یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)‘ جو ہماری دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور تقریباً30 سال برسر اقتدار رہی ہیں‘ کی قیادت اربوں کھربوں کی کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر جیلوں میں ہے۔ دوسری طرف ان دنوں برسرِ اقتدار جماعت (تحریک انصاف) بھی سوچنے سمجھنے‘ دیکھنے اور پرَکھنے کی خوبیوں سے دور نظر آتی ہے۔ لگتا ہے کہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ نہ ہاتھ میں باگ اور نہ رکاب میں پائوں۔ سمت اور منزل نامعلوم۔ 72 برسوں کے بگاڑ کو سنوارنے کا نہ کوئی منصوبہ اور نہ کوئی لائحہ عمل ۔ اب رہ گئی صوبائی اور قومی اسمبلیاں اور ایوان بالا ( Senate)۔ وہ ہمارے قومی مسائل کو حل کرنے اور بھٹکی ہوئی‘ زخم خوردہ‘ ستم رسیدہ قوم کی رہنمائی کرنے اور اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کرنے کا سب سے فعال ادارہ بن جانے کی بجائے ہمارے سنگین بلکہ جان لیوا مسائل میں سر فہرست ہے۔ کروڑوں اربوں روپوں کے اخراجات سے ہم نے قانون ساز اداروں کے نام پر چھ سفید ہاتھی پال رکھے ہیں۔ (چھ یوں کہ چار صوبائی اور ایک قومی اسمبلی اور ایک سینیٹ)۔ قارئین جانتے ہیں کہ بابائے اُردو مولوی عبدالحق صاحب عرصہ ہوا وفات پا چکے ہیں۔ اب ہم 22 کروڑکی آبادی میں ڈھونڈ رہے ہیں ایک بھی شخص نہیں ملتا جو Senateکے لفظ کا اُردو ترجمہ کر سکے۔
آج کالم نگار حسب معمول لندن کے وسط میں بہتے ہوئے دریاThames کے کنارے (نہ رکنے والی بارش کو نظر انداز کرتے ہوئے) اپنی لمبی سیر کے دوران اپنے آبائی وطن عزیز کے حالات پر غورو فکر (غور کم اور فکر زیادہ) کر رہا تھا تو ایک خیال میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ جب یہ بات طے شدہ ہے کہ عقل و دانش کے بغیر ہم اپنا ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ ایک بھی مسئلہ۔ کشمیر کے اُلجھے ہوئے تنازعہ اور بھارت سے کشیدگی سے لے کر مہنگائی اور مچھروں کی ہلاکت خیزی میں اضافے تک۔ سیاسی قیادت (تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جمع کر لیں) نا صرف ناکام ہوتی ہے بلکہ بار بار ناکام ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو (جن کی سیاسی ناکامی نے جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کو جنم دیا)۔ پھر ان کی بیٹی بے نظیر۔پھر اُن کا داماد (آصف علی زرداری)۔ میاں نواز شریف (تین بار)۔ درمیانی عرصہ میں محمد خان جونیجو‘ ظفر اللہ جمالی اور مسلم لیگ (ق)۔ افسر شاہی اورفوج کے اعلیٰ افسران کا کام یہ نہیں کہ وہ فارغ وقت میں ملکی مسائل کا حل پیش کریں‘ پھر میرا دھیان اعلیٰ درس گاہوں اور یونیورسٹیوں کی طرف گیا۔ یقینا یہ بڑا المیہ ہے کہ وہاں بھی فکری جمود اور نظریاتی بنجر پن اور ذہنی بانجھ پن نے اساتذہ کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی واحد کرن اہل صحافت ہیں۔ وہ لکھیں یا بولیں ‘ ان کی تحریر اور گفتار میں عقل و دانش کی خوشبو نظر آتی ہے۔ مگر وہ تو نقارخانے میں طوطی کی آواز ہیں۔ انہیں عوام تو ذوق و شوق سے پڑھتے اور سنتے ہیں‘ مگر غالباًعوام پر حکومت کرنے والوں کو اُن کی تنقید (چاہے وہ کتنی مثبت ‘ تعمیری اور مبنی برروایات ہو)ناگوار لگتی ہے۔ صحافی خطرے کی چاہے لاکھ گھنٹیاں بجائیں‘ حکمران اور اُن کے مصاحبوں نے اپنے کانوں میں حماقت اور ذاتی مفادات کے باعث روئی ٹھونس رکھی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سرکاری مشیر سرکار کو کیا مشورہ دیتے ہیں‘ تو آپ حبیب جالبؔ کی وہ کمال کی نظم پڑھ لیں جس کا عنوان ہے : ع
میں نے اُس سے یہ کہا
ہمیں اس تلخ حقیقت کو مان لینا ہوگا کہ آج ہمارے پاس نہ قائداعظم ہیں‘ نہ ٹیپو سلطان‘ نہ صلاح الدین ایوبی‘ نہ دورِ حاضر کے امام خمینی‘ نہ مہاتیر محمد اور نہ اردوان۔ جب ہماری سیاسی قیادت نے عدالت‘صداقت اور شجاعت کا سبق نہیں پڑھا تو وہ امانت کے فرائض کس طرح سرانجام دے سکتے ہیں؟ سارے قائدین کو ایک نظر دیکھیں‘ نہ نگاہ بلند ‘ نہ سخن دلنواز‘ نہ جاں پرُسوز۔ ہر میر کارواں کے پاس جو رختِ سفر تھا (اور ہے) وہ آپ نیب کی فائلوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو چکا کہ محض موجودہ وزیراعظم کی ذاتی دیانت اور نیک نیتی ہماری کایا نہیں پلٹ سکتی۔ کالم نگار اس خوش فہمی میں ہر گز مبتلانہیں کہ وزیراعظم اس کی لکھی ہوئی سطور (یا دوسرے کالم نگاروں کی تحریریں)پڑھتے ہوں گے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ جب یہ کالم چھپ جائے تو میں انہیں بجھوا دوں اور پھر کئی دن مسلسل یہ دعا مانگتا رہوں کہ یہ تدبیر کام آجائے اور نہ صرف جناب عمران خان (وہ 1964 ء میں ایچیسن کالج میں پڑھتے تھے اور میں وہاں پڑھاتا تھا) اپنے ایک سابق استاد کا لکھا ہوا کالم پڑھ لیں بلکہ (خوش قسمتی سے اگر قسمت نے میرا ساتھ دیا تو) اُس پر سنجیدگی اور توجہ سے غور کریں اور کتنا اچھا ہو کہ وہ میرا مشورہ بھی مان لیں۔
اب ہم چلتے ہیں کالم نگار کے مفت (مگر قیمتی) مشورے کی طرف۔ سارے ملک میں ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جسے سرکاری طو رپر مشاورتی (اور مصالحتی) درجہ حاصل ہو ‘جو ہمیں یہ بتا سکے کہ ہم مندرجہ ذیل مسائل کس طرح حل کریں؟ سرکاری اختیارات کی عدم مرکزیت‘ مقامی حکومتوں کا قیام‘ تمام سرکاری محکموں خصوصاً پولیس کی اصلاح‘ امور ِمملکت خصوصاً فلاح و بہبود میں عوام کی شرکت‘ انگریزی بطور سرکاری زبان اور انگریز کے بنائے ہوئے غلامانہ نظام سے نجات ‘کھربوں ڈالروں کے غیر ملکی قرض کے طوقِ غلامی سے چھٹکارا‘ قومی پیداوار اور برآمدات میں کئی گنا اضافہ‘ زرعی اور صنعتی ترقی‘کسانوں مزدوروں اور کم آمدنی والے گھرانوں کی خوشحالی‘ صاف پانی‘ صاف ہوا اور آبی وسائل کی فراہمی‘ قانون کی حکمرانی‘ عدل و انصاف‘ محاسبہ اور شفافیت کے چار ستونوں پر نئے پاکستان کی تعمیر۔
ان دنوں یہ صورتحال ہے کہ جس شعبہ پر بھی نئی اصلاحات کی جاتی ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ بگڑ جاتا ہے۔کیوں نہ ہم ایک نیا طریقہ آزمائیں‘ ہم صوبائی سطح پر چار اور قومی سطح پر دو قانون ساز اسمبلیوں سے کسی بھی اصلاح یا بہتری یا نیکی کی توقع نہ رکھیں اور ایک نیا ادارہ معرض وجود میں لائیں جو اہل دانش پر مشتمل ہو۔ نہ صرف اہل دانش بلکہ دیانت دار‘ تجربہ کار‘فرض شناس‘ افکارِ تازہ رکھنے والے اور شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان نہ اُٹھانے والے ایسے افراد سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی خدمات رضا کارانہ طور پر بلا معاوضہ پیش کریں۔ وہ نو یا گیارہ لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں (آپ اس لفظ کا اُردو ترجمہ کریں) بنا کر 72 سالوں سے خراب سے خراب تر ہونے والے اس اصطبل کو صاف کرنے کا طریقہ بتائیں‘ جو کام یونانی دیو مالائی کہانی میں ہر کولیس (Herclues)کے ذمہ لگایا گیاتھا۔ اب ہم ایک اور قائداعظم کہاں سے لائیں؟ اس بڑی دشواری کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اجتماعی دانش کے نسخہ کیمیا کو اپنائیں اور دیکھیں کہ اس میں کتنی برکت ہے؟ دوسری صورت یہ ہے کہ ہم نظام کہنہ کی صورت میں زمین پر گرے ہوئے مردہ گھوڑے کو چابک مارتے رہیں اور اُمید رکھیں کہ وہ اُٹھ کر دوڑ پڑے گا۔ ایسا کبھی نہ ہوگا۔ قیامت تک نہ ہوگا۔
کالم ختم ہونے کے قریب آیا تو کالم نگار کے دل میں خیال آیا کہ وہ کیوں نہ ہمت کر کے بہادری کے گھوڑے پر سوار ہو جائے اور جان کی امان مانگتے ہوئے مجوزہ ایوانِ مصالحت و مشاورت کے سو اراکین میں ایک تہائی کے نام تجویز کرے (یہ محض ایک معصوم سفارش ہے) اور وہ نام ہیں۔ میاں ثاقب نثار‘وجیہہ الدین احمد‘ڈاکٹر عطا الرحمن ‘ ڈاکٹر فرخ سلیم‘ ناصر درانی‘ احمد اویس‘ ڈاکٹر اکمل حسین‘ڈاکٹرشاہد کار دار‘ ڈاکٹر صفدر محمود‘ ڈاکٹر شاہدہ وزارت‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ڈاکٹر میر ا فیلبوس‘ نعیم خالد لودھی‘ ڈاکٹر مجاہد منصوری‘ اشرف جہانگیر قاضی‘ محمد اظہار الحق‘ جاوید جبار‘ انصار برنی‘ڈاکٹر رسول بخش رئیس‘رضا ربانی‘ اعتزاز احسن‘ ناصرہ جاویداقبال‘ حامد خان‘ ڈاکٹر حسن عسکری‘ فاطمہ بھٹو‘ عبدالحئی بلوچ‘ میرزا اشتیاق بیگ‘ خلیل احمد نینی تال والا‘ قیصر بنگالی‘راشد رحمان‘ راجہ منور احمد‘ طاہرہ عبداللہ‘کنور محمد دلشاد۔ میں ایک مثال دے کر بات ختم کرتا ہوں۔ ان دنوں حکومت ہسپتالوں کے انتظام میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جو ڈاکٹروں کو اتنی ناپسند ہیں کہ وہ ہڑتالی بن کرپولیس کی لاٹھیاں کھا رہے ہیں۔ صرف مذکورہ بالا ادارہ ہی محکمہ صحت اور ڈاکٹروں کے درمیان صلح کروا سکتا ہے۔