سکیورٹی امور کو ہمیشہ ایک وسیع تر تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جہاں ہر فرد ‘فیملی‘ عوام کے گروپ (مذہب ‘رنگ اور عقیدے سے ماورا)اور قوم بحیثیت مجموعی اپنی جان ‘مال اور عزت و آبرو کے حوالے سے خود کومحفوظ سمجھتے ہوں۔یہ باتیںایک واضح سماجی ‘سیاسی‘سکیورٹی اور معاشی نظام کی مرہون منت ہوتی ہیں‘جو ایک مضبوط قوت نافذہ کا حامل ہو‘جس سے نہ صرف اس ریاست کے عوام بلکہ علاقائی اور عالمی ممالک بھی اطمینان محسوس کریںگے ۔ اس طرح اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے مذموم مقاصدسے تحفظ بھی یقینی ہو جائے گا۔تاہم وقت کے ساتھ وضع ہونے والے بین الااقوامی سیاسی اور معاشی فریم ورک کا دارو مدارقومی ریاستوں کے خالصتاً ذاتی مفادات پر ہوتا ہے ‘جن میں بظاہر بین الاقوامی قوانین ‘اخلاقیات اور راست بازی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔دنیا کے ممالک کی طاقت اوراہمیت ان کی سیاسی ‘معاشی اور عسکری قوت کے امتزاج کی مرہون منت ہوتی ہے۔
ایک باخبر ‘متحرک اور نڈر قیادت ہی اپنے ملک کو متضاد مفادات اور خفیہ عزائم کی ان خطر ناک بھول بھلیوں سے بحفاظت نکال کر اعلیٰ اور باعزت مقام پر فائز کر سکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ایک اہم خطے میں واقع اور پاور پوٹینشل کا حامل ملک ہے (گو کہ اس کا پورا ادراک نہیں پایا جاتا)جو ایٹمی اسلحے سے لیس ہے‘اس لیے وہ خود کو بڑی طاقتوں کی مسابقتی بالادستی کی جنگ سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا۔
Mackinder کی Heartland Central Asian Countries ‘ Spykmanکی Rimland
(Coastal regions)اور Admiral Mahan کی Control of Seas ( Indian Ocean ) سمیت جیو سٹریٹیجی کی تمام تھیوریز اور اس خطے میںدنیا کی ایک تہائی سے زائد آبادی اور وسائل نے اسے تمام اہم ممالک کے لیے ایک جنگی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔اس خطے کی بھرپورتاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کی اہمیت کبھی کم ہوئی ہے نہ کبھی کم ہو سکتی ہے۔2019ء کا سال بھی اس بات سے مبرا نہیں ہے۔
ماضی کی طرح صدرٹرمپ کے دور میں بھی پاکستان کے بارے میں امریکی رویہ اتار چڑھائو کا شکار رہا۔اگست ستمبر میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے امریکہ کے دورے تک اس سال بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ اگرچہ افغان مسئلے پر امریکہ ہمیشہ پاکستان کی مدد کا بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا ہے‘ مگراس نے کبھی کھلے دل سے اس کا اعتراف نہیں کیا۔ وجہ کچھ بھی ہو سپر پاور کی بظاہر یہ خواہش تھی کہ اسے پاکستان سے یہ مطلوبہ مدد توملے‘ مگر سا تھ ہی ا س کی پوری کوشش تھی کہ افغان مسئلے کے مستقبل کے سیاسی حل کے لیے جامع مذاکرات سے پاکستان کو دور رکھا جائے ۔یقینا اسے اپنے اس مقصد میں کامیابی نہیں مل سکی ‘ کیونکہ افغان امن مذاکرات میں مشترکہ کردار ادا کرنے کے لیے پاکستان کو روس ‘ چین حتیٰ کہ ایران کی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔جہاں تک افغانستان کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے (بھلا ہو زبردست سیاسی اور عسکری ڈپلومیسی کا ) کہ پاکستان اس تناظر میں ایک اہم ملک بن کر سامنے آیا ہے۔بہت سے ناقدین کی کوشش تھی کہ پاکستان اس مسئلے سے ''لاتعلقی کی پالیسی‘‘ اپنائے‘ مگر وہ اس اَمر سے بالکل بے خبر تھے کہ اس میں دوسرے ممالک کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔سب سے قریبی اور سب سے زیادہ متاثرہ ہمسائے کویہ مشورہ عجیب سا لگتا ہے۔
خیر‘امریکہ اور افغان طالبان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے اور جہاں تک افغان قضیے کا تعلق ہے آئندہ سال تک یہ حل ہوتا نظر آرہا ہے۔یقینا یہ ایک مشکل اور پر خطر سفر ہے‘ مگر شایدیہ پچھلی مرتبہ کی طرح بدترین ناکامی سے نہ دوچارہو۔تمام فریق اپنے اپنے سبق سیکھ چکے ہوں گے او راُمید ہے کہ اس مرتبہ ان مذکرات میں کوئی خلا پیدا نہیں ہوگا۔اُمید ہے کہ بڑی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کے متواز ن اقدمات کی بدولت یہ سفر بہتر سمت میں ہوگا۔مسابقتی مفادات کی بدولت شاید یہ علاقہ کسی حد تک بد امنی اور کشیدگی کا شکار رہے‘ مگر اُمید ہے کہ یہ سلسلہ زیادہ طویل عرصے تک نہیں چلے گا‘تاہم امریکہ دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان کو دِق کرنا جاری رکھے گا مثلاً ہماری چین سے قربت ‘سی پیک پر انحصار اور ہمارے ایٹمی اثاثے‘ کیونکہ یہی وہ تمام عوامل ہیںجو ہمیںاسلامی دنیا اوراہم علاقائی ممالک کی صف میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ان کی کوشش ہوگی کہ ہمیں الجھائے رکھیں‘وہ سی پیک کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے‘بھارت کے ساتھ ساتھ قانونی اور معاشی جوڑ توڑ کے ذریعے ہمیں شدید دبائو میں رکھیںگے‘ اور پاک بھارت نزاع کی صورت میںامریکہ اور اس کے اتحادی تمام اخلاقی اصولوںکو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔جب تک امریکہ کی طرف سے لگائی گئی یک طرفہ معاشی پابندیوںکا معاملہ حل نہیں ہو جاتا ایران بھی شدید دبائو کا شکار رہے گا۔روس اور چین دیگر ممالک کے ساتھ مل کر عالمی معیشت پر ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کی جدو جہد جاری رکھیں گے‘مگر اس میںوقت لگے گا اور شاید2020ء میںایسا نہ ہوسکے۔ایران کو خارجی طور پر سیاسی ‘معاشی اور فوجی مداخلت کا سامنا جاری رہے گا۔پاکستانی قیادت شاید حوصلہ کرکے ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ اور سیاسی ومعاشی شعبوں میں تعلقات کا آغاز کرے ۔ اگر دونوں ممالک افغان مسئلے پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہے توآئندہ برس شاید پاک ایران مفاہمت میں مثبت پیش رفت نظر آئے۔اس باہمی تال میل کو مستحکم کرنے میں چین اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
بھارت کے بے لچک رویے ‘کشمیر ‘پاکستان اور بھارتی اقلیتوں کے ساتھ اس کے مکروہ طرز عمل اور اقدامات کی بدولت ہمیں ابھی مخاصمانہ تعلقات کا سامنا رہے گا۔سائز ‘معیشت اور پاور پوٹینشل کے دیگر عناصر کی بدولت بھارت کو بڑی سیاسی برتری حاصل ہے‘تاہم ایک ذمہ دار ملک کا رویہ اپنانے کی بجائے وہ جنوبی ایشیا میں بدمعاشی کے رویے کا مظاہر ہ کرتا ہے اور پاکستان اس کے ان عزائم کی راہ میں واحد رکاوٹ ہے۔ہندوتوا اور انتہا پسندی کے فروغ نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے اور پورے خطے کے حالات کوابتر کر دیا ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35-Aکی منسوخی مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس میں تبدیلی کی بھونڈی کوشش ہے‘ جو شملہ معاہدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔گزشتہ چار مہینوں سے وہاں کرفیو اور بلیک آئوٹ جاری ہے۔مقبوضہ کشمیر کے بے بس عوام کے لیے کوئی آسانی نظر نہیں آتی؛چنانچہ پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام میں بے پناہ بے چینی پائی جاتی ہے۔یہ ساری صورتحال ایک ٹائم بم کی ٹک ٹک کے مترادف ہے۔بھارت کے مقتدر حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو جھکائے بغیر ان کی عظمت اور بالادستی حاصل کرنے کی دیرینہ خواہش پوری نہیںہو سکتی اور کشمیر کاانضمام بھی ممکن نہیں۔بھارتی فوج طاقت کے خبط میں مبتلا ہے اور دھڑا دھڑ جدید جنگی طیارے ‘بحری جہاز ‘ٹینک اور میزائل حاصل کر رہی ہے جس سے پاکستان کے خلاف روایتی فورسز میں مزیدعدم توازن پیدا ہو گیا ہے۔ABMسسٹم اورا ینٹی سیٹلائٹ صلاحیت کے حصول سے خطہ تزویراتی عدم استحکام کا شکار بھی ہو گیا ہے۔اس طرح کی انتہا پسند قیادت ‘روز افزوں فوجی قوت میںاضافے اور تزویراتی عد م استحکام کی موجودگی میں غالب امکان ہے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ ایک محدود اور مختصر جنگ میںفائدہ نظر آئے‘خاص طور پر اس وقت جب بین الاقوامی برادری بھی حالات کی اس طرح کی سنگین پیش رفت سے لاتعلق اور بیگانہ نظر آئے۔ٹکرائو کے بجائے پاکستان کی امن پسندی اور جنگ سے ہر ممکن گریز کی خواہش سے بھارت کے جارحانہ موڈ اور عزائم کو مزید شہ ملتی ہے‘لہٰذا اگر ہماری قیادت اس امر کا پیشگی ادراک نہ کر سکی کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے اور اسے کس طرح روکنا اور مقابلہ کرنا ہے تو آنے والے دنوںمیںہمیں پاکستان کے بارے میں بھارت کے جارحانہ رویے میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ایران اور کوریا کے حالیہ واقعات
سے ملنے والے سبق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں بھی اپنے ڈیٹرنس کے نظریے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔امسال ہماری داخلی سیاسی اور ادارہ جاتی کشمکش نے ہماری سیاست‘ معیشت اور ہم آہنگی میں بہت زیادہ کمزوریاں اور تلخیاں بھر دی ہیں۔ یہ سلسلہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیے‘ وگرنہ ان داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹا ناممکن ہو جائے گا۔ انصاف ‘میرٹ ‘تعلیم اورصحت سے محروم مفلوک الحال عوام شاید اس بات سے لاتعلق ہوجائیں کہ ریاست پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کا بڑاحصہ اور کسی حد تک روایتی میڈیا بھی تقسیم اور تعطل کا شکار ہے اورپہلے سے موجود اس انتشار میں سنگینی پیدا ہونے سے صرف پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد کی تکمیل ہوگی۔ تمام اہم اداروںمیں اصلاحات کی ضرورت ہے‘ مگر ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی۔آبادی میں بے تحاشا اضافہ‘جہالت‘ ناخواندگی‘صحت کی بہتر سہولتیں ‘انصاف اور سب کیلئے مساوی معاشی مواقع کی عدم دستیابی‘ یہ سب عوامل مل کر ایک تاریک مستقبل کا سامان ہیں‘اگر اس سسٹم کو فوری طور پر درست راہ پر گامزن نہ کیا گیا تونوجوانوں کی اکثریت‘ جس پر ہم بڑا فخر محسوس کرتے ہیں‘ ایک بوجھ ثابت ہو سکتی ہے۔ہمیں ایک تیز رفتار ارتقا کی ضرورت ہے یا پھر انقلاب کیلئے تیار رہیں۔ہمیں سنگین سماجی ‘سیاسی ‘معاشی اور عسکری خطرات کی شکل میں بہت پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے‘ جس کا حل کسی ایک ادارے کے پاس نہیں اور اگر اس میں جامع اپروچ کے فقدان کو بھی شامل کر لیں تو جب تک ہم مثبت اور منفی کنٹرول فوری طورپرمتعارف نہیں کراتے ہم زیادہ مشکل حالات سے دوچا رہو سکتے ہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ ایک ہائبرڈ جنگ لڑنے کی صلاحیت حاصل کی جائے‘ جس کی ہمیں زیادہ سمجھ بوجھ ہے‘ نہ اس کیلئے ہم منظم اور لیس ہیں۔ہم ایک سیاسی معاشی اور سماجی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔سیاسی اشرافیہ کے تمام طبقات ‘اعلیٰ عدلیہ‘سول اور خاکی اسٹیبلشمنٹ (نوتشکیل کردہ قومی سلامتی کمیٹی) سب کو سر جوڑ کر بیٹھنے اورایک دوسرے کا ہاتھ بٹا نے کی ضرورت ہے‘ تاکہ متلاطم پانیوں اور پتھریلے راستوں میں پھنسی اس قوم کی کشتی کوپار لگایا جا سکے۔ 2020ء کا تقاضا ہے کہ ہم اجتماعی فہم و فراست اور مشترکہ کوششوں سے اپنے مقاصد اور سمت میں واضح تبدیلی پیدا کریں۔یہ ہمارے تمام اداروں کی آزمائش ہے۔ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں‘ اپنی قوت کو مستحکم کرکے کامیاب ہوجائیں یا ایک دوسرے کی کمزوریاں اچھال کر اپنی تباہی کا سامان کر لیں‘(اللہ نہ کرے)۔