آج کا عنوان محترم انور مسعود کے پنجابی کلام سے لیا ہے جنہیں میں شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فلاسفر بھی سمجھتا ہوں۔ کہتے ہیں:
دودھ وچ سرکہ پا بیٹھے آں/سوچی پیئے آں ہُن کی کرئیے
کچھ یہی حال مملکت خدا داد کا بھی ہے۔ ہر شعبے میں اور بیشتر اداروں میں ایسی خرابیاں جڑ پکڑ چکی ہیں کہ اس سرکہ زدہ پھٹے ہوئے دودھ کو واپس خالص دودھ بنانا شاید مشکل ہی نہیں‘ تقریبا ناممکن ہے۔ اس فرسودہ اور غیر فعال نظام سے امیدیں وابستہ کئے رکھنا مثبت سوچ ہے یا ہمیں اس جامد اور بے فائدہ سسٹم کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے؟ کسی فلاسفر نے کہا تھا: ایک ہی عمل بار بار دہرایا جائے اور امید یہ رکھی جائے کہ نتیجہ مختلف ہو گا تو یہ کم فہمی ہے۔ جمہوری نظام کی خرابیاں گنوانا اس تحریر کا منشا نہیں۔ جمہوریت کئی خطوں میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔
ہم یہ بات کریں گے کہ ہمارے آئین و جمہوریت کا منشا کیا تھا اور ہمارا سفر کس سمت میں چل پڑا‘ اور کیا کوئی امید کی کرن باقی ہے؟ کسی بھی ملک یا معاشرے کی تنظیم کیلئے جب کوئی نظام مرتب کیا جاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا اور اعلیٰ مقصد اجتماعی و انفرادی خوشحالی، جان مال اور عزت کی حفاظت ہوتا ہے۔ یہی سپریم نیشنل انٹرسٹ کہلاتا ہے۔ اسی سوچ کے مطابق سیاسی، معاشی اور سکیورٹی کی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ یہیں سے سوچ کے مختلف سیاسی فلسفے پھوٹتے ہیں۔ لیکن اگر سوچ کا یہ تنوع مثبت بحث کے بجائے تلخیاں اس قدر بڑھا دے کہ دھڑے بندیاں ہمیں ایک دوسرے کا تقریباً جانی دشمن بنا دیں‘ تو خوشحالی اور محفوظ رہنے کا بنیادی ہدف تلخیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہو جاتا ہے اور معاشرہ غیر ضروری اور بیکار مباحثوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اسی نوعیت کا مسئلہ ہمیں درپیش ہے۔ ملک اداروں سے اور ادارے افراد سے بنتے ہیں‘ جیسے گھر مختلف کمروں اور وہ آگے اینٹوں سے بنتے ہیں۔ اب ان تینوں (افراد، ادارے، ملک) جہتوں میں پلاننگ اور تربیت کی کوئی کجی ہو تو نظام بے ڈھنگا اور کمزور ہو گا اور مندرجہ بالا اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔ آئیے جائزہ لیں کہ ہمارے معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی ڈھانچے کن خطوط پر استوار ہیں اور کیا وجوہ ہیں کہ ہمارا قومی سفر روشنی اور خوشیوں کے بجائے الٹی سمت میں گامزن ہے۔ تعلیم، انصاف، صحت، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے وغیرہ کسی بھی اچھے سیاسی نظام کے کلیدی خدوخال ہیں۔ بات تب کھلے گی جب ہم ان تمام کا فرداً فرداً جائزہ لیں۔
سیاسی ڈھانچہ: پاکستان کا آئین ایک متفقہ دستاویز ہے اور بہت سی کاوشوں کا نتیجہ۔ اس لئے اس کو سرسری گفتگو اور سطحی سوچ بچار کے بعد اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرا دینا ناعاقبت اندیشی ہو گی؛ البتہ آئین کوئی جامد اور پتھر پہ لکھی تحریر نہیں اور بوقت ضرورت اسے بدلتی قومی امنگوں اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے آئین ہی میں لکھے گئے طریقوں سے تبدیل یا مزید مؤثر کیا جا سکتا ہے۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ مندرجہ ذیل امور کو زیر بحث لائیں اور جہاں جہاں سقم پائے جائیں ان کا آئینی ترامیم کے ذریعے ازالہ کیا جائے:
1۔ ملک کو چھوٹے انتظامی خطوں میں بانٹا جائے: کسی بھی ادارے یا ملک میں فقط قوانین بنا دینا کافی نہیں۔ ایسے انتظامات کرنا نہایت ضروری ہیں جن کے بل پر قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جا سکے ۔ اس کے علاوہ پرائمری تعلیم، صفائی، پینے کے صاف پانی، بنیادی صحت کے مراکز جیسی سہولتیں محدود آبادی اور محدود علاقے ہی میں کامیابی سے فراہم کی جا سکتی ہیں۔ قوت نافذہ کیلئے مستعد اور مؤثر پولیس فورس، فوری انصاف فراہم کرنے کا عدالتی بندوبست، اور سہولیات فراہم کرنے کیلئے خدمت پر آمادہ لوکل گورنمنٹ کے کارندے (جو ٹیکس جمع کرنے اور مناسب کاموں پر خرچ کرنے کے بھی پابند ہوں) کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان محکموں میں بھرتیاں، ان کی ٹریننگ، مانیٹرنگ اور ترقی وغیرہ کیلئے وفاقی سطح پر ایک بہترین نظام وضع کیا جائے اور ملک کے بہترین دماغ اور کردار ان کاموں کیلئے آمادہ کئے جائیں۔ امن و امان، انصاف کی فراہمی اور بنیادی میونسپل ذمہ داریاں تبھی خوش اسلوبی سے نبھائی جا سکتی ہیں جب ذمہ داری کا علاقہ اور آبادی، وہاں کی گورنمنٹ مشینری کے سائز سے مطابقت رکھتی ہو۔ لہٰذا یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ملک کو چھوٹے انتظامی صوبوں یا کمشنریوں میں تقسیم نہ کیا جائے۔ جزئیات ماہرین طے کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد موجودہ صوبائی حکومتوں کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات تجربے میں آ چکی ہے کہ بڑے صوبوں کی موجودگی میں بلدیاتی نظام چلنے نہیں دیا گیا۔
2۔ اعلی عدلیہ: ایک آزاد، خود مختار اور مؤثر عدلیہ کسی بھی زندہ معاشرے اور اچھے گورننس سسٹم کی پہچان ہے۔ بہترین فیصلہ سازی کیلئے تعلیم یافتہ اور ذہین ہونے کے علاوہ پختہ کردار بھی درکار ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ ایک پروقار، تربیت یافتہ اور پراعتماد محکمہ انصاف اس کام پر مامور ہو۔ اس کیلئے ایک نیا کیڈر ترتیب دینا ضروری ہے‘ جس میں داخلے کا میرٹ باقی تمام محکموں سے بہت بلند ہو۔ لیٹرل اینٹری ناممکن ہو اور اس کا اپنا ایک الگ انتظامی ڈھانچہ ہو۔
اس کے علاوہ تمام محکموں کو پابند کیا جائے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں محکمانہ مسائل قانون کے مطابق خود حل کریں اور اندرونی عدل کا نظام وضع کریں تاکہ عدالتوں میں صرف بڑے اور پیچیدہ کیس جائیں۔ وزارت انصاف موبائل یعنی چلتی پھرتی عدالتوں کا تصور متعارف کروائے جس میں فاضل جج موقع وقوعہ پر پہنچ کر عدالت لگائے، گواہان کے بیان قلمبند کرے اور فوری انصاف فراہم کرے۔ لیکن ایک ایسے نظام سے چھٹکارا پانا ہو گا جس میں وزیر اعظم سے لیکر ایک عام مزدور تک مقدمات نمٹائے جانے کے حوالے سے سست روی سے بیزار ہو۔ گھناؤنے جرائم مثلاً قتل، ڈاکہ، بھتہ خوری، منشیات کا کاروبار، جیسے جرائم کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں اور سرعت کے ساتھ سزائیں دی جائیں۔
3۔ سیاسی پارٹیز ایکٹ: حقیقی جمہوریت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت اور خالص جمہوری رویہ نہ ہو اور اس بات کو سرسری انداز میں فقط ٹوٹل پورا کرنے اور کارروائی مکمل کرنا نہ سمجھا جائے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تقریباً تمام بڑی پارٹیاں چند خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ معاشرے میں شخصیت پرستی کا رجحان اور دوسری وجہ جو کہ زیادہ اہم ہے، پارٹی سربراہوں کا پارٹی فنڈز اور فیصلہ سازی پر قبضہ ہے۔ اس کے علاوہ ہارس ٹریڈنگ کے قانون کا غلط استعمال ہے۔ پارٹیوں کے نام پر لیڈروں نے پیسوں کے انبار لگا کر اور ہارس ٹریڈنگ قانون کا سہارا لے کر اچھے بھلے سیاستدانوں کو یرغمال بنا لیا ہے اور بہت سے باعزت لوگ لیڈروں کے بچوں کی خوشامد اور انہیں آگے رکھنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ ان مجبوریوں کا ازالہ از حد ضروری ہے‘ ورنہ ہماری سیاست کبھی mature نہ ہو پائے گی۔ اداروں کے سیاست میں اثرورسوخ اور مداخلت کو یکسر ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ ورنہ جمہوریت کے نام پر مذاق ہمیں ترقی نہیں کرنے دے گا۔ جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے اور مختلف شعبوں میں اہلیت پیدا کرنے کیلئے خصوصی انتظامات کرنا ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں کچھ ٹیکنوکریٹ ہونا بہت اہم معاملہ ہے۔ معیشت دان، انجینئر، ڈاکٹر، منیجر، آئی ٹی اور دفاعی امور کے ایکسپرٹ وغیرہ کے بغیر آج کی حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ یہاں تو بھائی لوگوں پر بی اے کی شرط بھی بہت ناگوار گزری، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور پارلیمنٹ میں کن لوگوں کی اجارہ داری ہوگی۔ پھر بادل نخواستہ معیشت، دفاع، خارجہ اور داخلہ امور پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے جن کو بعض اوقات ان محکموں کی الف بے بھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس تحریر کو سیاستدان اپنے خلاف کوئی کاوش نہ سمجھیں، بلکہ یہاں تو مروجہ سیاسی ڈھانچے کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو خود اچھے باکردار سیاستدانوں کیلئے ایک فائدے کی بات ہے۔ اس کو اسی سپرٹ میں لیا جانا چاہئے۔ اگلی قسط میں مزید بات ہو گی۔ (جاری)