مُحقق اور سکالر ہونے کے دعویدار ڈاکٹر مبارک علی کی ''در جوابِ آں غزل‘‘ روزنامہ دنیا لاہور ، یکم اپریل 2017ء میں بیان کی گئی دو تاریخی غلط بیانیوں کا ریکارڈ کی رُو سے 7 اور 13 اپریل کے کالموں میں جواب دیا جا چکا ہے۔''در جوابِ آں غزل‘‘میں ڈاکٹر صاحب نے تین افراد کے ذکر میں ایک اور بکھیڑا پیدا کرنے کی ایک اور شعوری کوشش کی ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے 23 مارچ 1940ء کے اس اجلاس لاہور کے ذکر میں موصوف رقم طراز ہیں:''اس کے دوسرے دن ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ سر سکندر حیات نے یہ اعلان کر دیا کہ مسلم لیگ پنجاب سے ہاتھ اٹھا لے۔ سندھ کے الٰہی بخش سومرو نے بھی اس سے لاتعلق ہونے کا اظہار کیا۔ بنگال کے فضل حق ، جنہوں نے قرارداد پیش کی تھی، وہ بھی مسلم لیگ کے بجائے کانگرس سے بات چیت کر رہے تھے‘‘۔
وزیراعلیٰ پنجاب سر سکندر حیات کے دوسرے دن ہی اس اعلان سے کہ ''مسلم لیگ پنجاب سے ہاتھ اٹھا لے‘‘ کا قراردادِ لاہور کی تاریخی اہمیت، واقعاتی صحت اور دائمی تشخص سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ کہ ریکارڈ مظہر ہے سر سکندر حیات ہمیشہ اس پر کوشاں رہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ کے بجائے ہندو، سکھ، مسلمان زمینداروں پر مشتمل ان کی یونینسٹ پارٹی کا ہولڈ رہے۔ ان کا یہ زعم توڑنے کے لیے مسلم لیگ نے اپنے اس 27 ویں سالانہ اجلاس کے لیے لاہور کا انتخاب کیا تھا۔ اور یہ علامہ اقبالؒ کی آرزو تھی۔ اگرچہ وہ خود یہ تاریخی عظیم دن دیکھنے کے لیے اس دنیا میں نہ رہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اجلاس قراردادِ لاہور کو سر سکندر حیات کے ساتھ جوڑنے کی جو شعوری کوشش کی ہے وہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ سر سکندر حیات نے یہ اجلاس ملتوی کرانے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن قائداعظمؒکے اٹل ارادے کے آگے ان کی کوئی پیش نہ گئی۔19 مارچ کو خاکساروں پر گولی چلنے کے بعد یہ اجلاس ملتوی کرنے کے لیے حکومتی اور سکندری کوششیں اور بھی تیز رفتار ہو گئیں۔ یہ اجلاس سبوتاژ کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا گیا۔ راجا سَید اکبر جو خاکسار تحریک میں سالار رہے تھے، اس ضمن میں ان کا مشاہدہ و تجربہ:''19 مارچ سے دو تین دن پہلے بشیر احمد صدیقی علامہ مشرقی کا حکم نامہ خفیہ طور پر خاکساروں میں بانٹتا رہا کہ کفن باندھ کے آجاؤ۔ بادشاہی مسجد میں ڈیرا لگاؤ۔ اصل مقصد 23 مارچ والے مسلم لیگ اجلاس سے قبل ہی منٹو پارک پر قبضہ کرنا تھا.....(حکمران) یونینسٹ پارٹی چاہتی تھی کہ 23 مارچ والا جلسہ نہ ہو، کیونکہ انگریز بہادر ناراض ہو جائے گا۔ انہوں نے اس واقعہ کو بہانہ بنایا اور زور دیا کہ کسی طرح یہ جلسہ نہ ہو۔ جب قائداعظمؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:''No (نہیں)۔ اگر میں اکیلا ہوا تو بھی یہ جلسہ ہو کے رہے گا‘‘۔ (دی گریٹ لیڈر۔اردو۔جلددوم۔ ص245و247)۔
سندھ کے دیرینہ مسلم لیگی سیاستدان قاضی فضل اللہ، جو اس وقت لاڑکانہ ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے صدر اور آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن تھے، بھی اس اجلاس میں سرگرم رہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کا چشم دید احوال یوں بیان کیا:''40ء میںسیشن ہوا لاہور میں، اس میں بھی میں نے شرکت کی۔ قائداعظمؒ اس میں شرکت کے لیے دہلی سے آ رہے تھے۔ چند روز پہلے خاکساروں پر تشدد ہو گیا۔ سکندر حیات (وزیراعظم پنجاب) چاہتے تھے کہ مسلم لیگ کا لاہور سیشن ملتوی ہو جائے۔ انہوں نے شاہنواز ممدوٹ کی معرفت کوشش بھی کی۔ چنانچہ ممدوٹ نے قائداعظمؒ سے بات بھی کی۔ قائداعظمؒ نے پوچھا:اعلان کر دیا ہے کہ فلاں تاریخ کو مسلم لیگ کا سیشن ہو گا۔ وہ بولے:اعلان کر دیا ہے، لیکن خاکساروں پر گولی چلنے کا واقعہ ہو گیا ہے۔ قائداعظمؒ بولے:اگر آپ نے اعلان کر دیا ہے تو پھر میں ضرور آؤں گا۔ سیشن ضرور ہو گا۔ چنانچہ جب قائداعظمؒ لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو سکندر حیات وہاں پھول لے کر آیا۔ قائداعظمؒ نے کہا:''میں آپ سے پھول قبول نہیں کروں گا۔ اس صورت میں کہ میرے بچے مارے گئے ہیں۔‘‘ پھر سکندر حیات نے بہت کوشش کی کہ قائداعظمؒ زخمی خاکساروں کو دیکھنے نہ جائیں۔ قائداعظمؒ وہاں گئے۔ سکندر حیات کا وزیرمیاں عبدالحئی (میو) ہسپتال کے دروازے پر کھڑا ہو گیا، اس کوشش میں کہ قائداعظمؒ اندر نہ جائیں۔ لوگ ہی اتنے آ گئے تھے کہ عبدالحئی وغیرہ بھاگ گئے۔ اجلاس کے لیے قائداعظمؒ پنڈال (منٹو پارک) میںگئے۔ وہاں سکندر حیات بھی آیا، لیکن وہاں اس کے خلاف کافی تلخی تھی۔ وہاں قائداعظمؒنے سکندر حیات کو کہا کہ وہ بیان کرے کہ اس نے خاکساروں پر کیوں گولی چلائی؟ سکندر حیات نے آگے کسی یونینسٹ کو کھڑا کر دیا۔ قائداعظمؒ اس ممبر پر کڑکے:You are not the Government. Government should explain. (آپ حکومت نہیں، وضاحت حکومت کو کرنی چاہیے)۔ چنانچہ آیا سٹیج پر سکندر حیات ۔ جذباتی تقریر کی۔ تقریر کے دوران بہت رویا کہ ہندوؤں اور سکھوں نے بھی والنٹیئرز بنا لی تھیں۔ میں نے والنٹیئرز ٹائپ آرگنائزیشنز بین کر دی تھیں۔ خاکساروں نے بین توڑا۔ انگریز ایس پی نے گولی چلا دی۔ میں نے کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ میرا خیا ل ہے قائداعظمؒکسی حد تک مطمئن ہو گئے۔ پھر بھی سکندر حیات کے خلاف اتنی تلخی تھی فضا میں کہ اسے پیچھے سے نکالنا پڑا۔ (ص:55،56)۔
سر سکندر حیات خاں وزیراعظم پنجاب، جس کی انتھک کوشش اور ہر چال کے باوجود قائداعظمؒنے اجلاسِ لاہور ملتوی نہ کیا۔ جس سے قائداعظمؒ نے پھول قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ قائداعظمؒ نے بھرے اجلاس میں ایک ملزم کے طور پر جسے اپنی صفائی پیش کرنے کا حکم دیا۔ ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک وہ اس قدر اہم شخصیت ہے کہ قرارداد کے اگلے روز ہی اس نے اعلان کر دیا کہ ''مسلم لیگ پنجاب سے ہاتھ اٹھالے‘‘۔ اس اعلان کے بعد کیا قراردادِ لاہور کی ہستی اور وقعت ختم ہو گئی؟ یہ اعلان کرنے والے سر سکندر حیات کی اپنی حیثیت اور وقعت کیا تھی؟وہ جناب ایف ای چودہری نے بھی بیان کر دی ہے۔ چودہری صاحب اس زمانے میں سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور، السٹریٹڈویکلی آف انڈیا، سٹیٹس مین دہلی اور ہندو مدراس کے لیے فوٹو گرافی کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ منٹو پارک میں لگے ٹینٹوں میں ہی''ان کی سبجیکٹس کمیٹی کادفتر تھا۔ پہلے تو ممدوٹ کے ہاں تھا۔ سکندر حیات بھی سبجیکٹس کمیٹی کے ممبر تھے۔ وہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے۔ ہجوم نے انہیں دیکھتے ہی مردہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ ان کی کار روک لی۔ اندر اور باہر لوگ تھامے نہ تھمتے تھے۔ بہادر یار جنگ اور سردار اورنگزیب نے خیمے سے باہر آ کر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ بے بس رہے۔ قائداعظمؒ باہر آئے اور ایک منبر پر چڑھ کر لوگوں کو مخاطب کیا جس سے لوگ خاموش ہو گئے اور واپس چلے گئے۔ 22 مارچ کو جب سبجیکٹس کمیٹی کا آخری اجلاس تھا، جس میں سکندر حیات کو بھی شرکت کرنا تھی، وہ اپنا حلیہ تبدیل کر کے آئے ۔ انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ پگڑی کی جگہ لال ٹوپی پہنی اور اچکن۔ کار کے شیشے بند کر کے آئے تاکہ لوگ پہچان نہ سکیں اور جلسہ ختم ہونے سے پہلے ہی دوسرے دروازے سے بھاگ گئے۔ جلسے کے خاتمے پر ایک لطیفہ بھی ہوا۔ سکندر حیات نے تو لال ٹوپی پہن کر اپنی صورت چھپا لی تھی۔ (سر) خضر حیات (ٹوانہ) اپنے لمبے طُرے کے باعث پھنس گئے۔ یونینسٹ پارٹی کے تھے نا۔ لوگوں نے انہیں سکندر حیات سمجھ کر گھونسے مارنا شروع کر دیے۔ لیڈروں نے آ کر بڑی مشکل سے اس کی جان بچائی۔ سکندر حیات اس کے بعد پھر جلسے میں نہیں آئے۔ میں نے اپنی ذاتی نوٹ بک میں لکھا ہے:سکندر میٹنگ ختم ہونے سے پہلے ہی دوڑ گیا تھا کہ کوئی میری ٹھک ٹھکائی نہ کر دے۔ میں نے اپنی اس ذاتی کاپی میں یہ بھی لکھا:''قائداعظمؒ م ع جناح خوبصورت اور خوب سیرت شخصیت کے مالک تھے۔ اگر میں یہ کہوں کہ برصغیر پاک و ہند میں اتنا خوش پوش انسان کوئی اورنہ تھا تو یہ مبالغہ نہ ہو گا۔ وہ لباس اور الفاظ کے معاملے میں بڑے محتاط تھے۔ وہ جس قدرموزوں کپڑے پہنتے تھے اسی قدر موزوں الفاظ میں بات کرتے تھے۔ (ص:193،194) ۔
ڈاکٹر مبارک علی سر سکندر حیات کے اس بیان کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اسے قراردادِ لاہور کی نفی میں استعمال کرتے ہیں کہ''مسلم لیگ پنجاب سے ہاتھ اٹھا لے‘‘۔ اگر سرسکندر حیات نے ایسا بیان دینے کی جرأت کی تھی تو بھی یہ ہوا سے اڑ گیا۔ ڈاکٹر صاحب سر سکندر حیات کو خواہ مخواہ قراردادِ لاہور سے منسلک کرتے ہیں جبکہ انہوں نے خود پنجاب اسمبلی میں اعلان کر دیا تھا کہ ان کا قراردادِ لاہور سے کوئی تعلق نہیں۔اور اللہ بخش سومرو کا بھی قراردادِ لاہور سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر صاحب انہیں بھی خواہ مخواہ اس طرف گھسیٹ لائے ہیں کہ''سندھ کے الٰہی بخش سومرو نے بھی اس سے لاتعلق ہونے کا اظہار کیا‘‘۔ڈاکٹر صاحب کو اس قرارداد کے ساتھ ان کا وہ تعلق بھی تو بتانا چاہیے جس سے وہ بعدازاں لاتعلق ہو گئے۔ وہ ان دنوں اقتدار کی ہوس ناکی میں چھلانگ مار کے کبھی کانگریس کی گود میں جا بیٹھتے تھے اور پھر وہاں سے چھلانگ مار کے کسی اور کے سایۂ عاطفت میں چلے جاتے تھے۔ قائداعظمؒ اور مسلم لیگ سے ان کا یہی تعلق تھا، کہ مجھے جی ایم سید نے بتایا، قائداعظمؒریل گاڑی پر کراچی جا رہے تھے کہ اللہ بخش سومرو نے اپنے کارندوں کے ذریعے حیدر آباد سٹیشن پر ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگوائے۔
اگر اللہ بخش سومرو کا قراردادِ لاہور سے کوئی تعلق تھا بھی تو کیا ان کے اس سے لاتعلق ہو جانے سے اس قراردادکی وقعت، حیثیت، مقام اور مرتبہ ختم ہو جاتا ہے۔
پنجاب کے سر سکندر حیات خاں اور سندھ کے اللہ بخش سومرو کے بعد ڈاکٹر مبارک علی اپنی ''مبارکی تحقیق‘‘ کا رخ بنگال کے مولوی اے کے فضل الحق کی طرف موڑتے ہیں:''بنگال کے فضل حق جنہوں نے قرارداد پیش کی تھی، وہ بھی مسلم لیگ کے بجائے کانگرس سے بات چیت کر رہے تھے‘‘۔اس پر گفتگو آئندہ کالم میں۔