ڈاکٹرمبارک علی نے23مارچ کے روز کامران خاں کے پروگرام میں دنیاٹی وی چینل پر کہا''یہ یادگارکے دن جوہیں وہ قوموں میں منائے جاتے ہیںکسی تاریخ کے تسلسل کے ساتھ تاکہ قوم کے اندرکوئی نیاجذبہ اور نیاولولہ پیداکیاجائے اور چونکہ پاکستان بالکل نیاملک تھا یعنی14اگست1947ء کو وجودمیںآیاتو ان کے پاس کوئی اہم دن نہیں تھے۔ لہٰذااس لیے ہم دیکھتے ہیںکہ جب کانسٹی ٹیوشن بنا ہے 56ء کا اس وقت جاکے 23مارچ کی اہمیت ہوئی ہے۔اور یہ فیصلہ کیاگیاکہ اسے یومِ جمہوریہ کے طورپرمنایاجائے‘‘۔
اس بیان کے آٹھ روزبعدیکم اپریل کے روزنامہ ''دنیا‘‘میںڈاکٹرصاحب کامراسلہ شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں:''1940ء کی قراردادِلاہورکوایک دلکش داستان بناکرپیش کرنے کا سلسلہ پاکستان کے قیام کے کئی سال بعدشروع ہوا۔ابتدامیں23مارچ کو یومِ جمہوریہ منایاجاتاتھا۔لیکن جب فوجی حکومتوںنے جمہوریت کو پامال کیا توہمارے طبقے یومِ جمہوریہ کوبھول گئے۔جب ان کی ناکامیاںزیادہ بڑھیںتوپھریومِ جمہوریہ کو یومِ پاکستان بناکرلوگوںکوایک بار پھر اپنی نام نہاد جدوجہد سے آگاہ کرناشروع کردیا‘‘۔
تاریخ،ریکارڈاورشواہدکی طرف جائیںتو ڈاکٹرمبارک علی کی ساری تاریخ دانی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ کیونکہ 23مارچ کویومِ پاکستان کے طورپرمنانے کاسلسلہ قیامِ پاکستان کے کئی برس بعد نہیں، قراردادکے پہلابرس پوراہونے پرہی پورے جذبے اورولولے کے ساتھ شروع ہوگیا تھا۔مثلاً:-
قراردادلاہورمنظورہونے کے گیارہ ماہ بعد 22 فروری1941ء کوقائداعظمؒ کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس دہلی میںمنظور کی گئی قراردادوںمیںایک یہ بھی تھی:''ہر سال 23مارچ کو قراردادِ پاکستان کے اصولوںکی تشریح کی جایا کرے اور یہ امر ذہن نشین کیا جائے کہ ہندوستان کے آئینی مسئلہ کا یہی مستقل اور پُرامن حل ہے‘‘۔
23فرورری1941ء،آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے ورکنگ کمیٹی کی یہ قراردادبھی منظورکی۔ قراردادِ لاہورکی پہلی سالگرہ کے موقع پر قائداعظمؒ نے ہندوستان بھرکے مسلمانوںکو یوم قراردادلاہور منانے کی کال دیدی۔
قراردادلاہور کی ''یوم پاکستان‘‘ کے طور پر پہلی سالگرہ کی گرج، غلغہ، دھوم اوردھاک اس قدر رہی کہ اس کے ایک ہفتہ بعد،30مارچ 1941ء، کان پور کے ایک جلسۂ عام میں قائداعظمؒ نے 23مارچ کے روز''یومِ پاکستان‘‘ منائے جانے کو ہندوستان کی تاریخ میں ایک Red Letter Day(خوشی کا یادگار دن-روزِعید) قراردیا۔
ہندوستان کی تاریخ کے اس روزِ عیدکی گونج آل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس، مدراس، 12تا 15اپریل 1941ء میںبھی سنی گئی،جہاںآل انڈیا مسلم لیگ کے آئین میں ترمیم منظورکرتے ہوئے قرارداد لاہور کومسلم لیگ کا Supreme Objective(عظیم ترین نصب العین) قراردیاگیا۔
دوسرا یوم پاکستان23مارچ 1942ء کو منایاگیا۔اتفاق سے اسی روز سرسٹیفورڈ کرپس برطانوی حکومت کی تجاویز لے کر دہلی پہنچے۔ سٹینلے والپرٹ ''شیم فل فلائٹ‘‘کے صفحہ18پرلکھتے ہیں کہ کرپس ''یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مسلم لیگ کی قراردادِ لاہور کی دوسری سالگرہ منانے کے لیے ہزاروں مسلمان سبز جھنڈے پکڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے مارچ کررہے ہیں۔جس پلیٹ فارم پر جناح صاحب کھڑے تھے ان کے پَیرَو انہیں سلامی دیتے ہوئے گزرے۔اس مظاہرے پر کرپس چونک اٹھے کہ مطالبۂ پاکستان پر مسلمان کس قدرمتحدہیں‘‘۔
قائداعظمؒ نے اپنی تقریر میں کرپس تجاویز کے حوالے سے واضح کردیا''اگر مسلمانوں پر کوئی ایسی سکیم یا حل مسلط کیاگیا جو ان کے مفاد کے لیے نقصان دہ ہوتو ہم اس کے نتائج کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لیے تیار ہیں، نہ صرف یہ کہ ہم اسے مسترد کردیں گے بلکہ پوری توانائی کے ساتھ اس کی مزاحمت کریں گے۔ ہمیں اس کوشش میں جان کی بازی بھی لگانا پڑی تو ہم لڑتے لڑتے جان دے دیں گے۔ اگر ہمارے خلاف ریشہ دوانیوں اور درپردہ سازشوں سے کام لیا جاتا ہے،چاہے یہ ہندو قیادت کی طرف سے ہوں یا برطانوی لیڈر شپ کی طرف سے، ایسی کوئی کوشش تنہا ہو یا یکجا، ہم آخری فرد تک اس کی مزاحمت کریں گے‘‘۔
تیسرے یوم پاکستان پر 22مارچ1943ء کو انہوں نے دہلی سے جاری کیے گئے اپنے پیغام کا آغاز ہی اس سے کیا''آج 23مارچ ہے۔ یہ روز مسلم انڈیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ تین برس قبل اسی مبارک روز آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار مسلم انڈیا کے لیے فیصلہ کن قومی مقصد کا باضابطہ اعلان ہوا تھا، جو بعد ازاں ''پاکستان سکیم‘‘ کہلایا...تین برس قبل پاکستان ایک قرارداد تھی آج یہ جزوِایمان ہے۔ مسلم انڈیا کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ...‘‘۔
چوتھے پاکستان ڈے پر قائداعظمؒ لاہور میں تھے۔ اس سلسلے میں 22مارچ1944ء کوانہوں نے بیان جاری کیا:''چاربرس قبل23مارچ1940ء کو ہم نے اپنا پاکستان ریزولیوشن منظور کیا تھا۔ تب سے یہ سنہری اور بیش قیمت یوم پورے برصغیر میں پھیلی ہوئی مسلمان قوم ہر سال منارہی ہے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ اس سال بھی یہ یوم ماضی کی طرح جوش و خروش اور دل و جان سے منایا جائے گا...ہم پہلے کی نسبت منزلِ پاکستان اور حصولِ آزادی کے اور قریب آچکے ہیں‘‘۔
پانچویں یومِ پاکستان پر قائداعظمؒ نئی دہلی سے 22مارچ1945ء کو قوم کے نام اپنے پیغام کا آغاز اس یاددہانی سے کرتے ہیں''آج ہمارے اس اعلانِ واثق(Solemn Declaration) کی پانچویں سالگرہ ہے جو ہم نے مقصدِ پاکستان کی صورت میں آخری اور حتمی قراردیتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کے کھلے اجلاس لاہور میں 23مارچ1940ء کو کیا تھا۔ یہ ہمارا ناقابلِ تنسیخ اور ناقابلِ تبدّل قومی مطالبہ ہے۔ جب تک ہم برصغیر کے شمال مغربی اور مشرقی منطقوں میں قیام پاکستان کا مقصد پوری طرح نہیں پالیتے مسلم انڈیا چین سے نہیں بیٹھے گا، جیسا کہ آپ کو علم ہے، مسلم انڈیا کے لیے یہ زندگی اور موت کی جدوجہد ہے‘‘۔
چھٹے یومِ پاکستان پر قائداعظمؒ نے لاہور سے 22مارچ 1946ء کو مسلمانانِ ہند کے نام اپنے پیغام میں پھر اس دن کی اہمیت کے حوالے سے انہیں پُرعزم کیا''ہندوستان بھر کے مسلمان جانتے ہیں کہ آج پاکستان ڈے ہے اور اسے منانے کے لیے پورے ملک میں تیاریاں جاری ہیں...ہم پاکستان قائم کرنے کاتہیہ کرچکے ہیں،ممکن ہوا تو مذاکرات اور پرامن ذرائع سے، لیکن اگر ضرورت پڑی تواس کے حصول کے لیے اپنا خون بہانے پر بھی تیار ہیں۔اس کے لیے آگ کے شعلوں میں سے بھی گزرنا پڑ اتوہم پیچھے نہیں ہٹیں گے ...حصولِ پاکستان کا مطلب ہماری بقاہے۔اس میںناکامی کی صورت میں برصغیر میں مسلمانوںاور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا‘‘۔
متحدہ ہندوستان میں آخری اور ساتواں''یوم پاکستان‘‘ 1947ء میں منایا گیا۔ قائداعظمؒ نے 22مارچ کے روز بمبئی سے جاری کیے گئے اپنے پیغام میں کہا''... پاکستان کی منزل قریب تر ہے اور ہم تیزی سے اس کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں...ہر مسلمان مردوزن جہاںبھی ہے اسے یہ دن منانا چاہیے اور حصولِ پاکستان کے مقصد کے لئے ارادے اور عزم کی مزید پختگی کے ساتھ‘‘۔
یہ دستاویزی ثبوت قائداعظمؒ کی تقاریر کے مجموعوں،مسلم لیگ کے ریکارڈاوراس دورکے اخبارات میں خاصی تفصیل سے موجود ہیں، حتیٰ کہ ہندو کانگریس کے ہمنوا اخبارات کی فائلوںمیںبھی،کہ قائداعظمؒ کی خصوصی دلچسپی سے 23مارچ''یوم پاکستان‘‘ کے طور پر ہر سال اس قدر خروش، جذبے، لگن، انہماک، سرگرمی، محویت، مشغولیت اور زور شور سے منایا جاتا رہا کہ حصول پاکستان کے لیے یہ قوتِ محرکہ بنا رہا۔ لیکن آج 77 برس بعدڈاکٹرمبارک علی پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ دن قائداعظمؒ کی زندگی میں تو منایا ہی نہیں گیا تھا۔ یہی بات ظفرمحمودصاحب نے 23مارچ کے ''دنیا‘‘میںلکھی۔اوربھی کئی لوگ اس لاعلمی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرمبارک علی کا یہ فرمان بھی مبنی بر حقیقت نہیں کہ پاکستانی قوم کے پاس کوئی اہم دن نہیں تھا۔ تحریکِ قیامِ پاکستان اس قدربامقصد،پہلودار،شہہ زوراورجانگسل تھی کہ اگر ہم یوم منانے پر آجائیں تو سال کے 365دن ناکافی ہوں،جبکہ موصوف اس تحریک کونام نہاد جدوجہدقراردیتے ہیں۔ اور اسی نام نہاد جدوجہد کے نتیجے میں بننے والے ملک میںوہ عیش کررہے ہیں۔ جہاںوہ اس کے قیام کے کئی برس بعدآئے۔