پاکستان ابھر ابھر کر ڈوبتا اور ڈوب ڈوب کر ابھرتا چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ دہائیوں پر نظر ڈالیں تو اہلِ پاکستان کے کمالات حیران کن ہیں لیکن اگر حماقتوں اور فرو گزاشتوں کا جائزہ لیں تو ان کے بھی انبار دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری تاریخ کے اندھیرے اور اُجالے ایک دوسرے کا تعاقب کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بہت کچھ پایا گیا اور بہت کچھ کھو دیا گیا‘ اگر یہ کہیں تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ بہت کچھ وہ حاصل نہیں کیا جا سکا جو ہماری دسترس میں تھا۔ کسی نہ کسی بے تدبیری نے راستہ کھوٹا کر ڈالا اور ہم آگے بڑھتے بڑھتے دھڑام سے نیچے گر پڑے یا یہ کہیں کہ نشیب میں پھسلتے گئے۔ کئی لمحات کو گرفت میں لے کر ستاروں پر کمندیں ڈال لی گئیں لیکن وقت ہاتھ سے نکلتا بھی رہا اور ہم ہاتھ ملتے چلے جانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔
اس وقت پاکستان اپنی زندگی کے لمحاتِ کمال سے گزر رہا ہے۔ معرکۂ حق نے اسے جو تب و تاب بخشی ہے اور دنیا بھر میں اس کی جو دھوم مچی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بھارت کے منہ زور وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو تر نوالہ سمجھ بیٹھے تھے‘ ان کا پختہ خیال تھا کہ وہ چڑھائی کریں گے تو ان کا ہمسایہ ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہو جائے گا۔ پہلگام میں دہشت گردی کی جو واردات ہوئی (یا کرائی گی) کسی دلیل یا ثبوت کے بغیر اس کا مجرم پاکستان کو قرار دے ڈالا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کاکول ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیشکش کی کہ اس واردات کی کسی غیرجانبدار عالمی فورم سے تحقیقات کرا لی جائے تاکہ مجرم کا تعین کیا جا سکے۔ دنیا بھر میں اس بیانیے کی داد دی گئی لیکن بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا چلا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے پاکستان کو اپنا ''مجرم‘‘ نامزد کر دیا ہے‘ اب کسی وکیل یا دلیل کی ضرورت نہیں‘ اسے قرار واقعی سزا مل جانی چاہیے‘ عالمی طاقتیں ہمارا ساتھ دیں اور کڑاکے نکال دیں۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم شہباز شریف کا بیانیہ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔ ہر انصاف پسند شخص نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور نریندر مودی ایک اخلاق باختہ شخص کے طور پر نمایاں ہوتے چلے گئے۔ طاقت کے نشے میں بدمست بھارتی وزیراعظم پاکستان پر ٹوٹ پڑے لیکن چند ہی گھنٹوں میں یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ انہوں نے شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ پاکستان کی دفاعی افواج نے حملہ آور کے دانت اس طرح توڑ ڈالے کہ اس کی شکل پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ چار روزہ جنگ میں بھارت کا دفاعی نظام زمین بوس ہو گیا‘ رافیل طیارے ڈھیر ہو گئے‘ روسی دفاعی سسٹم ناکارہ ثابت ہوا۔ پاک فضائیہ نے آسمانوں پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ بری افواج زمین پر چوکس رہیں‘ بحریہ سمندروں پر حکمران نظر آئی نتیجتاً بھارت کو امریکی مداخلت پر جنگ بندی قبول کرنا پڑی یا یہ کہیے کہ اس آڑ میں پناہ لینا پڑی۔ بھارت کا طلسم ٹوٹ گیا‘ وہ جو اپنے آپ کو چین کا ہم سر بنا کر پیش کر رہا تھا‘ امریکہ اور یورپی ممالک جس کی پیٹھ ایک بڑے پہلوان کے طور پر ٹھونک رہے تھے‘ وہ سب مٹی میں مل گیا۔ بھارت ایک کمزور اور بے تدبیر ملک کے طور پر سامنے آیا تو تھو تھو ہونے لگی۔ چین کُجا‘ یہ تو اپنے سے کئی گنا چھوٹے ملک کے برابر کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہے‘ وہ دن جائے اور آج کا آئے پاکستان مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ بچھے جا رہے ہیں اور برادر مسلمان ممالک بھی اپنے اندر نئی توانائی محسوس کر رہے ہیں ''ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی‘‘۔
پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے یک جان ہو کر نقشہ بدل ڈالا ہے۔جنرل عاصم منیر چار روزہ جنگ کے فاتح قرار پا کر فیلڈ مارشل بنائے جا چکے ہیں جبکہ شہباز شریف سفارتی اور سیاسی محاذ پر اپنا سکہ چلائے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے جو کردار ادا کیا‘ اس کا پاکستان نے اس انداز میں اعتراف کیا ہے کہ جنابِ صدر اسے سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی کی نخوت اور تکبر نے اسے چھوٹا کر دیا ہے‘ اس سے وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو اس جیسے متکبروں سے ہونا چاہیے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی میزبانی صدر ٹرمپ نے اس طرح کی کہ نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ اب وزیراعظم شہباز شریف کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے‘ دونوں کو شاندار (انسان) قرار دیتے ہوئے بانہیں کشادہ کر رکھی ہیں۔ برادر اسلامی ممالک پاکستان کو محافظ سمجھ رہے ہیں‘ پاک سعودی دفاعی معاہدہ اس کا واشگاف اعلان ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ کئی دوسرے مسلمان ممالک بھی اس میں شریک ہو جائیں گے۔ پاکستانی قیادت نے صدر ٹرمپ سے معاملہ کرتے ہوئے جس مہارت اور ذہانت سے کام لیا ہے اس نے اس کا قد بہت اونچا کر دیا ہے۔ دفاعی اور سیاسی طاقتیں مل کر مستقبل کی تعمیر کے لیے بے تاب ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا دورۂ اقوام متحدہ اور امریکہ ان کے لیے‘ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے لیے اور پاکستان کے لیے نئی بلندیوں کا سفر ثابت ہوا ہے۔ عالمِ اسلام کے سرکردہ رہنما بھی اعتماد بھری نظریں پاکستان پر نچھاور کر رہے ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اور اسرائیل کے عزائم کے سامنے بند باندھنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو داد دی جانی چاہیے‘ سلام کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے اپنے حصے کا کام خوب نبٹایا ہے۔ اب لازم ہے کہ پاکستان کی داخلی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر بھی نظر ڈال لی جائے‘ سیاسی افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں کو بھی ناکام بنایا جائے اور دہشت گردی کے عفریت کا بھی سر کچلا جائے۔ پاکستان کے اہلِ سیاست ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے بہت نقصان اٹھا چکے۔ اب انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں‘ ایک دوسرے کو معاف کرنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ ہم کب تک اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف ضائع کرتے رہیں گے۔ دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے لیکن ایک دوسرے کو شیطان کہنے اور سمجھنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ جو موقع پاکستان کے ہاتھ اب آیا ہے‘ اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ممتاز روحانی رہنما جناب سرفراز شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان راکٹ کی طرح اوپر جائے گا‘ ان شاء اللہ۔ اس پرواز کی راہ میں روڑے اٹکانے والے ناکام ہوں گے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیے‘ ایک دوسرے پر سیاہی انڈیلنے کا مشغلہ ترک کر دیجیے‘ ایک دوسرے کو اُجلا بنانے کی کوشش سب کو اُجلا بنا دے گی‘ روشنی کا ساتھ دے کر روشنی بن جائیے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا‘ آگے بڑھنا اور آگے بڑھنا ہے۔ اس سفر میں اپنا حصہ ڈالیے‘ سب مل کر زور لگائیں گے تو رفتار تیز تر ہو جائے گی ؎
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہّ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)