مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یعنی جے آئی ٹی) کی تفتیش کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے مستعفی ہونے کے مطالبے میں بہت زیادہ شدت آ چکی ہے، حالانکہ نہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے نہ جے آئی ٹی کی سفارش۔ میاں صاحب ڈٹ گئے ہیں کہ انہیں عوامی مینڈیٹ حاصل ہے وہ کیوں مستعفی ہوں۔ ہمارے ہاں تو بغیر اکثریت کے اقتدار سے چمٹے رہنے کا رواج رہا ہے، ایسے میں وزیراعظم کا موقف جاندار ہے۔پاکستان کے سیاسی روزوشب میں ایک ایسی مثال بھی ہے کہ جب اسمبلی میں مسلم لیگ کی اکثریت نہ رہی تو وزیراعظم چودھری محمد علی بغیر کسی مطالبے کے ازخود وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے، حالانکہ ان کے کریڈٹ میں 1956ء کا آئین تھا جس پر مغربی اور مشرقی پاکستان، دونوں حصوں نے، مہر تصدیق ثبت کی تھی۔
ویسے تو ملک کے اولین وزیراعظم، تحریکِ پاکستان اور پھر تعمیرِ پاکستان میں قائداعظمؒ کے دستِ راست خان لیاقت علی خاںؒ اسمبلی میں زبردست اکثریت کے باوجود مستعفی ہو گئے تھے۔ وجہ ان کی بیگم رعنا اور گورنر جنرل قائداعظمؒ کی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ کے درمیان رنجیدگی تھی۔ قائداعظمؒ نے یہ کہہ کر ان کا استعفا مسترد کر دیا:''لیاقت! میری بہن یا اپنی بیوی کو اپنے اور میرے درمیان حائل مت ہونے دیجیے‘‘۔
خود قائداعظمؒ بھی عوامی مینڈیٹ کے باوجود امپیریل لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ جب روولٹ بل کونسل میں پیش ہواتو قائداعظمؒ نے بڑی مدلل اور بھرپور اس کی مخالفت کی۔ چونکہ یہ بل عوام کے بنیادی حقوق غصب کر رہا تھا اس لیے اس دوران میں انہوں نے یہ بھی کہا:''باضابطہ عدالتی تفتیش کے بغیر کسی شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی آزادی سے محروم نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ اس کے باوجود جب کونسل نے یہ بل منظور کر لیا تو قائداعظمؒ نے 28 فروری 1919ء کو وائسرائے لارڈ چیمسفورڈ کو پیش کیے گئے اپنے استعفا کا آغاز ان الفاظ سے کیا:''عوام کی مرضی کے برخلاف حکومتِ ہند کی طرف سے روولٹ بل کی منظوری اور گورنر جنرل کی طرف سے اس کی توثیق نے برطانوی انصاف پر ان کے ا عتماد کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالا ہے‘‘۔ استعفا میں ایک جگہ لکھا:''ایک ایسے وقت جب ملک کو کوئی حقیقی خطرہ درپیش نہیں، انتہائی تُنک مزاج اور نااہل بیوروکریسی نے عدل کے بنیادی اصولوں کی بیخ کنی اور عوام کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے.....لہٰذا میں اس بل کی منظوری پر اور جس طریقے سے یہ منظور کیا گیا ہے امپیریل لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً استعفا پیش کرتاہوں، کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں میں کونسل میںرہتے ہوئے اپنے عوام کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا.....‘‘۔
قائداعظمؒ کا استعفااصول کی بالادستی اور عالی مرتبت کا معاملہ تھا۔ لیکن ان کے بنائے ہوئے پاکستان میں ہم نے اصولوں کو تارتار ہوتے دیکھا۔ بالی عمریا میں میں نے وہ پُرجوش جلسے، جلوس بھی دیکھے جن میں منتخب اور جمہوری وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور ان کے وزیر خارجہ، جو قائداعظمؒ کے نامزد تھے، چودہری ظفراللہ خاں سے استعفے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ خاصی تباہی کے بعد اس ایجی ٹیشن کے ماسٹر مائنڈ وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ کو ہی مستعفی ہونا پڑا۔ بعد میں ثابت ہوا کہ اس ہنگامہ آرائی کا سبب میاں دولتانہ کی جلد از جلد وزیراعظم بننے کے لیے بے صبری، بے چینی اور اضطراب تھا۔ ایک سنگین سیاسی غلطی کے باعث دولتانہ صاحب ہر قسم کی کوالیفیکیشن کے باوجود عمر بھر وزیراعظم بننے کے لیے ترستے رہے، حتّٰی کہ پھر کبھی وزیراعلیٰ بھی نہ بن سکے۔ اسی لیے قائداعظمؒ سیاست دانوں سے تحمل، بردباری اور سمجھ بوجھ کی توقع رکھتے تھے۔ لیکن سیاسی تحمل اور بردباری کا یہ عالم کہ موجودہ اپوزیشن 2018ء کے الیکشن کا انتظار کرنے سے بھی عاجز نظر آرہی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ناسمجھی نے ہمیں کئی بار تباہی کی طرف دھکیلا۔ درست کہ جنرل محمد ایوب خاں کا اقتدار پر قبضہ غاصبانہ تھا، لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں ملک زرعی اور صنعتی ترقی میں بہت آگے نکل گیا۔ اس قدر کہ قوموں کی برادری میں ہمارا ملک ایک مثال بن گیا۔ اس وقت کی اپوزیشن بھی ان کے اِستِعفا سے کم پر راضی ہونے کے لیے تیار نہ تھی۔ بالآخر ایوب خاںکے مستعفی ہونے کا شدید مطالبہ جنرل یحییٰ خاں کے اقتدار پر قابض ہونے کی صورت میں نکلا۔ پھر ایوب خاں پر لگائے گئے مالی کرپشن کے الزامات کا کسی نے ذکر نہ کیا۔یہ جو کہا جاتا تھا دنیا کے غریب ترین ملک کا امیر ترین صدر، وہ سب ہوا سے اڑ گیا۔ اِستعفا کے غیردانش مندانہ اور جذباتی مطالبے اور ایوب خاں کے وجود سے نفرت کا یہ منفی نتیجہ نکلا: ملک دو لخت ہوا۔ معیشت برباد۔ پھر اپوزیشن پر منکشف ہوا کہ یہ کھیل تو بیرونی قوتوں نے پاکستان کی ترقی الٹنے کے لیے کھیلا تھا۔ اور ایوب خاں کی تصویر کے نیچے قتیل شفائی کا یہ مصرع لکھا جانے لگا ع
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
میاں نواز شریف ایسی ہی شدت سے مخالفین کا نشانہ ہیں۔ اگر چلے گئے تو پتا نہیں ان کی تصویر تلے کیا لکھا جائے۔ تاہم بھٹو صاحب کے اقتدار سے جبری اخراج اور عدالتی قتل کے بعد انہیں شہیدِ جمہوریت لکھا گیا۔
ہاری ہوئی، دل شکستہ قوم کو ذوالفقار علی بھٹو نے عالی حوصلہ کیا تھا۔اس کے باوجود ہماری اپوزیشن ان کے استعفے پر اٹل رہی۔ اپوزیشن کے نوجماعتی اتحاد کے روح ورواں ایئرمارشل (ر) اصغر خاں انہیں کوہالہ پل پر لٹکانے کے اعلان کرتے رہے۔ جس طرح آج عمران خان نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں لے جانے کا تہیہ ظاہر کر رہے ہیں۔ اصغرخاں اور ان کی ساتھی اپوزیشن نے تو بھٹو کے لیے امریکی دھمکی ''ہم تجھے ایک عبرت ناک مثال بنا دیں گے‘‘ پوری کر دکھائی، عمران خان پتا نہیں اپنے اعلان میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں، کیونکہ وزیراعظم مستعفی نہ ہونے پر تاحال اٹل ہیں۔
میاں دولتانہ کی طرح اصغرخاں بھی ہا تھ ملتے رہ گئے۔ پھر جنرل ضیا کو نکالنے کے لیے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ایم آر ڈی بنائی۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آنے والی بات! فرماتے تھے:''یہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں‘‘۔ سیاستدانوں سے قائداعظمؒ کی سمجھ بوجھ کی توقع 1999ء میں بھی پوری نہ ہوئی جب بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خاں نواز ہٹاؤ کے یک نکاتی ایجنڈے اور امیر جماعت اسلامی دھرنوں پر اڑے رہے۔ جس کا فطری نتیجہ جنرل پرویز مشرف کی نو سالہ آمریت کی صورت میں نکلا۔ پھر قاضی صاحب نے جنرل مشرف سے استعفے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ہماری سیاست کے ڈھنگ نرالے۔ اقتدار میں آنے کی بے قراری میں ملک کئی بارطویل آمریت کی دلدل میں لت پت ہوا۔ یہ کیسی سیاسی دانش ہے کہ سپریم کورٹ سے پہلے ہی اپنا فیصلہ صادر کر دیا جائے۔ اس طرح تو سسٹم بچانے کی آڑ میں سسٹم برباد کیا جا رہا ہے۔
اگر اس طرح استعفے طلب کیے اور دیے جائیں تو نظام کیسے چلے گا۔ 1953ء کی ایجی ٹیشن میں قائداعظمؒ کے نامزد کیے ہوئے وزیرخارجہ چودہری ظفراللہ خاں نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو دو تین مرتبہ مستعفی ہونے کی پیش کش کی۔ خواجہ صاحب کہتے:''آج آپ استعفا دیدیں، کل کسی اور منسٹر کا کہیں گے۔ پرسوں کسی اورکے متعلق شور مچائیں گے۔ میں پھر حکومت انہی کے ہاتھ دے دوں‘‘۔
قانون سے کوئی بالا نہیں ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اگر مالی کرپشن کی ہے تو اس کی انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ان ہی کو نہیں ہر اُس قومی ذمہ دار شخص کو جو اپنے حلف کی خلاف ورزی اور امانت میں خیانت کا مرتکب ہو۔ لیکن قائداعظمؒ کا بتایا ہوا یہ اصول پیشِ نظر رہے:''باضابطہ عدالتی تفتیش کے بغیر کسی شخص کو ایک منٹ کے لیے بھی آزادی سے محروم نہیں کرنا چاہیے‘‘۔