چار کمال کے انگریز

پچھلے ہفتے کے کالم میں ہم نے دو غیر معمولی انگریز خواتین کو بھگتایا تھا۔ اب دو باکمال مردوں کی باری آتی ہے۔ پہلے کا نام تھا مائونٹ سٹورٹ ایلفنسٹن (Mountstuart Elphinstone)۔ مائونٹسٹورٹ 6 اکتوبر 1779 ء کو سکاٹ لینڈ میں ایک جاگیر دار اور موروثی لارڈ (اشرافیہ کے ایک رکن) کے گھر پیدا ہوا اور 20 نومبر1859 کو ‘ 80 برس کی عمر میں وفات پائی۔ وہ اپنے والدین کا چوتھا بیٹا تھا۔ تعلیم صرف ہائی سکول کے درجے تک پائی مگر حصولِ علم کا شوق تمام عمر اس حد تک رہا کہ اپنی ساری زندگی ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کرنے کے ساتھ کتابیں پڑھنے اور لکھنے پر صرف کر دی۔ وہ چار عمدہ اور معیاری کتابوں کا مصنف تھا جن میں سے ایک افغانستان کی تاریخ پر ہے اور باقی تین ہندوستان پر۔ایسٹ انڈیا کمپنی میں معمولی ملازمت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ترقی کرتے کرتے بمبئی صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوا اور یہ ذمہ داری آٹھ برس (1819-1827ء ) تک ادا کی۔ اس سے پہلے وہ مہاراشٹرمیں پونا کے مقام پر برطانوی حکومت کا سفیر تھا۔ اس کے دورِ سفارت میں انگریزوں کی مرہٹوں سے تیسری جنگ ہوئی جس میں مرہٹوں کو شکست ہوئی اور مغربی ہندوستان میں مرہٹہ سلطنت پر انگریز غالب آ گئے۔ ایلفنسٹن نے عسکری تعلیم و تربیت یا تجربہ حاصل کیے بغیر برطانوی فوج کی بہت عمدہ قیادت کی۔ اُن دنوں صوبہ سندھ بھی بمبئی کا حصہ تھا۔ کراچی کی ایک معروف سڑک کا نام ایلفنسٹن سٹریٹ تھا جواب زیب النسا سٹریٹ کہلاتی ہے۔ ایلفنسٹن نے دو بار ہندوستان میں برطانوی راج کے سب سے بڑے عہدے (گورنرجنرل) کو قبول کرنے سے محض اس لیے انکار کر دیا کہ وہ دو جلدوں پر مشتمل ہندوستان کی تاریخ لکھنے میں مشغول تھا۔ (کالم نگار ابھی تک اس کتاب کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکا مگر تگ و دو جاری ہے)۔ بمبئی میں اپنی گورنری کے دوران اس نے تعلیمی اداروں کا جال بچھایا اور سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں کو فروغ دے کر مقامی آبادی کے دل جیت لیے۔ اس کی وفات کے بعد برطانوی حکومت نے اس کی شاندار اور فقید المثال خدمات کا اعتراف کرنے کیلئے لندن کے دوسرے اہم ترین گرجا گھر (St. Paul's Cathedral) میں اس کا سنگ مرمر کا مجسمہ نصب کرایا۔ آسٹریلیا میں دو نئے شہربنائے گئے تو اُن کا نام مائونٹسٹورٹ رکھا گیا۔ اس کے دورِ اقتدار کے 25 برس بعد اس کا بھتیجا (John) بمبئی کا گورنر بنا تو اس نے وہاں کا مشہور ریلوے سٹیشن تعمیر کرا کے اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیا۔ مغل بادشاہوں کی طرزِ حکمرانی کے برعکس مائونٹسٹورٹ نے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور ان خدمات کے آثار (دو سو سال گزر جانے کے بعد بھی) کراچی اور بمبئی میں نظر آتے ہیں۔
اب ہم دوسرے باکمال برطانوی شخص کی طرف چلتے ہیں۔ مشرقی یورپ کے ملک ہنگری میں Pest نامی بستی میں متوسط درجے کے ایک یہودی گھرانے میں 16 اکتوبر 1840 کو ایک بچہ پیدا ہوا تو اُس کا نام Gottlieb Wilherm رکھا گیا۔ اُس کے والد بچپن میں ہی وفات پا گئے۔ والدہ نے دوسری شادی کی تو اس بچے کے نام میں اپنے سوتیلے باپ کے نام (Leitner) کا اضافہ ہوگیا۔ بچپن ہی سے اس میں مختلف زبانیں سیکھنے کی صلاحیت اتنی نمایاں تھی کہ والدین نے آٹھ سال کی عمر میں ترکی بھیج دیا تاکہ وہ ترکی اور عربی زبانیں سیکھ سکے۔ اگلے سات برس میں اس بچے نے نہ صرف ترکی اور عربی بلکہ کئی یورپی زبانوں پر بھی اتنا عبور حاصل کر لیا کہ اُسے Crimea میں لڑی جانے والی جنگ (جو روس اور ترکی و اتحادیوں کے درمیان لڑی گئی تھی) میں کرنل کا عہدہ دے کر سرکاری مترجم بنا دیا گیا۔ کالم نگار نے اس حوالے سے کچھ تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ مسلم ممالک میں طویل قیام کے دوران اس نے اسلام قبول کر لیا تھا مگر اس تبدیلی ٔ مذہب کو چھپائے رکھا۔ اس نے اپنا مسلم نام عبدالرشید سیاح رکھا۔شاید یہ بات ناقابلِ یقین لگے مگر یہ سچ ہے کہ یہ شخص پچاس کے قریب زبانوں میں بات چیت کر سکتا تھا اور بیشتر میں اسے خاصی مہارت حاصل تھی۔ محض 19 برس کی عمر میں وہ ایک کالج میں ترکی‘عربی اور جدید یونانی زبانوں کا اُستاد بنا اور 23 سال کی عمر میں لندن کے ایک بلند پایہ تعلیمی ادارے ''کنگز کالج‘‘ میں عربی زبان اور اسلامی قانون کا پروفیسر بنا دیا گیا۔ تین سال بعد (1864ء کے لگ بھگ) اُس نے لاہور میں گورنمنٹ کالج کی بنیاد رکھی اور اس کا پہلا پرنسپل بنا۔ اس کالج (جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے) نے اندرون شہر میں دھیان سنگھ حویلی میں اپنے سفر کا آغاز اس طرح کیا کہ ابتدا میں یہ کلکتہ یونیورسٹی سے وابستہ تھا۔ نو طالبعلموں اور تین اساتذہ کے ساتھ اس کا آغاز ہوا مگر آگے چل کر یہ ادارہ شمالی مغربی ہندوستان کا سب سے بلند مرتبت تعلیمی ادارہ بنا۔ 1882ء میں Leitner نے پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور اس کا پہلا رجسٹرار بنا۔ اُس نے بیشمار تعلیمی ادارے قائم کیے۔ لاتعداد لائبریریاں اور عالمانہ جریدے اور ادبی انجمنیں ان کے علاوہ ہیں۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود اُس نے اُردو زبان میں ''اسلام کی تاریخ‘‘ (دو جلدیں) لکھی۔ مولوی کریم الدین نے اس کام میں معاونت کی جو امرتسر میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز تھے۔ 1870ء کی دہائی میں وہ یورپ واپس چلا گیا تاکہ جرمنی کی ہائیڈرل برگ یونیورسٹی (جہاں علامہ اقبال نے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی) میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔ 1881ء میں برطانیہ گیا اور برطانوی شہریت حاصل کرنے کے بعد مغربی لندن کے مضافات میں Woking کے مقام پر مغربی یورپ میں پہلی مسجد 1889ء میں تعمیر کرائی۔ مسجد کا نام وسطی ہندوستان کی ریاست بھوپال کی حکمران قانون سلطان شاہ جہان بیگم کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے مسجد کی تعمیر کے زیادہ تر اخراجات برداشت کیے تھے۔ اس علم دوست شہزادی؍ ملکہ نے علی گڑھ میں ''محمڈن اینگلو اورینٹل کالج‘‘ (جو بعد میں یونیورسٹی بنا) بنانے میں بھی بڑی فیاضی سے مالی مدد کی تھی۔ Leitner کا ایک روشن کارنامہ یہ ہے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے پنجاب کے سکولوں میں طلبہ و طالبات کو اُن کی مادری زبان (پنجابی) پڑھانے کی افادیت پر زور دیا اور دس معیاری کتابیں لکھیں جو آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ 22 مارچ 1899 ء کو وفات پا جانے والے اپنے وقت کے سب سے بڑے زبان دان کو Woking کے قریب یورپ کے سب سے بڑے قبرستان Brookwood میں دفن کیا گیا۔ اس کے مقبرے پر نصب کتبے کے مطابق اس کی رفیقہ حیات (وفات 1912 ئ) اور ایک بیٹا (جو 1869ء میں لاہور میں پیدا ہوااور 1945 ء میں لندن میں وفات پاگیا) بھی یہیں مدفون ہیں۔ برطانیہ کے یہودی یہاں آباد لاکھوں مسلمانوں کو اس حقیقت سے باخبر کرنے سے نہیں تھکتے کہ برطانیہ میں پہلی مسجد اُن کے ایک ہم مذہب نے بڑی محنت اور لگن سے بنوائی تھی۔ جو آج بھی بفضل تعالیٰ آباد ہے اور اپنے غیر معمولی تاریخی پس منظر کی وجہ سے ہزاروں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
کالم کے عنوان کے تحت کالم نگار پر چار باکمال افراد کے تعارف کی پابندی ہے مگر جب کچھ جگہ بچ گئی تو مناسب سمجھا کہ خود کو کچھ رعایت دیتے ہوئے اُس پانچویں فرد کا بھی مختصراً ذکر کر دوں جو عنوان کے مطابق‘ ایک باکمال انگریز تھا۔ یہ تھے پروفیسر A.C. Woolner ۔ اُنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھی اور 1903ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنے جب اُن کی عمر صرف 25 برس تھی۔ 1928ء سے 1935ء تک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ دسمبر جنوری1936 ء میں ملیریا اور نمونیا کے مرض نے اُن کی جان لے لی ۔ وہ جیل روڈ لاہور کے گورا قبرستان میں دفن کیے گئے۔ اُن کی بیوی نے سنسکرت زبان میں اُن کی 8500 نایاب کتابوں کی ذاتی لائبریری پنجاب یونیورسٹی کو عطیہ کر دی تھی۔ 75 سالوں کے بعد بھی یہ کتابیں مقفل پڑی ہیں اور کیڑوں‘ مکوڑوں کی خوراک بنی ہوئی ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ ہم وہ بھارت کی کسی اچھی یونیورسٹی (مثلاً بنارس کی ہندو یونیورسٹی) کو ہی تحفتاً دے دیں۔ پورے پاکستان میں صرف اسی ایک انگریز کا مجسمہ آج بھی وہاں نصب ہے جہاں وہ 85 برس پہلے نصب گیا تھا اور وہ جگہ ہے مال روڈ لاہور پر زمزمہ توپ کے سامنے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں