آج کا کالم اُنیسویں صدی کی ایک سکھ شہزادی کے تذکرے سے شروع ہوکر چاکلیٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کی زندگی پر اُچٹتی ہوئی نظرڈالنے پر ختم ہوگا۔ انگریزوں نے 1848ء میں پنجاب کو فتح کر لیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 1839ء میں انتقال نہ ہوتا تو شاید انگریزوں کے لیے مزیدکچھ عرصہ پنجاب پر قبضہ ممکن نہ ہوتا۔ فاتحین نے رنجیت سنگھ کے گیارہ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ پراتنا دبائو ڈالا کہ اُس نے پنجاب کو برطانوی راج میں شامل کرنے کی دستاویز پر دستخط کردیے۔ دلیپ سنگھ کو فرنگی حکمرانوں نے گود لے لیا، اُسے چار سال انگریزی پڑھائی، مذہب تبدیل کر کے اُسے مسیحی بنایااور پھر زبردستی برطانیہ بھیج دیا جہاں ملکہ وکٹوریہ اُس کی خصوصی سرپرست اعلیٰ بن گئیں۔ اسے معقول سرکاری پینشن دی جانے لگی اوربرطانوی اشرافیہ کا حصہ بنا لیاگیا۔ وہ لندن سے سو میل دُور Suffolk ضلع کے Elveden نامی قصبے میں ایک محل نما مکان میں ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے لگا۔ دلیپ سنگھ کی شاہ خرچیاں اور برطانوی حکومت کی روایتی کفایت شعاری زیادہ دیر تک ایک دُوسرے کے ساتھ گزارہ نہ کر سکیں۔ شہزادہ مالی بحران کا شکار ہوا تواُسے اپنی کھوئی ہوئی جنت کی یاد ستانے لگی۔ وہ برطانیہ سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ مفرور ہوکر واپس ہندوستان جانے کے لیے بحری سفرکر رہا تھاکہ اُسے نہرسوئیز عبورکرنے کی اجازت نہ دی گئی اوربال بچوں سمیت برطانیہ واپس جانے پر مجبورکر دیاگیا۔ واپسی پر دلیپ سنگھ کے حالات مزید دگرگوں ہوگئے۔ شراب نوشی بڑھ گئی، یکے بعد دیگرے شادیاں طلاق کی صورت میں ختم ہونے لگیں، بیش قیمت داشتائوں نے اُسے دیوالیہ کر دیا۔ اُس نے دوبارہ سکھ دھرم اپنا لیا اور فرانس و روس (جو برطانیہ کے سیاسی حریف تھے) کی مدد سے اپنا کھویا ہوا تاج و تخت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگا۔ 1895ء میں وہ پیرس کی غریب آبادی کے ایک سستے ہوٹل میں کسمپرسی کے عالم میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
دلیپ سنگھ کی پہلی شادی سے چھ بچے پیدا ہوئے اور دُوسری سے دو۔ شادی کے بندھن کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے زیادہ تھی، مگر ان کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ پہلی شادی سے پیدا ہونے والے چھ بچوں میں سب سے کم عمر اُس کی بیٹی تھی جس کا نام صوفیہ تھا۔ انیتا آنند نے اس کی زندگی پر بڑی دلچسپ کتاب لکھی ہے جو فروری میں شائع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ صوفیہ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کے طبقہ اُمرا کی صفوں میں شامل ہو گئی۔ وہ ہمہ وقت فیشن کی دُنیا میں زندگی گزارنے والیوں کے ہمراہ مہنگے ملبوسات اور بیش قیمت خوشبوئوںکی خریداری میں مصروف رہنے لگی۔ اس نے چند برس تو ایسے گزارے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اُس میں تبدیلی آئی ۔ پہلے سماجی خدمت اور پھر سیاسی سرگرمیاں صوفیہ کی مصروفیات کا مرکز و محور بنتی گئیں۔ سب سے پہلے ہندوستانی ملاحوں سے ہونے والے غیر انسانی سلوک بند کرانے کے لیے جدوجہد کی ۔ پھر پہلی جنگ عظیم میں لڑنے والے اور زخمی ہوجانے والے ہندوستانی سپاہیوں کی دیکھ بھال اور بعد ازاں ہندوستانی قوم کے حق خودِ ارادیت کے لیے کوشاں ہوگئی۔
صوفیہ کی زندگی پر سب سے گہرا اثر اُس کی بڑی بہن بمبا (Bamba) کا تھا جو اوائل عمر سے ہی برطانوی راج کے بارے میں غیر دوستانہ خیالات رکھتی تھی ، اپنی ہندوستانی شناخت کے نقوش اُبھارنے میں اس حد تک سنجیدہ تھی کہ صوفیہ کے برعکس پنجاب واپس چلی گئی اور برس ہا برس لاہور میں رہائش پذیر رہی۔ اُس نے اپنے مرحوم باپ کو زبردستی برطانیہ بھجوانے اور وہاں ایک قسم کا قیدی بنا کر رکھنے کی سرکاری پالیسی کے سامنے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگایا۔ بمبا کے دو بھائی تھے جنہوں نے اپنے دل پر جبر کرکے اپنے آپ کو برطانوی ماحول کے مطابق ڈھال لیا اور اپنی گمنامی اور مقابلتاً غربت کی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا۔
صوفیہ کی تیسری بہن کا ذکر کئے بغیر بات آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔ اُس بی بی کا نام خالصتاً مغربی تھا۔۔۔۔۔کیتھرین (Catherine) ۔ اُس نے اپنے نام کی لاج رکھی اور اپنے انگریزاتالیق سے شادی کرکے جرمنی جاکر ایسا گھر بسایا کہ پھر مڑکر نہ دیکھا۔۔۔۔ نہ ہندوستان کی طرف جہاں اُس کا دادا پنجاب کا بادشاہ تھا نہ برطانیہ جہاں اُس نے ہوش سنبھالا اورنہ اپنے بہن بھائیوںکی جانب ۔ میں یہاں پہنچا تو مجھے اپنی جرمن بہو یاد آئی (جو میرے سب سے بڑے بیٹے عارف کی وفاشعاراور خدمت گزار بیوی اور ہماری مثالی بہو ہے) وُہ جب سے جرمنی چھوڑکر ہمارے قبیلے کی رُکن بنی ہے، مڑکر جرمنی کی طرف نہیں دیکھا۔ مگرمجھے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کالم لکھنے کا مقصدآپ کو اپنے گھرانے کے بارے میں بتانا نہیں؛ بلکہ آپ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اُس پوتی سے متعارف کرانا ہے جس کا نام صوفیہ تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں جو کچھ کیا وہ برطانیہ رہ کرکیا۔ اُن دنوں برطانیہ کی پس ماندگی کا یہ عالم تھاکہ یہاں کوئی خاتون میڈیکل کالج میں داخل ہوکر ڈاکٹر نہ بن سکتی تھی۔ جو خاتون بھی طب کے پیشے میں دلچسپی رکھتی، نرس کے درجہ سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی۔ صوفیہ کی بڑی بہن امریکہ چلی گئی اور وہاں اُس نے شگاگوکی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، مگر بدقسمتی نے یہاں بھی اُس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اُس کی تعلیم ابھی ادھوری تھی کہ امریکی یونیورسٹیوں نے فیصلہ کر لیاکہ کسی خاتون کو ڈاکٹربننے کی اجازت نہ دی جائے۔ بمبا اتنی ناراض ہوئی کہ شگاگو چھوڑکر لاہور چلی گئی جہاں وہ اپنے آپ کو پنجاب کی ملکہ کہلانا پسندکرتی تھی۔ اُس کا نیم عریاں لباس اور بے باک گفتگو لاہورکے امیر طبقے کی خواتین کے لیے شدید وحشت اور مردوں کے لیے باعث صد طمانیت بنی۔ صوفیہ گاہے اپنی اس باغیانہ صفت رکھنے والی بہن کو ملنے لاہور جاتی رہی اور اس رابطے نے اُس کے سیاسی خیالات کو پختہ بنانے میںاہم کردار ادا کیا۔ ان دنوں (پہلی جنگ عظیم کے بعد) برطانیہ میں خواتین میں ایک انقلابی تحریک اُبھری جس کا نام Suffragette تھا اور اس کا مقصد خواتین کو ووٹ کا حق دلوانا تھا۔ صوفیہ کے لیے اس تحریک میں مقناطیسی کشش تھی۔ اس نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ احتجاج کرنے والی خواتین نے سڑکوں پر دھرنے دے کر اکثر بڑے شہروں کی ٹریفک روک دی ۔ نہ صرف ٹیکس ادا کرنے سے انکارکیا بلکہ نقصِ امن کا ارتکاب کرنے پر جرمانہ ادا کرنے سے بھی انکارکردیا اور جیل کی سزابھگتی۔ جیل جاکر بھوک ہڑتال کی۔ اس کتاب کا بڑا حصہ اس تحریک کے بارے میں ہے جو خواتین کو ووٹ کا حق دلا کر رہی۔ صوفیہ کی زندگی کے آخری لمحات آئے تو اُس سے آخری خواہش پوچھی گئی۔ جواب ملا ''خواتین کو وہ مقام دلوانا جس کی وہ مستحق ہیں مگر جو اُنہیں نہیں دیا جاتا۔۔۔۔ اس ناانصافی کا خاتمہ‘‘۔
اس ہفتے اٹلی سے خبر آئی ہے کہ مائیکل فیریرو 89 سال عمر پاکر انتقال کر گیا۔ ایک اندازے کے مطابق وہ 23.4 ارب ڈالرکا مالک تھا ۔اُس نے ڈبل روٹی پر لگا کر کھانے والا Hazelnut Chocolate Spread (جوNutella کے نام سے دُنیا بھر میں مشہور ہوا) بنایا۔ یہ عالمی منڈی میں ہر سال36.5 کروڑکلو فروخت ہوتا تھا۔ غریب دُکاندارکا بیٹا اپنی ہمت، مستقل مزاجی اور جودت طبع کی بدولت اٹلی کا امیر ترین شخص بن گیا۔ اُس نے اتنے اچھے چاکلیٹ بنائے کہ آپ کا کالم نگار ڈاکٹروں کے مشورے کو نظر اندازکرتے ہوئے چوری چھپے کھانے سے باز نہیں آتا۔ اُس کی فیکٹری میں چار ہزار مزدور کام کرتے ہیں جنہیں اِتنی اچھی اُجرت ملتی ہے کہ کبھی ہڑتال نہیں کی۔ وہ زندگی میں سب سے زیادہ دو خواتین پر انحصار کرتا تھا۔۔۔۔۔ ایک اٹلی کی عام گھریلو خاتون جو اپنے بچوںکو اچھی قسم کی چاکلیٹ کھلانا پسند کرتی، اُس کی پسند یا ناپسند فیصلہ کن درجہ رکھتی تھی۔ دُوسری خاتون کا نام مقدس مریم تھا جس کے مرمریں مجسمہ کے سامنے وہ بلا ناغہ عبادت کرتا اوراُس کی خوشنودی کی خاطر اپنی دولت کا بڑا حصہ خیرات کر دیتا تھا۔ تدفین کے لیے میت تابوت میں رکھی گئی تو لاکھوں افراد نے اُس کا چہرہ پہلی بار سیاہ چشموں کے بغیر دیکھا۔ صرف اٹلی نہیں پورے یورپ نے اس کا سوگ منایا۔