مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی نے اپنی تالیف ''پیغمبرِ انسانیت‘‘ میں جن بنیادوں پر میثاقِ مدینہ کو تاریخ کا ''بہت ہی اہم واقعہ‘‘ قرار دیا ہے وہی اہمیت ہمیں قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی رہنما تقریر کو دینی چاہئے، جو انہوں نے بانیٔ پاکستان، صدر دستور ساز اسمبلی، فادر آف دی نیشن اور قوم کے قائد اعظم کی حیثیت سے کی، کہ وہ ہمارا میگنا کارٹا ہے۔
15جون 1215ء- بمقام کورنی میڈ، وجود میں آنے والے اس منشورِ عظیم اور منشورِ آزادی نے، جسے میگنا کارٹا کہتے ہیں، مردہ انگریز قوم کو زندہ قوم کا روپ دے دیا۔ وہ وحشت سے نجات پا کر دنیا میں تہذیب پھیلانے کی دعویدار ہوئی۔ اور ہم، پاکستانی قوم، اپنے منشورِ عظیم، منشورِ آزادی، میگنا کارٹا پر عمل کرنے کے بجائے سیکولرزم اور نان سیکولرزم کی لایعنی بحث میں الجھے ہوئے ہیں، یہ غور کیے بغیر کہ‘ کہیں یہ اغیار کی سازش تو نہیں۔ ورنہ بات سیدھی ہے، آپ میثاق مدینہ کی متعلقہ شقیں سامنے رکھ لیں تو قائداعظمؒ کا یہ خطاب ان کا پَرتو نظر آئے گا۔
محمد حسنین ہیکل کی ''حیاتِ محمدؐ ‘‘۔ اردو ترجمہ: ابو یحییٰ امام خاں۔1987ء۔ صفحات:268 تا 270:- درجِ ذیل شقیں مظہر ہیں کہ قائداعظمؒ کی اس تقریر کے رہنما اصول انہی سے اخذ کیے گئے۔
-13 مشرکینِ مدینہ میں جو لوگ معاہدہ میں شریک ہیں‘ ان میں سے کوئی شخص قریشِ مکّہ میں سے کسی کے مال اور جان کو نہ تو پناہ دے گا اور نہ مسلمان کے مقابلہ میں مکّہ کے کسی قریشی کی حمایت کرے گا۔
-18 اگر مسلمان جہاد میں اپنا مال خرچ کریں تو یہود کو بھی ان کے ساتھ اپنا مال خرچ کرنا ہو گا۔
-28 مسلمانوں کی لشکر کشی کی حالت میں یہود کو بھی ان کی مالی اعانت کرنا ہو گی، کیونکہ حلیف کے لیے دفع مضرت اپنے نفس کی حفاظت کے مطابق کرنا چاہیے‘ جب تک کہ اس کی جانب سے ضرر نہ پہنچے یا اس کے ذمہ کوئی جرم عائد نہ ہو۔
-32 اگر مدینہ پر کوئی قوم حملہ کرے تو دشمن کی مدافعت میں سب کو مل کر حصہ لینا ہو گا۔
-33 اگر مدینہ پر حملہ آور لشکر مسلمانوں سے صلح کرنا چاہے تو معاہدہ کے شرکا کو متفق ہو کر دشمن سے صلح کرنا ہو گی۔
میثاقِ مدینہ کی ان شقوں کی رو سے مسلمانوں، مشرکینِ مدینہ اور یہودیوں کو برابر کا شہری قرار دیا گیا ہے۔ لشکر کشی کی صورت میں بھی مشرکینِ مدینہ اور یہودی مسلمانوں کے ساتھ ہوں گے‘ اور مملکتِ مدینہ پر دشمن کے حملہ کی صورت میں بھی سب مل کر دفاع کریں گے۔ الغرض، عقائد کے اختلاف کے باوجود ان کے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی۔ یہی بات قائداعظمؒ نے اپنی اس تقریر میں یوں بیان کی: ''.....پاکستان میں تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ ان کو جائز حد تک‘ زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے گی..... میں پاکستان کی اقلیتوں سے بھی یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے تعاون کے جذبہ سے کام لیا‘ ماضی کو بھلا دیا اور جھگڑوں کوبھلا دیا اور جھگڑوں کو دفن کر دیا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک چاہے تمہارا تعلق کسی بھی فرقے سے ہو۔ چاہے تمہارا رنگ، ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اوّل بھی اس ریاست کا باشندہ ہو گا اور دوئم بھی۔ اور آخر میں بھی۔ تمہارے حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں برابر ہوں گی‘‘۔
میثاقِ مدینہ کی شق 15: تمام مسلمان اس معاہدہ پر متفق ہیں اور وہ اس میں سے کسی دفعہ کا انکار نہیں کر سکتے۔ جس مسلمان نے اس معاہدہ کا اقرار کر لیا وہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے۔
یہ شق ہر مسلمان کو معاہدے پر قیام و اقرارکی تلقین کرتی ہے اور اس اقرار کو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان قرار دیتی ہے۔
قیامِ پاکستان بھی ایک معاہدے کی رو سے وجود میں آیا جس پر پابند رہنے کے لیے‘ قائد اعظمؒ کہتے ہیں: ''مجھے معلوم ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو ہندوستان کی تقسیم سے متفق نہیں ہیں۔ نہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم سے۔ لیکن اب جبکہ اس کو قبول کر لیا گیا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ ہم وفاداری سے اس پر قائم رہیں۔ اور اس معاہدہ کے مطابق عمل کریں جس پر عمل سب کے لیے لازمی اور ضروری ہے‘‘۔
میثاقِ مدینہ کی شق 19: قبیلہ بنی عوف کے یہود بھی اس معاہدہ میں شامل ہیں‘ اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے۔
ہمارے میگنا کارٹا میں پاکستانیوں کے لیے‘ قائد اعظمؒ اس کی یوں تشریح کرتے ہیں: ''حکومت پاکستان میں آپ کو اپنے مندروں اور پرستش گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی مذہب کے مقلّد ہوں یا آپ کی ذات اور عقیدہ کچھ بھی ہو، اس سے پاکستان کی حکومت کو کوئی تعلق نہیں ہے۔
''یورپ خود کو مہذب کہتا ہے لیکن وہاں پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک خوب لڑتے رہے۔ آج بھی بعض ریاستوں میں وہاں مذہبی تمیزیں موجود ہیں۔ مگر ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے۔ ایک فرقے یا دوسرے فرقے میں کوئی تمیز نہ ہو گی، نہ ذات اور عقیدوں کی تمیزیں ہوں گی.....‘‘
میثاق مدینہ کی شق 34: اسی طرح اگر مسلمانوں کے سوا دوسرے شرکائے معاہدہ پر حملہ ہو‘ اور وہ لوگ جن کی وجہ سے حملہ ہوا ہے‘ دشمن سے صلح کرنا چاہیں تو مسلمان ان کے ساتھ اس معاہدہ کے پابند ہوں گے‘ باستثنائے اس معاملہ کے جس میں شرکائے معاہدہ میں سے کسی کے دین پر زد پڑتی ہو۔
11اگست 1947ء- قائد اعظمؒ کی زبانی اس دفعہ کی تشریح: ''ہم اس بنیادی اصول کے ماتحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں (پُرجوش تالیاں)۔ ہمیں اس اصول کو اپنا مطمحء نظر بنا لینا چاہیے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے مذہب مٹ جائیں گے، کیونکہ مذہب کو ماننا ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے۔ میرا مطلب سیاسی تمیز سے ہے، وہ سب ایک قوم کے افراد ہو جائیں گے‘‘۔
قائد اعظمؒ نے اپنی طرف سے بات نہیں کی بلکہ میثاقِ مدینہ پر ہی انحصار کیا ہے۔ میثاقِ مدینہ کے متعلق محمد حسنین ہیکل رقم طراز ہیں کہ ''یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ نے آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال قبل معاشرۂ انسانی میں ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور فرد کو اپنے اپنے عقیدہ میں آزادی ملی۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔ اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکابِ جرائم پر گرفت و مواخذہ نے اپنا دباؤ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی یعنی شہرِ مدینہ‘ اس میں رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی‘‘۔ مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی لکھتے ہیں: ''دنیا کو پہلی بار درس ملا کہ احترامِ انسانیت کی بنیاد پر اعلیٰ مقاصد کو بروئے کار لانے میں کس طرح تعاون کیا جاتا ہے۔ اور دوسری قوموں کو مذہب و ضمیر کی کتنی فراخ دلانہ آزادی دی جاتی ہے‘‘۔
فراخ دلی اور رواداری کے ساتھ اس معاہدے میں یہ حقیقت بھی مستور ہے کہ ''دین جبر سے نہیں پھیلایا جاتا اور دوسرے انسانوں سے مذہب کی بنیاد پر اتنی نفرت و عصبیت نہ برتنی چاہیے کہ اعلیٰ اقدار میں تعاون نہ ہو سکے۔ مذہب کا مقصد ہی اعلیٰ اقدارِ انسانی کا قیام ہے۔ اور سنگ دلانہ تعصب و تفریق کوئی اعلیٰ قدر نہیں‘‘۔
یہی درس قائد اعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ملتا ہے۔