سید شمس الحسن مرحوم نے 1914ء میں ایک ٹائپسٹ اور شارٹ ہینڈر کی حیثیت سے آل انڈیا مسلم لیگ کا دفتر جائن کیا۔ محنت شاقہ اور بے پایاں خلوص سے وہ مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری اور پھر اسسٹنٹ سیکرٹری ہوئے۔ مسلم لیگ کاز کے ساتھ ان کی اندھا دھند لگن کی جی ایم سید مرحوم بھی اخیر دم تک تحسین کرتے رہے۔ دراصل وہ فنافی المسلم لیگ تھے۔ وہ لکھتے ہیں:''جہاں تک مجھے علم ہے قائدؒ کی ذاتی عادات جاننے کا شرف پانے والوں میں سے صرف یہی افراد حیات ہیں:مطلوب الحسن سید، کے ایچ خورشید اور اے وائی سید۔ کیونکہ کسی اور کے مقابلے میں قائدؒ کے پرائیویٹ سیکرٹریز کے طور پر انہوں نے زیادہ عرصہ کام کیا‘‘۔ (صرف مسٹر جناح۔ص:77)۔
سید صاحب نے 1976ء میں یہ لکھا۔ تب سید شریف الدین پیرزادہ نہ صرف حیات تھے، بلکہ کراچی میں سید شمس الحسن کی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد سے چند منٹ کی ڈرائیو پر کے ڈی اے سکیم نمبر 1 میں رہتے تھے۔ اور نہ وہ ان دنوں کسی آئینی جادوگری کے لیے اسلام آباد میں مقیم تھے۔ جن تین افراد کے نام سید شمس الحسن نے دیے ہیں، بہ طور پرائیویٹ سیکرٹری ٹو دی قائداعظمؒ ان کا عرصۂ ملازمت 17 اپریل 1940ء سے 14 اگست 1947ء تک ہے، سوا سات برس سے زائد۔ ایسے میں پیرزادہ صاحب کا یہ دعویٰ کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ وہ 1941ء سے 1944ء تک قائداعظمؒ کے اعزازی سیکرٹری رہے۔
جب مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی دوٹوک تردید سے وہ کہیں کے نہ رہے تو وقتی طور پر اس پر آ گئے کہ وہ قائداعظمؒ کے سیکرٹریٹ میں ملازم تھے۔ جہاں وہ قائداعظمؒ کی طرف سے نشان زدہ خبریں کاٹ کر کاغذ پر چسپاں کرتے۔ اس کے لیے وہ بعد دوپہر دو ڈھائی بجے سے شام تک وہاں مصروف رہتے۔ اور یہ کہ انہوں نے قائداعظمؒ سے طے کر لیا تھا کہ وہ بغیر معاوضے کے کام کریں گے۔ حالانکہ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی کسی کی بلامعاوضہ خدمات حاصل کیں نہ معاوضہ ادا کیے بغیر کوئی شے قبول کی۔ خود پیرزادہ صاحب نے میرے ساتھ انٹرویو میں یہ حقیقت تسلیم کی کہ''ان کا اصول تھا کہ وہ کسی سے بلامعاوضہ کام نہیں لیتے تھے‘‘۔ تو پھر پیرزادہ صاحب سے روزانہ وہ دو ڈھائی بجے سے شام تک، چار پانچ گھنٹے، مفت خدمات کیوں لیتے رہے، جبکہ پیرزادہ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ تب ان کی مالی حالت یہ تھی کہ اپنی اقامت گاہ سے قائداعظمؒ کے جناح بنگلو تک جانے آنے کے لیے ان کے پاس ٹرانسپورٹ کا کرایہ ادا کرنے کے لیے آٹھ آنے (پچاس پیسے) بھی نہ ہوتے تھے۔ اور زیادہ تر فاصلہ سخت دھوپ میں بھی پیدل طے کرتے۔ پیرزادہ صاحب کے مطابق جب قائداعظمؒ کے اصرار کے باوجودمیں نے معاوضہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تو''انہوں نے مجھے معاوضہ ادا کرنے کی بڑی خوبصورت راہ نکالی۔ فرمایا:مختلف لیڈروں سے میری جو خط کتابت ہوئی ہے اسے شائع کر دیں۔ اس طرح آپ کو پبلشر سے پیسے مل جائیں گے.....میں نے اسے ''لیڈرز کارسپانڈنٹس وِد مسٹر جناح‘‘ کے نام سے شائع کر دیا‘‘۔(آتش فشاں قائداعظم نمبر۔ دسمبر1976ء۔ ص:130)۔
