جب بھی قومی سطح پر یا انفرادی زندگی میں کوئی فیصلہ کرنا درپیش ہو تو یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ آپ کے پاس چوائسز (choices) کیا ہیں۔ کون سے راستے ہیں جو اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آیا کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہے یا اسے مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے۔ درست فیصلہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کو واضح طور پر یہ بھی معلوم ہو یا کم از کم ایک مبنی بر علم اندازہ ہو (Informed Assessment) کہ آپ کے آج کے فیصلے سے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ‘ اور وہ کون سے اچھے یا برے نئے امکانات کو جنم دے سکتے ہیں۔ اسی سوچ کی بنیاد پر آج یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہمیں کسی نوعیت کی جنگ کا واقعی سامنا ہے یا یہ ایک واویلا ہے جو کچھ حلقے اپنی اہمیت برقرار رکھنے یا اسے بڑھانے کے لئے مچا رہے ہیں ؟ ہم کسی ہائبرڈ جنگ کا شکار ہیں یا نہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے آئیے یہ دیکھیں کہ یہ ہائبرڈ جنگ (Hybrid War) ہے کیا ؟ کیا یہ کوئی نیا طریقہ جنگ ہے ؟ اس آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ کوئی نیا طریقہ جنگ نہیں ہے۔ یہ پُرانا بلکہ صدیوں پُرانا طریقہ جنگ ہے۔ چینی جنگی ماہر اور فلاسفر سن زو (Sun Tzu) نے صدیوں پہلے کہا تھا کہ ''بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ جنگ کے بغیر دشمن کو زیر کر لیا جائے‘‘۔ جنگ چاہے جس بھی نوعیت کی ہو اس کا اصل مقصد دشمن کے ارادے کو شکست(Break the Will) دینا ہوتا ہے۔ یہ کام ذہنوں اور دلوں کو زیر کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا ۔ اب اپنے مد مقابل کو رعب اور دبدبے میں لانے کے لئے اور مخالف کے ارادوں کو توڑنے کے لئے جتنے بھی اقدامات کیے جائیں وہ اس خاص جنگ کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ یہ کام باقاعدہ ایک مربوط حکمت عملی، منصوبہ بندی اور تکنیک (Kinetic and non Kinetic) سے کیا جاتا ہے۔ سیاست ، ڈپلومیسی، معاشی دباؤ ، فوجی دباؤ ، سرجیکل سٹرائیکس اور سب سے بڑھ کر نفسیاتی بالا دستی وغیرہ اس جنگ کے ہتھیار ہیں۔ میڈیا کا استعمال اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ڈس انفارمیشن ، مس انفارمیشن ، فوٹو کاپی ، فالس فلیگ آپریشن اور نفسیاتی آپریشنز کی مدد سے منافرت ، کڑواہٹ ، طبقاتی کشمکش ، علیحدگی کی تحریکیں پیدا کر کے معاشرتی اور سیاسی نظام کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ تو میرے عزیزو! یہ ہیں ہائبرڈ جنگ کے خد و خال ۔ یہ تکنیک تو بہت پرانی ہے البتہ آج بنی نوع انسان کے پاس جدید ہتھیار اور میڈیا کے زمرے میں ایسے ذرائع میسر آ گئے کہ تقریباً غیر محسوس انداز میں، جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے نام پر مہلک زخم لگائے جا سکتے ہیں۔ اب اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، دل کی آنکھ کھولیں، ذہن پر زور دیں اور کچھ تو اندازہ لگائیں کہ آپ کے آس پاس کیا ہو رہا ہے؟
آئیے اب اس بات پہ غور کریں کہ جب کسی قوم کا ''ارادہ‘‘ ہدف ہو تو وہ کہاں پایا جاتا ہے؟
''قومی مدافعت‘‘ کا محل وقوع کہاں ہو سکتا ہے؟ فوجی سطح پر تو واضح طور پہ یہ فوجی لیڈر شپ کے دل و دماغ میں موجود ہوتا اور وہ اس کی مدافعت کے لئے تربیت یافتہ سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن سول سوسائٹی اور سیاسی نظام میں کیا یہ اہم ہدف کسی ایک شخص یا چند اشخاص کے ذہنوں کو خوفزدہ کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے ؟ یہ بہت سنجیدہ سوال ہے اور اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لئے اس کا جواب تلاش کرنا نہایت ضروری ہے ۔
میری ناقص رائے میں سیاسی نظام جتنا زیادہ جمہوری اور اشتراکی (Participative) ہو وہ اتنا ہی زیادہ محفوظ ہو گا ۔ آمریت اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ ایک یا محض چند اشخاص کے حوصلے پست کرنا نسبتاً آسان کام ہو سکتا ہے ۔ قبائلی معاشرہ سب سے زیادہ سخت جان ہوتا ہے کیونکہ ان کے ہاں تمام اہم ارکان کی رائے جرگہ کی صورت میں مربوط ہوتی ہے ۔ لہٰذا اندرونی کشمکش میں مبتلا ایک ٹوٹا پھوٹا معاشرہ ہائبرڈ جنگ کا بہترین ہدف بن سکتا ہے ۔ اگر یہ حالات موجود نہ ہوں تو پہلے اسے وہاں تک یعنی ان حالات تک لے جانا ضروری ہے۔ کامیاب ہائبرڈ جنگ جیتنے کی یہ ایک پیشگی شرط ہے۔ اب اپنے پیارے ملک کے معروضی حالات پر نظر ڈالیے اور اندازہ لگائیں کہ ہمارے چند لوگ جمہوریت، آزادیٔ اظہار اور لبرل ازم کے نام پر کیا خدمت سر انجام دے رہے ہیں؟
ایک اور بات بھی قابل غور ہے۔ عراق، لیبیا، سوڈان، مصر، نائجیریا وغیرہ کافی خوشحال اور مستحکم ممالک تھے، پھر ان کے ساتھ کیا ہوا اور کیسے ہوا اور کیوں کیا گیا؟ اب کچھ اور ملکوں کے بارے میں مزید غور کیجئے ، ایران، یمن، شام، افغانستان، پاکستان، ترکی وغیرہ کے ساتھ کیا کھیل کھیلے جا رہے ہیں؟ کیا یہ فقط حسن اتفاق ہے کہ تقریباً تمام مسلمان ممالک ہی معاشی اور سیاسی مسائل کے علاوہ اندرونی توڑ پھوڑ کا شکار ہیں؟ اور بھائی لوگوں کو یہ بھی باور کروا دیا گیا ہے کہ ان تمام مصیبتوں کی جڑ ان ملکوں کا مذہبی رجحان ہے۔ لہٰذا لبرل اور نام نہاد روشن خیال تحریکیں مذہبی سوچ کو محض عبادات تک محدود کرنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں۔
دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے فلاسفروں نے یہ بہت پہلے بھانپ لیا تھا کہ اسلام کے پیغام میں منطقی اپیل (appeal) ہے، اور شاید مغربی ممالک میں اچھی سائنسی اور اخلاقی تعلیم پانے کے بعد نوجوان اسلام کی جانب راغب نہ ہو جائیں ، لہٰذا اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا ۔ اور پھر دہشت گردی کے کچھ واقعات پیش آئے ، ملبہ مسلمانوں پر ڈالا گیا ، جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اسلام کے پیار و محبت اور امن کے آفاقی پیغام کو تشدد اور عدم رواداری کا رنگ دے کر اسے بدنام کیا گیا۔ اور اب سب سے دلچسپ اور اہم بات کہ ایسی نام نہاد اسلامی تنظیمیں پیدا کی گئیں جنہوں نے تمام الزامات کو درست ثابت کرنا ہے۔ اب آپ سمجھ جائیے کہ القاعدہ ، داعش ، طالبان وغیرہ کیا تحریکیں ہیں اور کن مقاصد کے لئے پیدا کی گئیں۔ باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔
عرب سپرنگ (Arab Spring) نے بہت سے مسلمان ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا اور بہت سے اور ملکوں کو توڑے بغیر سر نگوں کروا لیا گیا۔ جب بھی ایسے ممالک نے کوئی آزادانہ پالیسی اپنانے کی کوشش کی تو انہیں یک دم توڑ دیا جائے گا۔ فہرست ہمارے سامنے ہے جن کے بارے میں کہا گیا کہ ''ہماری مدد کے بغیر وہ ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکتے‘‘۔ لیکن میں اس بات پر قطعاً مصر نہیں کہ یہ تجزیہ درست ہے، بلکہ میں تو چاہوں گا کہ اس استدلال کا توڑ پیش کیا جائے تاکہ واضح تصویر سامنے آئے ، تبھی تو مسائل کا حل نکالا جا سکے گا ۔ اگر ہمارے خلاف کوئی ہائبرڈ جنگ لڑی جا رہی ہے تو اس کا توڑ کیا جا سکے گا۔
یہ تمام بحث ہائبرڈ جنگ کی وجوہات ، نوعیت اور طریقہ ہائے کار کو واضح کرنے کی خاطر کی گئی۔
انشاء اللہ اگلی قسط میں اس کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پر بحث ہو گی۔ واضح رہے کہ ہائبرڈ جنگی حکمت عملی دشمنوں کے ارادے توڑنے کا ایک پرانا فارمولا ہے ‘ جس کو جدید ذرائع ، خاص طور پر سوشل میڈیا نے بہت مؤثر بنا دیا ہے ، اور اس کا استعمال محض مسلمان ملکوں تک محدود نہیں۔
روس نے یوکرائن میں اس کا بہترین استعمال کیا۔ (جاری)
عرب سپرنگ (Arab Spring) نے بہت سے مسلمان ملکوں کو تباہ و برباد کر دیا اور بہت سے اور ملکوں کو توڑے بغیر سر نگوں کروا لیا گیا۔ جب بھی ایسے ممالک نے کوئی آزادانہ پالیسی اپنانے کی کوشش کی تو انہیں یک دم توڑ دیا جائے گا۔ فہرست ہمارے سامنے ہے جن کے بارے میں کہا گیا کہ ''ہماری مدد کے بغیر وہ ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکتے‘‘۔