سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا بدھ، 9 اگست کو اسلام آباد سے شروع ہونے والا جی ٹی روڈ پراپیگنڈا مارچ مختلف جگہوں پر پڑاؤ ڈالتا ہوا چار روز بعد 12 اگست بروز ہفتہ لاہور آ کر اختتام کو پہنچا، جسے میاں صاحب نے اقتدار سے گھر واپسی کا نام دیا۔ اس دوران میں انہوں نے اپنی تقاریر میں زیادہ تر زورِ بیان اس پہ صرف کیا کہ بیس کروڑ عوام نے مجھے وزیراعظم بنا کر اسلام آباد بھیجا، پانچ لوگوں نے مجھے گھر بھیج دیا۔ پانچ لوگوں سے ان کی مراد سپریم کورٹ آف پاکستان کا وہ پانچ رکنی لارجر بنچ ہے جس نے انہیں عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔
اس پراپیگنڈا مارچ کے دوران میں میاں صاحب یہ بھی فرماتے رہے کہ ستر برس میں کسی بھی وزیراعظم کو اپنی اقتداری مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ میاں صاحب کا یہ ارشاد بالکل درست ہے لیکن ہر وزیراعظم کی مدتِ اقتدار پوری نہ ہونے کی وجوہ مختلف ہیں۔ پاکستان کے پہلے آئینی، منتخب اور جمہوری وزیر اعظم لیاقت علی خاںؒ کو 16 اکتوبر 1951ء کے روز راولپنڈی کے کمپنی باغ میں جلسۂ عام کے دوران میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ امریکہ نے ان کی شہادت کے 55 برس بعد 2006ء میں متعلقہ کاغذات ڈی کلاسیفائی کیے جن میں ان کی مدتِ اقتدار پوری نہ ہونے کا ذمہ دار امریکہ نے خود کو قرار دیا، کہ ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق نے اینگلو ایرانین آئل کمپنی نیشنلائز کر لی۔ امریکہ نے اسے سبق سکھانے کے لیے وزیر اعظم پاکستان خان لیاقت علی خاںؒ سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے امریکی آلۂ کار بننے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ کہانی طویل ہے۔ بہرحال، ان کاغذات کے مطابق امریکہ نے انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے دوسرے مقتدر اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی اس امریکی دھمکی ''ہم تجھے ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گے‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیے گئے۔ جرم ملک کو ایٹمی صلاحیت کی طرف لے جانے کا عزم تھا۔ اور یہ کام میاں نواز شریف کے ممدوح، مربی اور دعا گو جنرل محمد ضیاء الحق کے ہاتھوں انجام کو پہنچایا گیا۔ اس کے بعد محمد خان جونیجو سے لے کر میاں نواز شریف کے حالیہ دورِ اقتدار سے پہلے تک وزرائے اعظم کو مدت پوری کیے بغیر اقتدار سے ہٹانے کے لیے جو غیرآئینی یا غیرجمہوری جتن کیے گئے میاں محمد نواز شریف بھی ان کا حصہ رہے۔ ایسے جوڑ توڑ میں بھرپور اور فعال حصہ داری، جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملہ اور جنرل مشرف کے ساتھ ایک معاہدے کے نیتجے میں دس سال کے لیے خودساختہ جلاوطنی پر آمادگی، میاں صاحب کے سیاسی دامن پر ایسے کڑیل اور گاڑھے داغ ہیں کہ ان کے ہاتھوں سے انجام دیا گیا کوئی بہت بڑا اور شہ زور کارنامہ ہی انہیں دھندلا سکتا ہے، اگرچہ انہیں مٹایا تو کسی صورت نہیں جا سکتا، کہ تاریخ کا بناؤ سنگھار اس کی اجازت نہیں دیتا۔
اپنے اس پراپیگنڈا مارچ میں میاں صاحب جگہ جگہ یہ بھی کہتے رہے کہ اگر میں دو چار سال رہ جاتا تو ملک سے بے روز گاری بالکل ختم ہو جاتی۔ جبکہ ان کے نامزد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پہلے روز سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ میں نہیں‘ وزیر اعظم نواز شریف ہی ہیں‘ انہی کی پالیسیاں چلیں گی۔ اور یہ بات ہے بھی درست۔ چونکہ ہمارے موجودہ سیاسی ''لیڈروں‘‘ کے سامعین بالعموم سوڈے کا جوش ہوتے ہیں، اس لیے یہ ''لیڈر‘‘ حضرات محض واہ واہ کے لیے ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو حقائق سے علاقہ نہیں رکھتیں۔ دیکھیں، میاںصاحب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا ہر شخص کیا قانون اور آئین سے بالاتر ہو جاتا ہے؟ اسے غلط قدم اٹھانے کی بھی کھلی آزادی ہونی چاہیے؟ خود میاں صاحب کے سابقہ دور میں ان کے احتساب کمشن نے آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا۔ موصوف گیارہ برس جیل میں رہے حالانکہ انہیں بھی عوامی مینڈیٹ حاصل تھا۔