ریکارڈ نے پیرزادہ صاحب کے اس دعویٰ کی قلعی بھی کھول ڈالی۔ سید شمس الحسنؒ ''صرف مسٹر جناح‘‘ کے صفحہ 188پر لکھتے ہیں:''3 نومبر 1943 کو 142 باپو کھوٹے سٹریٹ ، بمبئی 3 کے سید شریف الدین نے قائدؒ سے درخواست کی کہ وہ انہیں مختلف لیڈروں کے ساتھ اپنی اس خط کتابت کا مجموعہ شائع کرنے کی اجازت دیں جو اخبارات میں شائع ہو چکی ہے۔ قائدؒ نے 5 نومبر 1943ء کے خط میں انہیں اجازت دے دی:''آپ کا 3 نومبر 1943ء کا خط ملا۔ ہندوستان کے سیاسی امور پر مختلف لیڈروں کے ساتھ میری جو خط کتابت ہوئی ہے۔ اور جو وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپ چکی ہے آپ اس کا مجموعہ چھاپنا چاہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
پیرزادہ صاحب اور قائداعظمؒ کے درمیان اس خط کتابت میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ قائداعظمؒ نے ہندوستان کے مختلف سیاسی لیڈروں کے ساتھ اپنی خط کتابت شائع کرنے کی اجازت انہیں اپنے ہاں کام کرنے کے معاوضے کے طور پر دی ہو۔
پیرزادہ صاحب نے لفظ سیکرٹریٹ استعمال کیا ہے، جس سے خیال گزرتا ہے کہ قائداعظمؒ کے ہاں بیسیوں لوگ کام کرتے تھے۔ زیادہ کام ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سے متعلق تھا جو عام طور پر ان کا سیکرٹری ہی کرتا تھا۔ مثلاً مطلوب الحسن سید جب 17 اپریل 1940ء کو قائداعظمؒ کے پاس انٹرویو کے لیے حاضر ہوئے تو ان کی تعیناتی کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے کہا:''آپ شارٹ ہینڈ نہیں جانتے۔ سیکھنے کی کوشش کرنا‘‘۔ 8 مئی 1944ء سے 26جولائی 1944ء ، قائداعظمؒ کے قیامِ کشمیر کے دوران میں ان کے ساتھ ان کا سیکرٹری مسٹر لوبو ہی تھا۔ وہی ان کی خط کتابت ٹائپ کرتا۔ یکم جولائی 44ء کو قائداعظمؒ نے مسٹر لوبو کے ساتھ کے ایچ خورشید کو اپنا عارضی سیکرٹری مقرر کیا۔ ظاہر ہے خورشید صاحب نو آموز تھے، اور مسٹر لوبو تجربہ کار۔ انہیں مسٹر لوبو کے ساتھ لگانا ضروری تھا۔ خورشید صاحب کہتے ہیں:''وہ ہر اہم خبر پر اپنے قلم سے نشان لگا دیا کرتے۔ اور بعد میں ہم لوگ اسے کاٹ کر کاغذ پر چپکا دیتے‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر۔ اردو۔ جلد دوم۔ص:290)۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ کی نشان زدہ خبریں کاٹ کر الگ کاغذ پر چسپاں کرنا بھی بالعموم ان کے سیکرٹری کے فرائض میں شامل تھا۔ تو شریف الدین پیرزادہ 41ء سے 44ء تک قائداعظمؒ کے کون سے سیکرٹریٹ میں روزانہ چار پانچ گھنٹے کام کرتے رہے؟ اور ہر روز کونسی بیسیوں خبریں کاغذوں پر پیسٹ کرتے رہے؟ ہے نا عجوبہ!
اپنے اس سیکرٹریٹ کے بارے میںایک دفعہ قائداعظمؒ نے کہا تھا:''.....میرا اسلحہ صرف ایک اٹیچی کیس، ایک ٹائپ رائٹر اور ایک پرسنل اسسٹنٹ ہے‘‘۔ (حالاتِ قائداعظمؒ۔ص:18)۔
بہرحال، قائداعظمؒ نے باپو کھوٹے سٹریٹ بمبئی3 کے سید شریف الدین کو یہ خط کتابت شائع کرنے کی اجازت کسی معاوضے کے طور پر نہ دی تھی۔ پیرزادہ صاحب کی مرتبہ ''لیڈرز کارسپانڈنٹس وِد جناح‘‘ کے نام سے جنوری 1944ء میں بمبئی سے شائع ہوئی۔ اس میں گاندھی کا قائداعظمؒ کے نام 16 جنوری 1940ء کا وہ خط بھی ہے جس میں گاندھی جنابِ جناح صاحب کے بجائے ڈیئرقائداعظم لکھنے کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہیں:''لیکن ابوالکلام نے مجھے بتایا کہ لیگی حلقوں میں آپ کو ہمیشہ قائداعظم کہا جاتا ہے‘‘۔مارچ 1945ء میں عبدالرحمن سعید کی مرتبہ ''قائدین کے خطوط جناح کے نام‘‘ نفیس اکیڈمی حیدرآباد دکن نے شائع کی۔ اس میں بھی یہی جملہ ہے۔ چیف ایڈیٹر اے ایم زیدی کی ''ایولیوشن آف مسلم پولیٹیکل تھاٹ اِن انڈیا‘‘ نیودہلی، جلد پنجم-ص:430 پر بھی پیرزادہ صاحب کی مرتبہ کتاب والا جملہ ہی شامل ہے۔ جبکہ مولانا ابوالکلام آزاد ''انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مسٹر جناح کو قائداعظمؒ لکھنے کا مشورہ گاندھی جی کے آشرم میں موجود امت الاسلام نامی خاتون نے دیا تھا۔ مولانا آزاد کا مَوقِف درست ہے کہ جناح پیپرز جلد15، ص:68۔ پہلا ایڈیشن 2007ء میں یہی درج ہے:''لیکن امت الاسلام نے مجھے بتایا کہ لیگی حلقوں میں آپ کو ہمیشہ قائداعظم کہا جاتا ہے‘‘۔
پیرزادہ صاحب نے اخبارات میں چھپنے والی یہ خط کتابت مرتب کی تھی۔ یا تو کسی اخبار میں امت الاسلام کی جگہ ابوالکلام غلطی یا شرارت سے چھپ گیا تھا یا پھر یہ پیرزادہ صاحب کی سہوتھی یا چالاکی۔ اللہ جانے۔ لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ مولانا آزاد کی ''انڈیا ونز فریڈم‘‘ 1959ء میں شائع ہوئی۔ اس میں امت الاسلام ہی لکھا ہے۔ بہرحال، یہ بھول یا دانش ورانہ بددیانتی بعض مضمون نگاروں اور ''محققین‘‘ کی ''تحقیق‘‘ میں شامل چلی آ رہی ہے۔کالم کی حدبندھی ہوئی ہے ورنہ پیرزادہ صاحب کی آئینی اور غیرآئینی جادوگری کی داستان ابھی ختم نہیں ہوئی۔