"NLC" (space) message & send to 7575

ہائبرڈ جنگ کیسے لڑی جائے؟

گزشتہ تحریر میں کوشش کی کہ معزز قارئین یہ جان جائیں کہ اس خاص نوعیت کی جنگ کی تعریف کیا ہے‘ اور اس کو برپا کرنے کے ذرائع کیا ہیں۔ ارد گرد کے حالات پر نظر ڈالنے کے بعد یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ آیا یہ طریقۂ جنگ واقعی استعمال ہو رہا ہے یا محض کچھ لوگوں یا اداروں کا وہم ہے۔ یہ بات بھی زیر بحث لائی گئی کہ یہ اندازِ جنگ نیا نیا دریافت ہوا ہے یا ایک پرانی روایت کو نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے زیادہ مربوط انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب دو اہم امور پر بحث لازمی ہے۔ ایک تو اس بات کا حتمی تعین کرنا کہ پاکستان میں اس قسم کی جنگ کے آثار موجود ہیں یا نہیں۔ اور دوسرے یہ کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ جو لوگ اس جنگ کی نوعیت اور اس کو برپا کرنے والے وسائل سے واقف ہیں‘ انہیں بڑی حد تک اس بات کا یقین ہے کہ ہمارا ملک پاکستان واقعی اس عفریت کا شکار ہے‘ لیکن عوام الناس کو تسلی اور حکومت کیلئے قانونی جواز مہیا کرنا ضروری ہے۔ اس کام کیلئے کسی ادارے کا تحقیق کرنا اور اپنی معلومات اور نتائج کو سرکاری طور پر وزیر اعظم، کابینہ اور اگر ضرورت ہو تو پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہئے۔ اب یہ کام کون کرے؟ میری رائے میں اس کی ذمہ داری نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو سونپی جائے‘ اور یہ اپنی رپورٹ چند ہفتوں میں پیش کرے۔ لیکن شاید اس کام کیلئے فوری طور پر نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (این ایس اے) کی تعیناتی ضروری ہو گی یا پھر یہ کام متعلقہ سیکرٹری کے ذمہ لگایا جا سکتا ہے۔ جو بھی یہ کام سرانجام دے، مندرجہ ذیل پہلوؤں پر غور کرے:
1۔ کیا سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس نہج کی تلخیاں‘ جیسا کہ دیکھنے میں آ رہی ہیں‘ ایک قدرتی امر ہے؟
2۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں تمام بڑے ملکی اداروں (عدلیہ، فوج، الیکشن کمیشن، نیب وغیرہ) کی مخالفت پر کیوں کمربستہ ہیں۔ 
3۔ سوشل میڈیا پر جھوٹ، فوٹو شاپ، عمداً کردار کشی، اداروں کے خلاف زہر افشانی کا منبع کہاں ہے؟
4۔ موجودہ معاشی دلدل مکمل طور پر ہماری اپنی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی یا پھر کچھ اور بھی اندرونی اور بیرونی محرکات اس کا سبب بنے؟
5۔ اکنامک ہٹ مین (معیشت کو اکھاڑنے، پچھاڑنے کی کارروائی) محض ایک تخیل ہے یا ہائبرڈ جنگ کی ایک حقیقی حکمت عملی ہے، اور اس کا استعمال پاکستان میں ہو رہا ہے یا نہیں؟
6۔ کچھ میڈیا چینلز، چند صحافی، اور کچھ بلاگرز، جو صبح شام اپنے معاشرے اور اداروں کی برائیاں گنواتے نہیں تھکتے‘ ان کے ڈانڈے کہاں جا کے ملتے ہیں؟
7۔ بین الصوبائی ناہمواری اور تلخی کیسے پیدا ہوئی؟ وغیرہ، وغیرہ
مندرجہ بالا پہلوؤں پر ایک معمولی تحقیق بھی یہ بات حتمی طور پر ثابت کر سکے گی کہ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے مختلف شعبوں میں جو نازک صورتحال ہم نے خود پیدا کی اس کا دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا‘ اور اس کی گمبھیرتا میں یوں اضافہ کیا کہ غیر محسوس طور پر ہم پستی میں اترتے چلے گئے اور اب تک یہ سفر اسی سمت میں جاری ہے۔ اور یہ صورتحال اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک ہم ہنگامی طور پر اس خاص قسم کی جنگ کو مربوط طریقے سے لڑنے کیلئے تیار نہ ہو جائیں‘ جس کے آثار فی الحال نظروں سے اوجھل ہیں۔
اس جنگ کی نوعیت ایسی ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ادارہ اس کا مکمل جواب دینے کیلئے نہ تو منظم ہے اور نہ ہی اہل۔ اور حقیقت میں یہ جنگ کسی ایک ادارے کے دائرہ کار میں آ بھی نہیں سکتی۔ اس میں وزارت دفاع، خارجہ، داخلہ، مواصلات، خزانہ وغیرہ کا یکجا ہو کر یکسوئی کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔ اور یہ کام بالواسطہ وزیر اعظم کی ذاتی نگرانی ہی میں ممکن ہے۔ اس کام کو سرانجام دینے کیلئے وزیر اعظم کو ایک الگ اور مخصوص سیکرٹریٹ کی ضرورت ہو گی، جہاں تمام پلاننگ، سٹریٹیجی اور اصل آپریشنز کو چلایا جائے۔ اس ہیڈکوارٹر کو بہت سارے امور پر فیصلہ سازی کیلئے وزیراعظم کی معاونت کرنا ہو گی۔ وہ کس نوعیت کے فیصلے ہو سکتے ہیں اس پر بعد میں بحث کرتے ہیں‘ پہلے یہ تعین کر لیں کہ اس وقت یہ اہم ذمہ داری کسے سونپی جائے۔ بادی النظر میں اس وقت افواج، آئی ایس آئی، آئی ایس پی آر اور کچھ میڈیا ہاؤسز ہائبرڈ جنگ لڑنے میں کوشاں ہیں‘ جبکہ وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ بھی اس جنگ کے کلیدی ادارے ہونے چاہئیں۔ ان سب کو مربوط انداز میں کوئی سمت یا کوارڈینیشن نہیں مل رہی‘ اور اس بکھرے انداز میں یہ جنگ نہ لڑی جا سکتی ہے نہ ہی جیتی جا سکتی ہے‘ لہٰذا یقینا ہمیں ایک نئے میکنزم کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔
اس کا مستقل حل تو این ایس اے کے ادارے کو فعال اور مزید مضبوط کرنے میں ہے‘ جہاں ہر قسم کی سپیشیلٹی رکھی جائے اور ہائبرڈ جنگ کے متعلق وزیراعظم کے تمام احکامات کی ترسیل اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ یعنی فیڈ بیک اس ہیڈکوارٹر کے ذمہ ہو۔ اس کی تشکیل نو اس طرح کی جائے کہ یہ ادارہ مکمل کوارڈینیشن کا اہل ہو‘ اور تمام وزارتوں کو وزیراعظم کے احکامات پہنچانے کی قانونی حیثیت رکھتا ہو۔ اب چونکہ اس نوعیت کا ادارہ قائم کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اس لئے رائے یہ ہے کہ فوری طور پر اس خلا کو پُر کرنے کیلئے صدارتی حکم کے ذریعے وقتی طور پر یہ کام چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی (CJCSC) کو سونپ دیا جائے۔ وہاں جوائنٹ انٹیلی جنس اور جوائنٹ آپریشنز کے شعبے پہلے ہی موجود ہیں۔ تمام اہم وزارتوں سے جوائنٹ یا ڈپٹی سیکرٹریز کی تعیناتی بھی کی جائے اور چیئرمین کو سیدھا وزیراعظم کو جوابدہ بنایا جائے۔ اور جونہی این ایس اے ایک مضبوط اور مربوط ادارے کے طور پر ابھرے یہ تمام ذمہ داریاں وہاں منتقل ہو جائیں۔ عین ممکن ہے کچھ وزارتوں اور چند اداروں کی طرف سے اس بندوبست پر اعتراضات اٹھائے جائیں‘ لیکن انتہائی درجے کے اہم اور فوری قومی فائدے کی خاطر یہ کام کرنا ضروری ہے۔ اور جو زیادہ تحفظات کا اظہار کرے اس سے متبادل آئیڈیا مانگا جائے۔ ہمیں اس کام میں مزید تساہل نہیں برتنا چاہئے۔ اب جس ادارے کو بھی یہ کام سونپا جائے سب سے پہلے تو وہ پوری صورتحال کا اس طرح جائزہ لے جیسا کہ اس مضمون کے اوائل میں ذکر ہے اور پھر مندرجہ ذیل پہلوؤں پر وزیراعظم اور کیبنٹ کو بند کمرے میں بریفنگ دے:
1۔ ہائبرڈ جنگ کی موجودہ صورتحال، حقائق اور شواہد کے ساتھ پیش کی جائے۔
2۔ دشمن ممالک، این جی اوز‘ اور ایسے افراد کی نشاندہی جو عملاً ملک دشمن حرکات میں ملوث ہیں۔
3۔ ملک کو کمزور کرنے اور اس کے اداروں کی ساکھ کم کرنے کیلئے کیا حربے استعمال ہو رہے ہیں؟
4۔ اپنی پیدا کردہ کون سی سیاسی، معاشی، معاشرتی کمزوریاں ہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں؟
اپنی سفارشات میں جو چند اہم چیزیں پیش کی جائیں وہ یہ ہو سکتی ہیں:
1۔ فیصلہ کیا جائے کہ کیا ہم یہ جنگ فقط دفاعی انداز میں لڑتے رہیں گے یا ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ وہی رویہ اپنائیں جو انہوں نے ہم پر مسلط کر رکھا ہے؟ یاد رہے کہ دفاع ہم کتنے سکولوں، کتنی مساجد، کتنی مارکیٹوں، کتنے ریلوے سٹیشنوں، کتنے بسوں کے اڈوں اور ہوٹلوں کا کر پائیں گے؟
2۔ جو غیر فعال اور بنانا سٹیٹ کا تصور پاکستان کے باہر اور اندر موجود ہے‘ اسے فوری طور پہ کیسے دور کیا جائے؟ اس کیلئے عملی اقدامات چاہئیں نہ کہ فقط گفت و شنید۔جہاں بچوں کو سکولوں میں (باقی صفحہ 11 پر)
منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہو، غیرت کے نام پر صبح شام قتل ہو رہے ہوں، ٹریفک حادثات میں روزانہ سینکڑوں جانیں ضائع ہو رہی ہوں، پانی کی کمی کے باعث بلوے ہوں، کوڑے کرکٹ کے انبار لگے ہوں، عوام کو انصاف کے حصول کیلئے برسوں عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑیں‘ وہاں دشمنوں کا کام نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ غربت اور ناخواندگی کے اس بارودی ڈھیر کو تو فقط ایک چنگاری دکھانے کی ضرورت ہے۔
3۔ اپنے نوجوانوں میں خود اعتمادی اور جھوٹ کو رد کرنے کی اہلیت کیسے پیدا کی جائے؟ معاشرے میں خلفشار اور انتشار برپا کرنے والے عناصر کو جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے پردے میں کتنی گنجائش دی جا سکتی ہے؟
اگر مندرجہ بالا حقائق اور سفارشات کی روشنی میں جلد فیصلے نہ کئے گئے تو آنے والے مہینے کچھ اچھی خبریں نہیں مل پائیں گے۔ وجوہ میں مودی کا بھارت کی باگ ڈور دوبارہ سنبھالنا، کشمیر کی تحریک آزادی کی موجودگی، سی پیک سے کچھ ممالک کی نفرت، افغان طالبان اور امریکی بات چیت میں جمود اور ایران پر امریکی دباؤ وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام رونما ہونے والے واقعات کا ایک مفصل خاکہ تیار کیا جائے اور اپنے پیارے ملک پاکستان پر پڑنے والے اثرات کی روشنی میں ہنگامی بنیادوں پر ایک مربوط حکمت عملی تیار کی جائے۔ اور جتنا جلد ممکن ہو وزیر اعظم کے زیر نگرانی، کسی ایک ادارے کے تحت ہما گیر ہائبرڈ جنگ لڑی جائے۔
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں