"MSC" (space) message & send to 7575

عالمِ اسلام کا محافظ

پاکستان میں سیلاب نے جو تباہی مچائی‘ بادلوں نے برس کر اور دریاؤں نے طوفان بن کر جو قیامت ڈھائی‘ اس کا ابتدائی تخمینہ یہ ہے کہ 30ارب ڈالر ڈوب چکے۔ ممتاز ماہر معاشیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا اعداد و شمار پر غیر معمولی گرفت رکھتے ہیں‘ ان کا اندازہ ہے کہ فصلوں‘ سڑکوں اور بستیوں کو جو نقصان پہنچا ہے وہ معیشت کی شرح نمو کو شدید متاثر کرے گا اور یہ اندازے سے کہیں کم ہو جائے گی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھے گا‘ غذائی اجناس تک درآمد کرنا پڑیں گی‘ افراطِ زر بڑھنا شروع ہو گا‘ نتیجتاً مہنگائی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ پچاس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گی یعنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری چیخ رہے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے مدد مانگی جائے‘ انہی کے اصرار پر وفاقی کابینہ نے ملک بھر میں موسمیاتی اور زرعی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اس اعلان کی تفصیلات طے کرنے کیلئے وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کے زیر قیادت خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ کتابِ آئین کے مطالعے سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد انتظامی اور قانون سازی کے صوبائی اختیارات کم ہو سکتے ہیں اور وفاق کے عمل دخل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایمرجنسی بیرونی یلغار کے نتیجے میں لگے یا اندرونی مسائل کی بنا پر‘ اس کے اثرات اپنی جگہ ہیں۔ ایمرجنسی کے نفاذ کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی منظوری لینا پڑتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کے اختیارات محدود کر دیے ہیں‘ ایمرجنسی کے دانت بھی نکال دیے ہیں‘ اسے لامحدود عرصے کیلئے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ وفاقی حکومت البتہ ابھی تک واضح نہیں کر پائی کہ ایمرجنسی زراعت کے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا تدارک کیسے اور کیونکر کرے گی؟ بلاول بھٹو جھولی پھیلانے یا کشکول اٹھانے کی برکات سے آگاہ کرتے جا رہے ہیں لیکن وفاقی حکومت ابھی تک ہچکچا رہی ہے۔ بلاول بھٹو بار بار ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کا حوالہ دے رہے ہیں کہ اس کے ذریعے سیلاب زدگان کی مدد کی جائے۔ ان کی یہ رَٹ یوں بے معنی ہے کہ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام تو مستحقین میں تقسیم ہو رہا ہے‘ اس کا کوئی ''فکسڈ ڈپازٹ‘‘ نہیں ہے۔ اس سے یہ مطلب البتہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ صوبائی حکومت اپنا پیٹ کاٹنے پر تیار نہیں ہے‘ اس رویے کی داد نہیں دی جا سکتی۔ وزیر موسمیات ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا موثر اور مدلل تخمینہ لگا لیا جائے تو پھر چندہ مہم کا آغاز مناسب ہو گا۔ سوشل میڈیا پر اعصاب شکن مہم البتہ شروع ہو چکی ہے۔ گزشتہ سیلابوں اور زلزلوں میں ملنے والی امداد کا حساب اس انداز میں طلب کیا جا رہا ہے کہ امداد دینے والے ممالک اور ادارے گو مگو کا شکار ہو جائیں اور ہاتھ کھینچ لیں۔ کرپشن کا شور مچا کر بددلی پھیلائی جا رہی ہے۔ اس تیر اندازی میں بعض اینکر اور تجزیہ کار بھی پیش پیش ہیں‘ وہ بزعمِ خود اپنے آپ کو جرأت اور جسارت کا پیکر قرار دیے بیٹھے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ جلد وفاقی اور صوبائی حکومتیں یکجا بیٹھ کر ایکشن پلان تیار کریں گی‘ اپنے اپنے وسائل سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے وقف کرنے پر آمادہ ہوں گی۔ دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بن مانگے عطیات کا اعلان شروع ہو چکا ہے۔ کوشش کرنا پڑے گی کہ یہ قطرے موسلادھار بارش میں تبدیل ہوں اور پاکستان اپنی معیشت کو سنبھال سکے‘ اس سے پہلے جو کچھ بس میں ہے‘ وہ اپنے طور پر کرنا ہو گا۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ مراد علی شاہ بھی میدان میں ہیں‘ علی امین گنڈا پور اپنی جگہ سرگرم ہیں۔ وفاقی حکومت اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔ افواجِ پاکستان‘ ریسکیو1122‘ پولیس اور انتظامیہ کے ارکان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ تنقید کرنے والے بھی آرام سے نہیں بیٹھے‘ وہ بھی اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کر رہے ہیں۔ احتساب اور تنقید کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن آگ لگی ہوئی ہو تو اسے بجھانے اور اس میں گھرے ہوؤں کو بچانے کی طرف توجہ مبذول کی جاتی ہے۔ اسباب کا جائزہ لینے‘ ذمہ داروں کا تعین کرنے یا گھر کے افراد کی کوتاہیوں کا شمار کرنے پر زور تو کیا غور بھی نہیں کیا جاتا۔ امید کی جانی چاہیے کہ نہ صرف ہر سطح پر پوری قوم یکسو ہو کر براہِ راست متاثر ہونے والوں کے دکھوں کا ازالہ کرے گی بلکہ دیرپا اقدامات کیلئے بھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما جائے گا۔
یہ درست ہے کہ پاکستانی سیاست ہموار نہیں ہے۔ تحریک انصاف اور اس سے وابستہ بہت سے افراد کی شکایات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے جیل سے قائداعظمؒ کے یوم وفات پر ان کے نام جو کھلا خط لکھا ہے‘ اس کے نکات بھی توجہ طلب ہیں۔ پاکستان کو ایک مثالی جمہوریہ بنانے کی آرزو ہر دِل میں ہے لیکن اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے سیاسی مسائل ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے‘ نہ ہی ایک دن میں حل ہو سکتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے زیر قیادت چلنے والی تحریک پاکستان قانون کے دائرے میں رہ کر چلائی گئی تھی۔ قائداعظم ایک انتہائی موثر اور معتبر وکیل تھے‘ انہوں نے دلائل کے ساتھ ایک مؤقف پیش کیا اور مسلمانانِ ہند کی بھاری اکثریت کو اپنا ہمنوا بنایا۔ جب انہیں مسلمانوں نے اپنا نمائندہ چن لیا تو پھر انہوں نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی اپنا مقصد حاصل کیا۔ آج جو لوگ قید ہیں اور قائداعظمؒ کی روح سے مخاطب ہو کر اپنے دکھوں کی تفصیل بیان کر رہے ہیں‘ ان سے تمام تر ہمدردی کے باوجود یہ عرض کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ احتجاج اگر قانون کے دائرے سے باہر نکلے تو اس کے نتائج بھی برآمد ہوں گے‘ جو سیاسی کارکن اس حقیقت کا ادراک نہیں کریں گے‘ ان کی سینہ کوبی ذریعۂ نجات نہیں ہو سکے گی۔
پاکستان کو قدرتی آفت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہمارے بہادر فوجی جوان سر دھڑ کی بازی لگا کر اس طوفان کو روکے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے خون کی دیوار نہ کھڑی کرتے تو آج ہمارا جسدِ قومی ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا۔ کسی سیاسی رہنما یا کارکن کو زیب نہیں دیتا کہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرے‘ ان کے طور طریقے اختیار کرے یا ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی اہمیت کو نظر انداز کرے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر جمہوریت تو کیا انسانیت کی بات بھی نہیں کی جا سکتی۔
مقامِ شکر ہے کہ پاکستان کا دفاع ایسے ہاتھوں میں ہے جو تجربے اور تربیت کی دولت سے مالا مال ہیں‘ جن کی کارکردگی کی پوری دنیا معترف ہے۔ گزشتہ مئی کے مہینے میں برپا ہونے والے معرکۂ حق نے پاکستانی فوج (اور قوم) کا لوہا منوایا ہے۔ آج جب کہ دنیا میں جگہ جگہ آگ لگی ہے‘ اسرائیل جیسا جارح ملک پورے عالمِ اسلام کو تاراج کرنے پر کمر بستہ ہے‘ امریکی اتحادی قطر تک کو نشانہ بنا گزرا ہے اور اس کارروائی پر شرمندگی کے اظہار پر بھی تیار نہیں ہے‘ پاکستان پورے عالمِ اسلام کی امید ہے‘ اس کی دفاعی طاقت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے داخلی مسائل میں الجھنے کے بجائے پورے عالمِ اسلام کا محافظ بننا ہے‘ اجتماعی دفاعی نظام کو مربوط و مضبوط بنانا ہے۔ پاکستان کی صلاحیت اور تجربے سے استفادہ کر کے عالمِ اسلام ''بنیان مرصوص‘‘ بن سکتا ہے۔ داخلی محاذ پر ایک دوسرے کو معاف کر کے ہمیں آگے قدم بڑھانا اور عالمِ اسلام کی حفاظت کیلئے یکجان ہونا پڑے گا‘ یہی سلامتی کا راستہ ہے‘ واحد راستہ!!!
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں