اس خطے میں پاکستان ہی بین الاقوامی سازشوں کا اس قدر ہدف کیوں ہے؟ اس لیے کہ مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشیا وغیرہ کو زیر نگیں کرنے کے لیے اس کا کمزور و ناتواں اور حصوں بخروں میں تقیسم ہونا ضروری ہے، ورنہ اسرائیل کا فاؤنڈنگ فادر بن گوریان پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے مالی، اخلاقی اور عسکری امداد پر کیوں مضطرب رہا۔ اور اس نے مغربی دنیا میں اپنے پیروئوں کو یہ پیغام کیوں بھیجا کہ ''وہ بنگالی علیحدگی پسندوں کی اخلاقی اور مالی امداد بڑھائیں، اور بنگلہ دیش کے قیام کا مقصد آگے بڑھانے اور پاکستان کو ٹکڑے کرنے میں بھارت کے ساتھ تعاون کریں‘‘۔ حقیقت یہ تھی‘ لیکن یہاں ''را‘‘ اور ''موساد‘‘ نے یہ پروپیگنڈا عام کر دیا کہ اگر شیخ مجیب کو اقتدار دے دیا جاتا تو پاکستان بچ جاتا۔ جب شیخ مجیب ''را‘‘ اور ''موساد‘‘ وغیرہ کا آلۂ کار تھا تو اقتدار میں آنے کے باوجود پاکستان اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔ لوگ، لوگ کیا ہمارے بیشتر فاضل تجزیہ کار اور اینکرز بھی بھول جاتے ہیں کہ 70ء کے انتخابات انتقالِ اقتدار کے لیے نہیں آئین سازی کے لیے ہوئے تھے۔ پھر ہم سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں میں بھٹو صاحب کو خواہ مخواہ گھسیٹ لاتے ہیں۔ اور جماعت اسلامی کی پاکستان نواز اور پاکستان بچاؤ سرفروش تنظیموں البدر اور الشمس کو بھی اس المیے کا ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں۔ یہ بغضِ معاویہ ہے ورنہ اب تک دستیاب معلومات کی روشنی میں پاکستان کے لیے ان کی قربانیاں ہماری تاریخ کا ایک شہ زور باب ہے۔ اور آج بھی وہاں انہیں پاکستانیت کی سزا دی جا رہی ہے۔ ملک کے لیے یہ کوئی معمولی قربانی ہے؟
بات دوسری طرف نکل گئی، اتنی بھی نہیں نکلی۔ بہرحال، میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ معروف اخبار نویس ضیا شاہد نے اپنی تازہ کتاب ''پاکستان کے خلاف سازش‘‘ میں دشمن ملکوں کے ایسے ہی بعض آلہ کاروں کے عزائم کی نشاندہی کی ہے۔ ان پر خواہ مخواہ بہتان نہیں باندھے، ایسے لوگوں کے بیانات اور تحریروں ہی میں سے ان کا ذہنی رخ سامنے لائے ہیں۔ یہ دراصل چند ماہ قبل ان کے اپنے روزنامہ میں شائع کیا گیا ان کا 58 اقساطی ایک سلسلۂ مضامین تھا، جسے انہوں نے ''پاکستان کے خلاف سازش‘‘ کے عنوان سے قوم کے حضور رکھ دیا ہے کہ سوچیں‘ اب کیا کرنا ہے۔ یہ محض مضامین نہیں، ضیا صاحب کے سینے میں قائد اعظمؒ، اقبالؒ اور پاکستان کے لیے مضطرب دل کی ایک دھڑک ہے۔
کالا باغ ڈیم کو ملکی کی ہی نہیں غیرملکی ماہرین بھی ناگزیر اور پورے پاکستان کے لیے نفع بخش کہہ چکے ہیں، لیکن بہ قول غلام مصطفی کھر اور شمس الملک، ولی خاں یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود باہر آ کر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ اس کتاب میں کالا باغ ڈیم پر کیے گئے ایک سیمینار میں ولی خاں کا یہ موقف بھی ریکارڈ کیا گیا ہے: ''آخری نشست میں ولی خاں نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ آپ لوگ جتنے بھی دلائل کالا باغ ڈیم کی حمایت میں لائیں۔ میں ان کی ڈٹ کر مخالفت کروں گا۔ اور ہم کسی قیمت پر یہ ڈیم تعمیر نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
اس پس منظر میں واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا یہ بیان پیش نظر رہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کے مخالفین پر سات ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ یہ خیال نہیں رہا، انہوں نے ماہانہ کہا تھا کہ سالانہ۔ تاہم بھارتی کمانڈر انچیف جنرل بھان کا وہ انٹرویو اس پر دالّ ہے کہ مشرف دور میں جب بھارت نے پاکستان پر فوجی حملہ طے کر لیا تو وزیر اعظم بھارت واجپائی کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا فون آیا، پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ ملک کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کے سبب خوراکی ضروریات کے لیے مغرب کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گا۔ تب ایٹمی صلاحیت کے خاتمے کی شرط پر اس کی مدد کی جائے گی۔ صاحبِ کتاب کے ولی خاں کی زبانی بیان کیے گئے تین جملوں نے کیا کیا یاد دلا دیا۔
اور ہاں، غفار خاں کے حوالے سے انگریز دشمن کا جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے‘ ریکارڈ اور تاریخ کی رو سے مصنف نے کتاب کے صفحہ 12 اور 13 پر لکھا ہے: ''یہ خیال کچھ درست نہیں کہ یہ خاندان انگریزوں کا شروع سے دشمن تھا، کیونکہ غفار خاں کے والد بہرام خاں نے انگریزوں کے لیے ''غدر‘‘ جسے ہم ''جنگِ آزادی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور 1857ء میں ہوا، میں انگریزی افواج کے لیے شاندار خدمات انجام دیں۔ جس کے بدلے میں انگریز نے انہیں دھڑا دھڑ زمینیں عطا دیں۔ غفار خاں کا خاندان آج تک انہی زمینوں پر قابض چلا آ رہا ہے..... خان عبدالغفار خان کے والد بہرام خان کو انگریزوں نے سینکڑوں ایکڑ زمین دے کر جاگیردار بنایا۔ علاقے کے انگریز افسران انہیں چچا کہتے تھے۔ بہرام خان اور ان کے لوگوں نے 1857ء کے غدر کو ناکام بنانے میں انگریزوں کی بہت مدد کی‘‘۔ ایسی تحریر میں ایک جینوئن رائٹر کے لیے حوالہ سے بات کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ ضیا شاہد نے جا بہ بجا مستند حوالے بھی دیے ہیں۔
اسفند یار ولی کے ذکر میں مصنف نے ص 68 پر لکھا ہے: ''.....اسفند یار ولی کا گزشتہ دنوں یہ اعلان کہ میں افغانی پیدا ہوا تھا، افغانی ہوں اور افغانی رہوں گا، غفار خاں اور علی خاں کی سوچ کو آگے بڑھاتا ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے باوجود اسفند یار ولی خود کو پاکستانی نہیں بلکہ افغانی کہتے ہیں.....‘‘۔
کتاب کے مصنف ایک بات بھول گئے کہ صوبہ سرحد نام کی ایک خاص مقصدیت کے تحت نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ہاتھوں تبدیلی کے بعد اب یہ لوگ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے پر کیوں مضطرب ہیں۔ جو ڈیورنڈ لائن کو نہ مانیں، پاکستان کے بجائے افغانی کہلانا پسند کریں‘ پاکستانی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ ''فاٹا‘‘ کو کے پی کے کا حصہ بنانے پر بے چین ہی ہوں گے۔ پھر اٹک سے جلال آباد تک جو نقشہ بنتا ہے۔ کوئی بھی یہ خطرہ محسوس نہیں کر رہا۔ اس لیے فاٹا کو کسی صورت کے پی کے میں ضم نہ کیا جائے۔ اور وہ غلطی نہ دہرائی جائے جو گوادر کو بلوچستان کا حصہ قرار دے کر‘ کر دی گئی تھی۔ حالانکہ گوادر مرکز نے باقاعدہ خریدا تھا۔ مصنف کو فاٹا کے وجود کی برقراری کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
ضیا صاحب نے ایک یہ دلچسپ تضاد بھی بیان کیا ہے، عبدالصمد خاں اچکزئی نے 1956ء میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا: ''پشتون ریاست کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ اس پر مصنف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ''حیرت ہے کہ ان کے صاحبزادے محمود اچکزئی کہہ رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) افغانستان کا حصہ ہے۔ کس کی بات مانی جائے‘‘۔ (ص 100 اور 101)۔
افراد مذکور کے علاوہ اس کتاب میں حربیار مری، برہمداغ بگٹی، سلیمان داؤد، جی ایم سید کی تحریروں اور الطاف حسین کے ملک دشمن بیانات اور ارادوں کی تفصیل اور جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ کالم کی گنجائش مانع ہے۔ تاہم ہر تحریر اور بیان کا جائزہ حقائق اور مستند حوالوں سے لیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں پاکستان اور قائد اعظمؒ دشمن بیانات دینے اور شائع کرنے کی کھلی آزادی ہو۔ مولانا فضل الرحمن پاکستان کو نا پاکستان اور قائد اعظمؒ کو کافر اعظم کہنے والی جمعیت علمائے ہند کا صد سالہ جشن منائیں‘ جو شاید بھارت میں بھی ممکن نہ ہو۔ اور صاحب کے لاحقے کے بغیر قائد اعظمؒ کا نام نہ لینے والے چیئرمین مسلم لیگ ن راجا ظفرالحق اس میں بڑے فخر سے جلوہ افروز ہوں۔ وہاں ضیا صاحب جیسے اخبار نویسوں کا دم غنیمت ہے، جو اس گئے گزرے دور میں بھی ''پاکستان کے خلاف سازش‘‘ بے نقاب کرتے ہوں۔