کراچی، حمید ٹیلرز کے مالک مسٹر عبدالحمید اور ان کے بھائی اور اسسٹنٹ صوفی عبدالقادر گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے کپڑوں کی ٹرائی کے لیے پانچ منٹ لیٹ پہنچے تو قائد اعظمؒ گرجے:''مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان ہونا چاہیے۔ وعدہ پورا کرے اور وقت کی پابندی کرے‘‘۔
میاں محمد نواز شریف کے خلاف جب پاناما کیس شروع ہوا تو انہوں نے کھلے بندوں وعدہ کیا تھا کہ انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہو گا۔ آپ ایسا اظہار نہ بھی کریں، عدالتی کارروائی میں آپ کی شرکت حتیٰ کہ عدم شرکت بھی اس کے فیصلے کے آگے آپ کا سر تسلیم خم کر دیتی ہے۔ لیکن فیصلہ آنے کے بعد میاں صاحب اپنے اس عہد پر قائم نہیں رہے، جو قائد اعظمؒ کے اصول اور روایت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ قیامِ پاکستان پر قائد اعظمؒ سرحدوں کے تعین کا کام اقوامِ متحدہ کے سپرد کرنے کے حامی تھے، لیکن پنڈت جواہر لال نہرو کی مخالفت پر یہ تجویز نہ مانی گئی۔ پھر قائد اعظمؒ نے بائونڈری کمشن کے ممبرز کے لیے پریوی کونسل لندن کے تین ججز کے نام پیش کیے۔ آخری وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے، جو ہندوستان کی وحدت برقرار رکھنے اور قیامِ پاکستان کو ناممکن کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔ اور جواز ہندوستان کی گرمی کو بنایا: چونکہ پریوی کونسل کے ججز کی عمریں زیادہ ہیں، یہ گرمی ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گی۔ اس عدم اتفاق کے باعث وزیر اعظم برطانیہ لارڈ کلیمینٹ ایٹلی (Clement Attlee) نے سر ریڈ کلف کو بائونڈری کمشن کا چیئرمین نامزد کر دیا۔ اب اسے امپائر تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ ریڈ کلف نے عدل و انصاف کی دھجیاں اڑا دیں اور کئی علاقے جو پاکستان میں آتے تھے آخری وقت میں بھارت کو دے دیے۔ اس کے اپنے فیصلے کے مطابق فیروز پور اور زِیرہ کی تحصیلیں پاکستان میں شامل ہو رہی تھیں۔ لیکن دباؤ میں آ کر اس نے اپنا یہ فیصلہ بھی تبدیل کر دیا۔ جبکہ پاکستان کے موقف میں اتنی جان تھی کہ پنجاب بائونڈری کمشن میں کانگریس کے وکیل موتی لال سیتل واڈ نے تسلیم کیا اور مسلم لیگ کے وکیل چودھری محمد ظفراللہ خاں کے بارے میں کھلے بندوں کہا: ''اگر اس مقدمے کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہوتا ہے تو ظفراللہ خاں جیت چکے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اچھے آرگومینٹس مسلم انڈیا کی طرف سے کوئی پیش کر سکتا ہے‘‘۔
اس کے باوجود جب ریڈ کلف ایوارڈ آیا تو اس میں پاکستان کو کئی علاقوں سے محروم کر دیا گیا۔ اس کھلی ناانصافی کے نتیجے میں ہندو مسلم منافرت میں شدت آ گئی۔ اس پر قائد اعظمؒ نے کہا کہ اگرچہ یہ فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے لیکن ہم امپائر کا فیصلہ قبول کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں اور ''ہم سب کا فرض ہے کہ اس پر نہایت وفاداری اور سچے دل سے قائم رہیں‘ اور اس معاہدے پر جو اب قطعی بھی ہے اور جس کی پابندی ہم سب پر لازم ہے، باعزت طریقہ سے عمل پیرا ہوں‘‘۔
میاں نواز شریف کو بھی اپنے اس وعدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس سے اداروں میں ٹکراؤ کا خدشہ دم توڑ دے گا۔ اور انہیں عوام کے سامنے فیصلے کو خواہ مخواہ غلط معانی نہیں دینا چاہییں، کہ ''پاناما! اس میں سے نکلا کیا، اقامہ‘‘۔ اقامہ ہی کی وجہ سے ایسی پن کوڈ میسر آتی ہے کہ آپ ان ملکوں حتیٰ کہ سوئس بینکوں میں بھی روپے کا انتقال و ترسیل بآسانی کر سکتے ہیں۔ ہمارے بعض وزرا نے خلیجی ریاستوں میں معمولی ملازمتوں پر بھی اقامے یونہی نہیں حاصل کر رکھے۔ بہرحال، میاں صاحب نے آئین میں تبدیلی کی بات بھی کی ہے اور عارضی اور وقتی جوش سے لدے پھندے عوام کے سامنے انقلاب کا نعرہ بھی لگا دیا ہے۔ کون سا انقلاب؟ میاں صاحب نے یہ واضح نہیں کیا۔ وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کی آہ و بکا اور انقلاب کے لیے جدوجہد میں بڑا فرق ہے۔