قائداعظم کے پہلے چار جانشین …(2)

قدرت اللہ شہاب چوٹی کے سول سرونٹ ہونے کی وجہ سے یکے بعد دیگرے دو سربراہانِ مملکت‘گورنر جنرل ملک غلام محمد اور صدر جنرل ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری رہے۔ اُنہوں نے شہاب نامہ کے عنوان سے اپنی سوانح عمری لکھی۔ جب شہاب صاحب ایک رات محکمہ قانون کے تیار کردہ کاغذات لے کر ملک غلام محمد کے پاس گئے تو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا کیا حال تھا‘ آپ وہ شہاب نامہ میں پڑھ سکتے ہیں۔ وہ سطور یہاں نقل کی جاتی ہیں؛ ''خدا خدا کرکے ملک غلام محمد نے کسی قدر بیزاری سے فیڈرل (سپریم) کورٹ کا مشورہ تسلیم کر لیا اور ایک آرڈیننس کے ذریعے نئی قانون ساز اسمبلی قائم کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ جن دنوں آرڈیننس تیار ہو رہا تھا‘ گورنر جنرل نے مجھے حکم دیا کہ جس وقت بھی کاغذات مکمل ہو کر آجائیں‘ میں فوراً ان سے دستخط کروالوں۔ اگر وہ سوئے ہوئے ہوں تو انہیں جگا کر دستخط لے لیے جائیں۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا انتظار کرتا رہا۔ سارے کاغذات آدھی رات کے قریب موصول ہوئے۔ میں انہیں لے کر ملک غلام محمد کی خواب گاہ میں گیا۔ وہ اپنے بستر پر گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کا جسم بوسیدہ ہڈیوں کے ڈھانچہ کی طرح پلنگ پر ایسے بکھرا ہوا تھا جسے کسی پرانی قبر نے اپنے مردے کو اُگل کر باہر پھینک دیا ہو۔ میں نے ان کے ذاتی ملازم کی مدد سے بڑی مشکل سے انہیں جگایا۔ بیداری کی لہر ان کے تن بدن میں اس طرح رک رک کر‘ ٹھہر ٹھہر کر داخل ہوئی جیسے بہت سی چیونٹیاں روٹی کے ٹکڑے کو گھسیٹ گھسیٹ کر دیوار پر چڑھاتی ہیں اور وہ بار بار ان کی گرفت سے پھسل پھسل کر نیچے گرتا رہتا ہے۔ ملک صاحب کافی دیر تک اپنی پیلی پیلی آنکھیں جھکا کر خلا میں گھورتے رہے۔ پھر اچانک انہوں نے مجھے پہچانا اور اس کے ساتھ فوراً گورنر جنرل کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئے۔ پہلے انہوں نے وزارتِ قانون کو جلی کٹی سنائیں جو اتنی سست رفتاری سے کام کرتے ہیں کہ سربراہِ مملکت چین کی نیند بھی نہیں سو سکتا۔ پھر انہوں نے کاغذات پر دستخط کیے اور چائے کے ساتھ انڈے کا حلوہ تیار کرنے کا آرڈر دیا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اب سٹاف کو کچھ اور افراد کی بھی حاضری کا حکم دیا جائے گا اور اس کے بعد یہ محفل صبح تین چار بجے اس وقت برخاست ہوگی جب انہیں نیند آور ٹیکا لگا کر دوبارہ سلا دیا جائے گا‘‘۔
یہ ملک غلام محمد کی زندگی کے آخری سال تھے۔ انہیں کئی بیماریوں کا سامنا تھا۔ بڑھاپے اور فالج کی وجہ سے ان کی صحت روز بروز گر رہی تھی۔ وہ اپنے تکلیف دہ انجام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ اپاہج ہو جانے کے باوجود گورنر جنرل کے عہدے پر متمکن تھے۔ نہ وہ مستعفی ہونا چاہتے تھے اور نہ کسی شخص یا ادارے کے پاس اتنی ہمت اور بہادری تھی کہ وہ انہیں ان کی جسمانی معذوری (جس نے ان کی گویائی بھی سلب کر لی تھی) کے پیش نظر برطرف کر دیتا۔ مولوی تمیز الدین کیس میں کامیابی کے باوجود انہیں جو سیاسی دھچکا لگا تھا‘ اس کے پیش نظر وہ دوبارہ جوان ہونا چاہتے تھے تاکہ مرنے سے پہلے وہ زندگی کا کچھ لطف اٹھا سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے لکھنؤ سے ایک حکیم کو منگوایا۔ اس کی تیار کردہ خصوصی دوا کی تیاری کی تفصیل جاننے کے لیے ہم دوبارہ شہاب نامہ کی طرف رجوع کرتے ہیں:
