تو پاکستانی سیاست نے بھی نئی کروٹ لی۔ جنرل موصوف (غیر جماعتی ہی سہی) انتخابات کا انعقاد کرا چکے تھے۔ دستور بحال کیا جا چکا تھا۔ پارلیمنٹ موجود تھی‘ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحق خان نے صدر کی ذمہ داری سنبھال لی‘ اور وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ مرزا نے ایک قدم آگے بڑھ کر فوجی خلا پُر کر دیا۔ جنرل ضیا الحق کی نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لیے لاکھوں لوگ پورے ملک سے اسلام آباد امڈ آئے۔ اتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے شہر اقتدار میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ جنرل ضیا الحق مر کر زندہ ہو گئے تھے۔ ان کے رفقا اور مخالف انگشت بدنداں رہ گئے۔ جنرل مرحوم قومی شہید قرار پائے‘ انہیں فیصل مسجد کے زیر سایہ سپردِ خاک کر دیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) نے ان کی وراثت سنبھالی‘ ان کے خون کو اپنی طاقت بنا لیا۔ کئی سال تک ان کا یومِ شہادت بڑے اہتمام سے منایا جاتا رہا‘ ان کی قبر پر بڑے اجتماعات ہوتے اور قومی سیاست پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خلاف بغاوت کی‘ تو پھر معاملات تبدیل ہوتے چلے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کی کرنی جنرل ضیا الحق کو بھرنی پڑ گئی۔ فوجی مداخلت کے خلاف فوجی اتفاقِ رائے ہوتا چلا گیا۔ پیپلز پارٹی تو جنرل ضیا الحق کے خلاف تھی ہی‘ مسلم لیگ(ن) کا جوش و خروش بھی ماند پڑ گیا۔ جنرل ضیا الحق کے بڑے بیٹے اعجاز الحق نے اپنی سیاست (ن) لیگ سے الگ کر لی۔
جنرل ضیا الحق کا یومِ شہادت منانے کی ذمہ داری اب مسلم لیگ(ضیا) نے سنبھال رکھی ہے۔ بھٹو سیاست کے مخالفین کی بڑی تعداد کی سیاسی ضرورتیں تبدیل ہو گئی ہیں۔ بھٹو صاحب کو ''قومی ہیرو‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہیں پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز ''نشانِ پاکستان‘‘ عطا کیا جا چکا ہے۔ ان کے داماد صدر کے ہاتھوں یہ کارنامہ انجام پایا ہے‘ (ن) لیگی وزیراعظم شہباز شریف اس کے محرک بنے۔ انہیں جس مقدمے میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی اس کے بارے میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیر قیادت سپریم کورٹ کا بنچ اس رائے کا اظہار کر چکا ہے کہ اس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی جماعت پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور بھٹو مخالف سیاست کی وارث سمجھی جانے والی مسلم لیگ(ن) اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کے ہم نواؤں کے لیے بھی بھٹو دورِ حکومت سیاسی تاریخ کا ایک گم شدہ باب بن گیا ہے۔ بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے والے جنرل ضیا الحق کا دم بھرنے کی کوئی افادیت یا ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ ذمہ داری مسلم لیگ ضیا کے کاندھوں پر لدی ہوئی ہے‘ جس نے بمشکل ایک نشست قومی اسمبلی کے انتخابات میں حاصل کی۔
سیاست کی ان کروٹوں کے باوجود جنرل ضیا الحق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے بھٹو مرحوم کو ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیا تھا‘ لیکن یہ بھی درست ہے کہ بھٹو مرحوم نے 1977ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ باقاعدہ منصوبہ بنا کر دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ دستور میں من مانی ترامیم کی جا سکیں۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف جو ملک گیر تحریک چلی اس نے دھاندلی ساز کو نئے انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا‘ اور ایک ہی جست میں وہ اسمبلی تحلیل کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ دھاندلی سے قائم کی جانے والی حکومت نے دستور شکنی کا جو ارتکاب کیا تھا‘ اس نے فوجی مداخلت کا دروازہ کھولا۔ مارشل لا کا نہ صرف پورے ملک میں خیر مقدم کیا گیا بلکہ سپریم کورٹ نے اتفاقِ رائے سے اس کے نفاذ کو جواز فراہم کیا۔ بعدازاں بھٹو صاحب کے خلاف قتل کا جو مقدمہ قائم ہوا‘ وہ کسی فوجی عدالت میں نہیں چلایا گیا۔ ہائی اور سپریم کورٹ نے کھلی عدالت میں اس کی سماعت کی‘ اور بھٹو صاحب کو پھانسی کا مستحق قرار دیا۔ بھٹو کے سیاسی حریفوں نے اس فیصلے کی بھرپور تائید کی اور پھانسی کے بعد تعزیت کے دو الفاظ بھی ان کی زبان پر نہیں آئے۔
آج سیاست کے تقاضے بدل گئے ہیں‘ تو بھی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بھٹو اور ضیا الحق کو ایک دوسرے کے حوالے سے نہ پرکھا جائے‘ دونوں کے معاملات کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے‘ دونوں کی اچھی یادوں کا تذکرہ جاری رکھا جائے۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا‘ وہ جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں پورا ہوا۔ انہوں نے حکمت اور تدبر سے کام لیتے ہوئے امریکی دباؤ کے باوجود یہ پروگرام جاری رکھا۔ 1983-84ء میں پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ کئی سال بعد دھماکے کا شرف وزیراعظم نواز شریف کے حصے میں آیا۔ افغانستان پر سوویت فوجوں کی یلغار کے بعد جنرل ضیا الحق نے جس اولو العزمی اور ثابت قدمی سے افغان مجاہدین کا ساتھ دیا‘ وہ بھی عالمی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ سوویت فوجوں کے خلاف عالمی اتحاد بنانے‘ اور اسے شکستِ فاش دینے ہی سے وسطی ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں۔ دیوارِ برلن ٹوٹی اور دنیا کا نقشہ تبدیل ہو گیا۔ سوویت یونین نام کی کوئی ریاست اس پر موجود نہ رہی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اشتراکی خطرے کے خلاف بھٹو مرحوم کی معاونت سے بھی افغان مزاحمت کا آغاز ہوا تھا‘ اسے جنرل ضیا نے نتیجہ خیز بنا دیا۔ جنرل ضیا الحق کی کامیابیاں بھی پاکستان کی کامیابیاں ہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو کی کامرانیاں بھی پاکستان کی کامرانیاں ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو 1973ء میں جو آئین دیا‘ اور اس کے لیے قومی اتفاقِ رائے حاصل کیا‘ وہی آئین آج بھی پاکستانی ریاست کی سالمیت اور استحکام کی ضمانت ہے۔
اگر اس آئین کو پسِ پشت نہ ڈالا جاتا تو جولائی1977ء میں حکومت کا تختہ نہ الٹا جا سکتا۔ آج بھی اس دستور پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ اہلِ سیاست ایک دوسرے کا انکارکریں گے‘ ایک دوسرے کو تہہ تیغ کرنے کے منصوبے بناتے رہیں گے تو ان کی سیاست خطرے میں رہے گی۔ جنرل ضیا الحق اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں کے لیے دعا کیجیے‘ لیکن ان کی غلطیاں دہرانے کی حماقت نہ کیجیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں