سب سے پہلے قارئین اور اُن کے اہل خانہ کو سالِ نَو مبارک ہو۔ ملتمس ہوں کہ ایک لمحہ کے لئے ہم اپنے آپ کو اس فضول بحث میں نہ اُلجھائیں کہ کیا اہل پاکستان کو (جو عیسوی کیلنڈرکو مانتے اور اُس کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں) اس کیلنڈر کے سالِ نَو کو اپنا سال نو مان لینا چاہیے یا نہیں؟ اور اگر مان لیں تو پھر اُنہیں خوشی کے اس موقع پر (ایران جیسے اسلامی ملک میں ہزاروں سال سے جشنِ نَوروز منایا جاتا ہے) ہمیں اپنی خوشی کے اظہار کا ایک اور جشن منانے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ میں ڈرتے ڈرتے ایک شعر لکھ رہا ہوں اور شاعر کا نام بھی، میرے خیال میں اکبر الہ آبادی ہے ؎
مذہب پر بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
اگر مجھے فرشتے حکم دیں کہ میں رب ذوالجلال سے صرف ایک دُعا مانگ سکتا ہوں، زیادہ نہیں، صرف ایک، تاکہ اُس کی قبولیت کے امکانات بڑھ جائیں، تو میں بلا توقف ہاتھ اُٹھا کر یہ دُعا مانگوں گا کہ یا اللہ! میرے اہل وطن کو صرف عقل دے دے۔ باقی کام خود بخود سیدھے ہو جائیں گے اور ضمنی دُعا (بشرطیکہ اجازت ملی) اُنہیں اتنی فالتو عقل ہرگز نہ دے کہ وہ اپنا سارا وقت، اتنا قیمتی وقت، فضول قسم کی بحث کرنے میں ضائع کر دیں(جیسا کہ 70 برسوں سے ہو رہا ہے۔) یہ تو تھے وہ جملے جنہیں اُردو ادب میں 'معترضہ‘ کہا جاتا ہے، میں اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ وقت نکال کر مجھے (بذریعہ ای میل) یہ بتائیں کہ جملہ معترضہ کیا ہوتا ہے؟ اور مندرجہ بالا تمہید کے بارے میں یہ الفاظ درست استعمال کئے گئے یا نہیں؟
کالم نگار کے ذخیرہ الفاظ کی جانچ پڑتال آپ بعد میں کر لیں، ابھی اُس کے ساتھ پھر وسط ایشیا چلیں، جہاں کے ایک ملک (ازبکستان) آپ پچھلے ہفتے گئے تھے۔ کالم میںگل نارا کا نام لکھنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ مجھے اس حسینہ عالم کو عالم خواب میں پھر دیکھنا پڑا۔ میں نے پوچھا کہ سنائو کس حال میں ہو؟ دُوسری خوبصورت خواتین کی طرح وہ مسکراتی رہی اور میرے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے جواب کے لئے اصرار کیا تو کہنے لگی کہ پہلے وہاں آئو جہاں میں ہوں، پھر بات ہوگی۔ افسوس کہ اُس نے اپنا اتا پتہ نہ بتایا۔ اب آپ بتائیں کہ میں اُس سے ملنے کہاں جائوں؟ لگتا ہے کہ ابھی مزید خواب دیکھنے پڑیں گے تاکہ یہ معمہ حل ہو۔ پاکستان میں کچھ لوگ دانشور ہیں اور کچھ قانون دان، مگر کچھ لوگ بیک وقت دانشور اور قانون دان ہیں، مثلاً کراچی میں نفیس صدیقی اور مرحوم اے کے بروہی اور مرحوم خالد اسحاق (جن کے گھر کی لائبریری ایک اچھی یونیورسٹی کی لائبریری کے برابر تھی) لاہور میں جناب حامد خان، سید فیروز شاہ گیلانی، جناب ایس ایم ظفر اور مرحوم اعجاز حسین بٹالوی (چوٹی کے بیرسٹر اور اتنے ہی اچھے ادیب کہ قرۃ العین حیدراُنہیں اپنا دوست کہتی تھیں۔) میں جناب گیلانی صاحب کو اپنا پیر و مرشد مانتا ہوں۔ اُن سے تعارف کا ثواب مرحوم ارشاد حقانی صاحب کو جاتا ہے۔ پہلے قلمی دوستی ہوئی اور اس سے اگلے برس ملاقات۔ میں نے پوچھا کہ شاہ جی، میرے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ فرمایا Kleptocracy ۔ یہ اُس ذہنی بیماری کا نام ہے جس کے مریض (چاہے وہ بادشاہ ہوں یا ارب پتی) چوری کرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ آپ اُس ملک کی بدنصیبی پر اپنی آنکھوں سے چند آنسو ٹپکنے دیں جس پر عادی اور ناقابل علاج چوروں کا حکومت پر قبضہ ہو یا اتنا عمل دخل ہو کہ وہ اپنی وارداتوں کا سلسلہ جاری رکھیں اورکوئی ہاتھ اتنا مضبوط نہ ہو کہ اُنہیں روک سکے یا پکڑ سکے۔ مذکورہ بالا لفظ کے استعمال کا مطلب ہے کوزہ میں دریا بند کرنا (غور فرمائیںکہ یہ کتنا مشکل نام ہے۔) جناب شاہ جی نے برسوں پہلے جو لفظ ہماری پہلی ملاقات میں ادا کیا وہ آٹھ دسمبر 2016 ء کو برطانوی اخبار گارڈین کے مضمون نگار نے وسط ایشیا کے حکمرانوں کا تعارف کروانے کے لئے بار بار لکھا۔ چوروں کی تو پانچوں اُنگلیاں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں، مگر وسط ایشیا کے عوام کا معیار زندگی ان سالوں میں اتنا گر گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اپنے کنبہ کی کفالت کے لئے ماسکو میں بہت کم اُجرت پر محنت مزدور ی کرنے پر مجبور ہیں۔ جہاں تک نظر جاتی ہے، وہ اسی طرح مجبور رہیں گے ع
پا بدست دیگرے، دست بدست دیگرے
اگر آپ کے پائوں میں بھی میرے پائوں کے تلوے کی طرح (محاورتاً) تِل ہو اور اُس میں بلا ناغہ کھجلی ہوتی رہے اور آپ اِدھر اُدھر کے (زیادہ تر بے مقصد) سفر کرتے ہیں تو پھر تاجکستان ضرور جائیے۔ شہر کے وسط میں جو قومی عجائب گھر ہے اُس میں ایک ہزار سال پرانے اور اعلیٰ علمی معیار کے اتنے مسودے پڑے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ان انتہائی بیش قیمت اور نادر مسودوں کو ایک نظر دیکھ کر آپ کے منہ سے اقبال کا لکھا ہوا یہ مصرع ضرور ادا ہوگا ع
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوتا ہوا تارا
میں آپ کو ترکمانستان (اس کے باوجود کہ وہاں واقعی کوہ قاف کی پریاں رہتی ہیں) جانے سے اس لئے روکوں گا کہ وہاں کے قدرتی حسن کو مطلق العنان آمر Curbanguy Berdymukhameday نے جا بجا اپنے بت لگوا کر خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دارالحکومت کے وسط میں لگا ہوا بت ایک عمودی چٹان پر نصب ہے اور بت خالص سونے کا بنا ہوا ہے۔ چٹان پر آمر مطلق ایک شاہ زور گھوڑے پر سوار ہے اور اُس پر مقامی زبان میں Arkadag کا لفظ بڑے حروف میں کندہ کیاگیا ہے جس کا معنی ہے محافظ اور نگہبان۔ یہ اسم صفت صدر نما آمر کے بت کی بجائے اُس کی خفیہ پولیس کے دفتر پر لکھا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ ترکمانستان سے پہلو بچا گئے تو تمام خطروں سے بچ گئے۔ وسط ایشیا کا سب سے بڑا ملک قازقستان ہے۔ رقبہ دس لاکھ مربع میل۔ اس پر منگولوں نے چھ سو سال (تیرہویں سے اٹھارہویں صدی تک) حکومت کی۔ اس کےآمر مطلق کا نام ہے نور سلطان جو اپنے آپ کو Elbasy (قائد اعظم)کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ان دنوں یہ افواہ گرم ہے کہ وہ اپنے ملک کے نئے دارالحکومت کانام Astana (20 سال تک Almaata شہر دارالحکومت بنا رہا) سے بدل کر اپنے نام پر رکھ دینے پر غور کر رہا ہے۔ شہری آزادیوں کے مکمل فقدان کی وجہ سے وسطی ایشیا کے سارے سابق کمیونسٹ ممالک اس وقت سب سے زیادہ طالبان اور اُن کے قبیل کے دُوسرے ساتھیوں سے ڈرتے ہیں۔ ترکمانستان میں داڑھی رکھنا خلاف قانون ہے۔ تاجکستان میں پولیس برقع پوش خواتین کو اس طرح گھور گھور کر دیکھتی ہے جس طرح پاکستان جیسے اسلامی ملک میں مردوں کی اکثریت اپنے محلہ کی باپردہ خواتین کو۔ اور جن لوگوں کی لمبی داڑھی ہو اُن کے کوائف پولیس کے پاس بطور خطرناک یا مشتبہ افراد درج کر لئے جاتے ہیں۔ مساجد میں نماز پڑھنے پر پابندی تو نہیں مگر اس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
پچھلے سال ایک عجیب واقعہ ہوا۔ تاجکستان کی پولیس کا سربراہ (Gulmarod Khalimov) اچانک غائب ہو گیا۔ بڑی ڈھنڈیا پڑی مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ کچھ عرصہ بعد مشرق وسطیٰ کی اسلامی ریاست (جسے اس کے مخالف داعش کہتے ہیں) نے ایک ویڈیو فلم جاری کی تو موصوف اُس میں جلوہ گر ہوئے اور وہ فلم دیکھنے والوں کو امریکہ کے خلاف مسلح جہاد کرنے کی تلقین کر رہے تھے۔
یوں تو سارا وسطی ایشیا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، مگر سرفہرست دو ممالک ہیں، قازقستان اور ترکمانستان، جہاں قدرتی گیس کے اتنے بڑے ذخائر ہیں کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں توانائی کے بحران کو بآسانی حل کر سکتے ہیں۔ قازقستان کی نصف آبادی نہ صرف عربی زبان بولتی ہے بلکہ وہ مستقبل قریب میں۔۔۔۔۔(جاری)