''نئی اسمبلی قائم کرنے کا حکم مان کر ملک غلام محمد کے دلی عزائم کو شکست فاش نصیب ہوئی تھی کیونکہ وہ تو اپنی مرضی کا ساٹھ رکنی آئین ساز کنونشن معرض وجود میں لا کر کام چلانا چاہتے تھے۔ اس ذاتی ہزیمت کا غم غلط کرنے کے لیے انہوں نے اپنی کھوئی ہوئی جسمانی قوتوں کو بحال کرنے کی ٹھانی۔ لکھنؤ سے طلب کیے جانے والے حکیم کی عمر 105 برس بتائی جاتی تھی۔ حکیم صاحب کے آتے ہی گورنر جنرل ہائوس کا ایک حصہ طبی دوا خانہ میں تبدیل ہو گیا۔ دن بھر دستہ چلتا تھا اور حکیم کی فرمائش کے مطابق جڑی بوٹیاں حاضر ہوتی رہتی تھیں۔ دو تین بار اس نے 33 زندہ اور صحت مند چڑوں کی فرمائش کی جو ہم نے بڑی مشکل سے کمشنر حیدرآباد کے ذریعے سندھ کے مضافات سے حاصل کیے (یہ تھیں سربراہِ مملکت کے سیکرٹری کی اصل مصروفیات)۔ چڑوں کو ذبح کرنے کے بعد ان کا مغز تو کسی دوا میں استعمال ہوتا تھا اور گوشت کی یخنی بنا کر حکیم صاحب خود نوش فرما لیتے تھے۔ ایک بار حکیم نے بکری کا ایک ایسا بچہ طلب کیا جسے پیدا ہونے کے بعد آنکھیں کھولنے سے پہلے ذبح کیا گیا ہو۔ گورنر جنرل ہائوس کے کئی ملازم شہر کی حاملہ بکریوں کے سرہانے جا بیٹھے اورکسی نہ کسی طرح حکیم صاحب کی یہ فرمائش بھی پوری کی گئی۔ ان مغزیات اور مہمیات سے انواع و اقسام کی ادویات تیار ہوتی تھیں۔ جنہیں ملک غلام محمد کو بڑے اہتمام سے کھلایا جاتا تھا۔ اس کارروائی کا اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ البتہ ان کا بلڈ پریشر مزید بڑھ گیا اور ایک روز وہ اچانک بے ہوش ہو کر کوما میں چلے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر لکھنؤی حکیم اپنا بوریہ بستر سنبھال کر رفو چکر ہو گیا اور گورنر جنرل کو آکسیجن لگا دی گئی۔ ان کا ذاتی معالج دن رات ان کے پاس رہا۔ اگلے روز شام کو اس نے مجھے بتایا کہ گورنر جنرل کی زندگی کا چراغ گل ہونے کے قریب ہے۔ اس لیے میں وزیراعظم اور دوسرے وزیروں کو اطلاع دے دوں کہ اگر وہ ان کا آخری دیدار کرنا چاہتے ہیں تو وہ فوراً یہاں پہنچ جائیں۔ گورنر جنرل کی خوابگاہ کے دروازے کھول دیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا کمرہ کابینہ کے اراکین اور گورنر جنرل کے ذاتی عملہ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ جنرل ایوب خان کمانڈر انچیف ہونے کی حیثیت سے بستر کے پاس کھڑے ہو کر گورنر جنرل کو الوادعی سیلوٹ کیا اور اس کی تعریف میں چند فقرے کہے۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے وزیر بھی اس قسم کی الوداعی تقریریں کرنے کے لیے پرتول رہے تھے کہ یکایک غلام محمد کے منہ پر لگے آکسیجن کے ماسک میں کچھ جنبش ہوئی۔ پھر ایک ہاتھ ہلا اور پھر دوسرا۔ کرنل سرور نے خوشی سے اعلان کیا کہ گورنر جنرل ہوش میں آرہے ہیں۔ یہ سنتے ہی ساری کی ساری کابینہ سر پر پائوں رکھ کر بھاگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد گورنر جنرل تکیوں کے سہارے بیٹھے چائے پی رہے تھے اور کسٹرڈ پڈنگ کھا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے عملے کے ایک ایک فرد کو الگ الگ بلا کر تفتیش کر رہے تھے کہ ان کی بے ہوشی کے دوران کون شخص کتنا خوش تھا۔ (شہاب نامہ، ص: 656)۔
اس واقعہ کے بعد غلام محمد کی حالت میں بہتری نہ آئی اور وہ مسلسل صاحب فراش رہے۔ آخر کار انہیں علاج کے لیے زیورخ (سوئٹزرلینڈ) لے جایا گیا۔ جہاں ان کی طبیعت ذرا سنبھلی تو کچھ عرصہ کے بعد انہیں کراچی واپس لایا گیا۔ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گورنر جنرل کی حالت دیکھ کر صاف پتا چلتا تھا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ یہ کالم نگار ہر ممکن تحقیق کرنے کے بعد بھی معلوم نہیں کر سکا کہ ملک غلام محمد کو مملکت کے سب سے بڑے عہدے سے کس طرح فارغ کیا گیا؟ یہ ایک معمہ ہے؛ البتہ ایک بات پکی ہے کہ غلام محمد خود مستعفی نہ ہوئے کیونکہ ان کی ذہنی حالت انہیں استعفیٰ لکھنے کی بھی اجازت نہ دیتی تھی۔ قائداعظم کا دوسرا جانشین گورنر جنرل ہائوس سے نکل کر کراچی میں اپنی بیٹی کی گھر منتقل ہو گیا اور ایک سال بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ تدفین کے وقت کوئی وزیر یا افسر موجود نہ تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ آخری آرام گاہ کہاں ہے؟ صرف ان کی بیٹی اور اس کے سسرالی قبرستان گئے۔ اشکبار آنکھیں صرف چار تھیں۔ دو ان کی غم زدہ بیٹی کی اور دو اس سے بھی زیادہ غم زدہ سابقہ امریکی سیکرٹری کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں