پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں میں اظہارِ مسرت کیا جا رہا ہے‘ تو نئی دہلی اور تل ابیب میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ نئی دہلی نے دبے دبے لفظوں میں اپنے جذبات کو زبان بھی دے دی ہے جبکہ اسرائیل زبانِ خاموش سے دہائی دے رہا ہے حالانکہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کا سلسلہ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھے ہیں‘ سعودی معیشت بلکہ مالیاتی نظام کو استوار کرنے میں پاکستانی ماہرین نے بنیادی کردا رادا کیا اور افواجِ پاکستان نے سعودی عرب کی دفاعی ضرورتوں میں معاونت جاری رکھی ہے۔ پاکستان جب معاشی مشکلات کا شکار ہوا تو سعودی عرب نے کھلے دل سے اس کی معاونت کی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں جب بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اپنی ایٹمی قوت آشکار کرنے کا فیصلہ کیا تو سعودی شاہ عبداللہ نے کئی برس تک پاکستان کو تیل فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور نبھائی۔ پاکستان نے سعودی عرب کے تحفظ اور دفاع کو ہمیشہ عزیز رکھا ہے اور سعودی عرب نے بھی پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے میں کسی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تفصیل بیان کی جائے تو ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے‘ اس سب کے باوجود دونوں ملک کسی باقاعدہ دفاعی معاہدے کے بندھن میں نہیں بندھے۔ اب انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے تو اس کی وجوہات ہنگامی بھی ہیں اور قدیمی بھی۔ دونوں ملکوں نے یہ اعلان کرکے کہ ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا‘ اپنے دوستوں اور حریفوں دونوں کو چونکا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اعتماد کا رشتہ ایک دن میں قائم نہیں ہو سکتا‘ اس کی اپنی ایک تاریخ ہے‘ اس لیے یہ کوئی جذباتی یا لمحاتی معاملہ نہیں ہے لیکن جس وقت اور جن حالات میں اس اعلان کی ضرورت محسوس ہوئی‘ انہیں بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
اس وقت دنیا کے کسی بھی دو ممالک کے دوران ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے کہ جس کے مطابق ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ سمجھا جائے اور ایک پر برسنے والی آگ میں دوسرا بھی کودنے کو تیار ہو جائے۔ نیٹو کا معاہدہ کثیر الملکی ہے‘ اس میں امریکہ کے ساتھ کئی ممالک شریک ہیں اور یورپ کو تحفظ کا احساس یہی معاہدہ عطا کرتا رہا ہے۔ سوویت یونین کے عروج کے زمانے میں مشرقی یورپی ممالک نے اس کے ساتھ ''وارسا پیکٹ‘‘ پر دستخط کیے تھے‘ نیٹو کے مقابل اجتماعی تحفظ کی دیوار کھڑی کی تھی۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت اور مشرقی یورپ کا منظر تبدیل ہونے کے بعد یہ معاہدہ بھی اپنی موت آپ مر چکا ہے لیکن نیٹو بہرحال فعال ہے اور روس کے مقابل کھڑا ہے۔ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی وجہ سے یہ سوال وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا ہے کہ خلیج اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھی کسی نیٹو طرز کے معاہدے کو ترتیب دے لیں لیکن عملی طور پر یہ ممکن نہیں ہوا۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت اور اس کی امریکی پشتیبانی نے پورے خطے میں اضطراب کی ایسی لہریں دوڑا دی ہیں جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئیں۔ اسرائیل جس ملک پر چاہتا ہے حملہ آور ہو جاتا ہے‘ وہاں کی اہم شخصیات کو نشانہ بنا لیتا ہے۔ یہاں تک کہ قطر پر بھی وہ ٹوٹ پڑا‘ وہاں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے۔ سعودی عرب اور اس خطے کے دوسرے ممالک کی حفاظت کا امریکہ ضامن بنا ہوا ہے‘ اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی ہے لیکن قطر میں اسرائیلی جارحیت سے جس طرح چشم پوشی کی گئی یا یہ کہیے کہ اسے شہ دی گئی‘ اس نے پورے خطے کو بے قرار اور بے چین کرکے رکھ دیا۔ بھارت نے پاکستان پر چڑھائی کا جو نتیجہ بھگتا‘ پاکستان نے اس کے دانت جس طرح کھٹے کیے بلکہ توڑ ڈالے‘ اس سے بھی منظر یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت نے جس طرح اپنے آپ کو منوایا‘ اس نے اس کے دوستوں میں نیا اعتماد پیدا کر دیا۔ پاکستان امیدوں کا مرکز بن گیا گویا پاکستان کے ساتھ اشتراک کرکے اس خطے کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کا جائزہ لیں تو اس کی نوعیت بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ تفصیلات جو بھی طے ہوں‘ بنیادی بات یہ ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی چھتری بن گئے ہیں۔ اگر دوسرے خلیجی ممالک بھی اس حصار میں داخل ہونا چاہیں تو دونوں ملکوں کی رضا مندی سے ایسا ممکن ہو سکے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس طرح نیٹو طرز کا ایک نیا الائنس وجود میں آجائے‘ لیکن ایسا نہ ہو تو بھی پاکستان اور سعودیہ مل کر جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کو لگام ڈال سکتے ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک دفاعی معاہدہ ہے‘ بھارت ہو یا اسرائیل‘ اگر ان کے عزائم جارحانہ نہیں ہیں تو ان کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا دفاعی معاہدہ کسی کے خلاف جنگ یا جارحیت کا اعلان نہیں ہے۔ یہ طاقت کا توازن امن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے‘ اسے پامال کرنے میں نہیں۔ وہ سب ممالک اور عناصر جو اپنی میلی آنکھیں دوسروں کے جغرافیے پر لگائے ہوئے ہیں‘ انہیں خبردار ہو جانا چاہیے۔ پاکستان اور سعودی عرب ''بنیانٌ مرصوص‘‘ بن چکے ہیں۔
اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھی سنبھل سکے گی کہ سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستانی حکومت اور نجی شعبے کا امتحان یہ ہو گا کہ وہ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی تدبیر کریں۔ اگرچہ‘ وگرچہ‘ چونکہ اور چنانچہ میں اُلجھے نہ رہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے معاملات کو درست کریں۔آپس میں اُلجھے رہنے کے بجائے ایک دوسرے کی مشکلات کا احساس کرکے انہیں کم کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کی مضبوطی محمد شہباز شریف سے لے کر عمران خان تک اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے لے کر بلاول بھٹو تک سب کی مضبوطی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے سر جو سہرا سج گیا ہے‘ وہ اسے اپنے تک محدود نہ رکھیں‘ یہ دو‘ تین یا چار افراد کی نہیں ہر پاکستانی کی کامیابی ہے‘ یہ ہر پاکستانی کے سر پر سجا دینا چاہیے۔
بکھری ہے میری داستاں
جناب محمد اظہار الحق کی آپ بیتی ''بکھری ہے میری داستاں‘‘ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو کئی اشخاص کا مجموعہ ہے۔ وہ اعلیٰ سرکاری افسر کے طور پر دیانتداری اور فرض شناسی کی مثال بنے رہے‘ شعر کہے تو دنیا داد دینے پر مجبور ہو گئی‘ کالم نگاری کا آغاز کیا تو بڑے بڑے چھوٹے ہو گئے۔ صفِ اول میں جگہ بنائی اور دلوں میں اترتے چلے گئے۔ انگریزی‘ فارسی‘ عربی پر دسترس رکھتے ہیں‘ اُزبک زبان بھی سیکھ چکے ہیں۔ کئی ملکوں کی سیر کر چکے اور اب اپنے قارئین کو اپنے مشاہدے اور مطالعے میں شریک کر لیا ہے۔ ضلع اٹک کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والا دیہاتی قصباتی یوں شہروں بلکہ ملکوں میں ممتاز ہو گا‘ اس کا قلم دلوں اور ذہنوں کو مسخر کرتا چلا جائے گا‘ یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ اظہار الحق‘ حق کا اظہار ہیں‘ اس لیے ان کی بلندی ماپی نہیں جا سکتی‘ ان کی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ ان پرجو عنایات ہیں وہ گنی نہیں جا سکتیں ''جاء الحق و زھق الباطل، إن الباطل کان زھوقا‘‘۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)