دادو۔ 9 جون 1981ء- جی ایم سید مرحوم میرے ساتھ انٹرویو کے دوران میں اس پر شکوہ مند تھے کہ ''جو لوگ جناح صاحبؒ کے مخالف ہیں وہ بھی جب مرتے ہیں، اخبارات میں آتا ہے کہ یہ جناح صاحبؒ کا دستِ راست تھا‘‘۔
اگرچہ سید شریف الدین پیرزادہ قائد اعظمؒ کے مخالف تو نہ تھے لیکن 3 جون کے اخبارات نے ان کی وفات کی خبر میں انہیں بھی قائد اعظمؒ کا ایک طرح سے دستِ راست قرار دے دیا، کہ وہ قائد اعظمؒ کے اعزازی سیکرٹری رہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی جھوٹ ہے، آغاز جس کا، ہو سکتا ہے قبل ازیں ہو چکا ہو، لیکن میں نے 21 جولائی 1966ء کے اخبارات میں اس وقت پڑھا جب صدر جنرل محمد ایوب خاں نے انہیں اٹارنی جنرل سے اٹھا کر ذوالفقار علی بھٹو کی جگہ وزیر خارجہ نامزد کر دیا۔ اخبارات کو فراہم کیے گئے ان کے سوانحی خاکہ میں انہیں قائد اعظمؒ کا پرائیویٹ سیکرٹری لکھا گیا۔ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے فی الفور اپنے تردیدی بیان میں واضح کر دیا کہ شریف الدین پیرزادہ قائد اعظمؒ کے کبھی پرائیویٹ سیکرٹری نہیں رہے۔ اس کے بعد ایک عرصے تک کم از کم میری نظر سے ان کا ایسا دعویٰ نہیں گزرا۔
کراچی، 30 نومبر 1975ء- میں نے پیرزادہ صاحب سے ان کی رہائش گاہ 37 سی، کے ڈی اے سکیم نمبر1، پر ان سے انٹرویو کیا اور یہ بھی پوچھا: ''آپ قائد اعظمؒ کے سیکرٹری بھی رہے؟‘‘ ان کا جواب تھا: ''نہیں۔ میں ان کے سیکرٹریٹ میں ملازم تھا۔ اور وہ جن خبروں پر نشان لگا دیتے، میرے ذمے انہیں کاٹ کر کاغذ پر پیسٹ کرنا تھا‘‘۔ ان کے بیان کیے گئے اس جزوقتی کام کی تفصیل میں نے رسالہ آتش فشاں کے قائد اعظمؒ نمبر دسمبر 1976ء میں ان کے انٹرویو میں دے دی۔ اس کے باوجود لاعلم اور چاپلوس قبیل کے لوگ انہیں ایک بار پھر قائد اعظمؒ کی اعزازی سیکرٹری شپ کے منصب پر رونق افروز کرنے لگے۔ پیرزادہ صاحب نے انہیں ٹوکا‘ نہ حقیقت بیان کی۔ انگریزی ڈیلی ڈان میں ''ففٹی یئرز ایگو‘‘ کے عنوان سے پچاس برس قبل شائع ہونے والی کوئی اہم خبر دی جاتی ہے۔ 21 جولائی 2016ء کے ڈان میں پیرزادہ صاحب کے وزیر خارجہ نامزد ہونے کی خبر میں لکھا تھا کہ وہ 1941ء سے 1945ء تک قائد اعظمؒ کے آنریری سیکرٹری رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگلے روز کے کالم میں مادرِ ملّتؒ کی وضاحت دی جاتی۔ ایسا نہ کیا گیا۔ میں نے فی الفور وضاحتی خط لکھا۔ ڈان نے وہ بھی شائع نہ کیا، کہ اب تصحیح، درستی اور وضاحت چھاپنے کا رواج ختم ہو رہا ہے۔
کراچی میں ایک دیرینہ مسلم لیگی آزاد بن حیدر نے 2013ء میں ''تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائد اعظمؒ تک‘‘ شائع کی۔ انہوں نے اس پر میرے تاثرات طلب کیے۔ میں نے انہیں لکھا: ''میں پوری کتاب پڑھے بغیر اظہار رائے نہیں کر سکتا۔ تاہم آپ نے آغاز اس کتاب کا ایک بہت بڑے اور تاریخی جھوٹ سے کیا ہے۔ اس کا اولین مضمون جناب سید شریف الدین پیرزادہ کا لکھا ہوا مقدمہ ہے جس کے آخر میں انہوں نے اپنے آپ کو قائد اعظمؒ کا اعزازی سیکرٹری لکھا ہے..... اعزازی سے فی الفور ذہن میں آتا ہے، بغیر تنخواہ کام کرنے والا۔ مثلاً: خان لیاقت علی خاںؒ آل انڈیا مسلم لیگ کے اعزازی سیکرٹری تھے اور کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ الٹا پلے سے خرچ کرتے تھے۔ آزاد بن حیدر صاحب! کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ قائد اعظمؒ نے کبھی کسی سے بلامعاوضہ خدمات لی ہوں، یا بغیر قیمت ادا کیے کوئی چیز وصول کی ہو‘‘۔
بہرحال، پیرزادہ صاحب بہ قائمی ہوش و حواس خمسہ اس جھوٹے کریڈٹ کا نشہ لیتے رہے۔ باوجودیکہ حقائق اور ریکارڈ بھی ان کے اس بڑے بول کی شدید نفی کرتا ہے۔ مثلاً، پیرزادہ صاحب 1941ء سے 1944ء تک قائد اعظمؒ کے اعزازی سیکرٹری ہونے کے دعویدار رہے‘ جبکہ صورت حال یہ تھی کہ 17 اپریل 1940ء سے 1943ء تک مطلوب الحسن سید قائد اعظمؒ کے سیکرٹری تھے۔ 1943ء میں جب لاہور کے ایک پبلشر شیخ محمد اشرف نے ان سے قائد اعظمؒ کی سوانح عمری لکھوانا چاہی تو قائد اعظمؒ نے انہیں کہا، پھر آپ میری ملازمت چھوڑ دیں، اس طرح ایک تو آپ کو وقت میسر ہو گا اور دوسرے آپ غیر جانبداری سے لکھ سکیں گے۔ 1943ء میں ہی بہ طور سیکرٹری احمد سیّد یعقوب کا ذکر ملتا ہے۔ 26 جولائی 1943ء - خاکسار رفیق صابر مزنگوی نے جناح ہاؤس مالابار ہل بمبئی میں قائد اعظمؒ پر قاتلانہ حملہ احمد سیّد یعقوب کے آفس ہی میں کیا تھا۔ مقدمہ کی کارروائی میں احمد سیّد یعقوب بھی ایک گواہ کے طور پر پیش ہوتے رہے۔ اس کے بعد ذکر ملتا ہے گوا کے عیسائی جیکوئم ایگزیوئرلوبو (Jaquiem Xavier Lobo) کا۔ 8 مئی 1944ء سے 26 جولائی 1944ء تک قائد اعظمؒ کشمیر میں تھے۔ تب ان کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر لوبو تھے۔ کے ایچ خورشید انہیں قائم مقام پرائیویٹ سیکرٹری کہتے ہیں۔ اسی دوران میں یکم جولائی 1944ء کو قائد اعظمؒ نے کے ایچ خورشید کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا، جو قیامِ پاکستان تک رہے۔ ڈھونڈ کر بتائیں کہ 41ء سے 45ء یا 44ء تک ایک یوم کے لیے بھی سید شریف الدین پیرزادہ قائد اعظمؒ کے اعزازی سیکرٹری نظر آتے ہیں؟
پیرزادہ صاحب کے اس بڑے بول کی مادرِ ملّتؒ نے جو شہ زور تردید کی تھی جناب مجید نظامی نے روزنامہ نوائے وقت میں اسے پورے صحافتی جوش و خروش کے ساتھ شائع کیا تھا۔ پھر بھی نظامی صاحب کی زیر نگرانی اور ماتحتی میں کام کرنے والے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی بعض تحریروں میں پیرزادہ صاحب کا یہ جھوٹ پورے التزام کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ اس وقت میرے سامنے پیرزادہ صاحب کے لکھے ہوئے یہ تین کتابچے ہیں: (1) فاؤنڈیشنزآف مسلم لیگ، بیک گراؤنڈ اینڈ سٹرگل۔ صفحات 96۔ (2) مسلم لیگ کا قیام، پس منظر اور جدوجہد۔96 صفحات۔ ان دونوں کا پہلا ایڈیشن اگست 2006ء میں شائع ہوا۔ (3) قائد اعظم محمد علی جناح ایز اے لائیر۔ صفحات40۔ سنِ اشاعت 2007ء۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے تحت شائع ہونے والے ان تینوں کتابچوں کے بیک کور پر پیرزادہ صاحب کا جو سوانحی خاکہ دیا گیا ہے اس میں ڈنکے کی چوٹ ان کا یہ جھوٹ سچ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ''وہ 1941ء سے 1944ء تک قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اعزازی سیکرٹری رہے‘‘۔
پیرزادہ صاحب کے کتابچوں ''فاؤنڈیشنز آف مسلم لیگ‘‘ اور ''مسلم لیگ کا قیام‘‘ میں وہ تصویر بھی دی گئی‘ جو بعض اخبارات نے ان کی وفات کی خبر کے ساتھ شائع کی ہے۔ پتا نہیں انہوں نے اس کی کتنی کاپیاں تیار کروا رکھی تھیں، کہ ہر کہہ و مہ کو فخر سے پیش کیا کرتے۔ قائد اعظمؒ کی رہائش گاہ جناح ہاؤس بمبے میں 9 تا 27 ستمبر 1944ء کو قائد اعظمؒ اور گاندھی کے درمیان جو مذاکرات ہوئے یہ تصویر اس تاریخی موقع کی یادگار ہے۔ جو تصویر پیرزادہ صاحب ملنے والوں کو پیش کیا کرتے تھے اس میں ان دونوں لیڈروں کے درمیان وہ خود بھی کھڑے ہیں۔ چونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ 1941ء سے 1944ء تک قائد اعظمؒ کے سیکرٹری رہے اور قائد اعظمؒ گاندھی مذاکرات اسی دوران میں ہوئے، تو اس کے لیے ایسا تصویری دستاویزی ثبوت مہیا کرنا ضروری ہو گیا۔ قائد اعظمؒ گاندھی مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے مجھ سے ایسی تفصیل بھی بیان کی جس سے مدعا ان کا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت قائد اعظمؒکے وہ سیکرٹری تھے۔ حالانکہ اس وقت کے ایچ خورشید قائد اعظمؒ کے سیکرٹری تھے۔ تفصیل پیچھے آ چکی ہے۔ خیر، مجھے حسن اے شیخ مرحوم نے بتایا کہ سلیم گذدر کی رہائش گاہ قصرِ نار گاندھی گارڈن کراچی کے سامنے، آپ جائیں۔ قائد اعظمؒ اور گاندھی کی بالکل یہی تصویر وہاں آویزاں ہے۔ اس میں شریف الدین پیرزادہ موجود نہیں۔ تو پھر پیرزادہ صاحب اس تصویر میں کیسے وارد ہو گئے؟ میں جستجو میں پڑ گیا۔ بالآخر میری ڈھونڈ ڈھانڈ سے کھوج نکل آیا کہ کس نے، کب اور کہاں اصل تصویر کی ایسی ٹیمپرنگ کی کہ برصغیر کے دونوں لیڈروں کے درمیان برہان پور کے سید شریف الدین پیرزادہ کو لاکھڑا کیا۔ اس کی مزید تفصیل میں اس لیے نہیں دے رہا کہ اِس وقت وہ نوٹس میرے سامنے نہیں۔
پیرزادہ صاحب کے جیتے جی اور اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کے بعد مارشل لاؤں کے حوالے سے اخبارات نے انہیں آئینی جادوگر لکھا ہے۔ وہ صرف آئینی نہیں کئی اور امور کے بھی جادو نظر تھے، بلکہ جادوگر ''سیّاں‘‘۔ وہ تاریخ میں ادل بدل اور تحریف کے رسیا رہے۔ یہ دلچسپ مگر افسوسناک تفصیل پھر کبھی۔ کہ ان کی جادوگری کے وہ واقعات جو میرے علم اور تجربے میں ہیں ایک الگ کالم بلکہ کالموں کے متقاضی ہیں۔ تاریخ کی ٹیمپرنگ کوئی ان سے سیکھے!