ماہِ جون آیا اور گزر گیا مگر انگریزوں کے دل و دماغ سے بے پایاں خوشی اور چہروں سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوئی۔ ماہِ رواں کے پہلے ہفتے میں برطانیہ میں دھوپ نکلنے اور بارش نہ ہونے کا نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ کئی مقامات پر درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ متوسط طبقے کے افراد‘ جو برطانوی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں‘ سارا سال کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے اتنی رقم بچا لیتے ہیں جس سے موسم گرما میں بیرونی سفر کے اخراجات ادا ہو جائیں۔ وہ دو‘ تین ہفتوں کیلئے مختلف ملکوں مثلاً سپین‘ پرتگال‘ جنوبی فرانس‘ ترکیہ‘ اور اگر جیب میں زیادہ رقم ہو‘ تو مشرق بعید میں تھائی لینڈ‘ ویتنام‘ انڈونیشیا‘ بھارت یاسری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان وغیرہ چلے جاتے ہیں۔ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو گھرانہ (اوسطاً چار افراد پر مشتمل) کم از کم دو‘ ڈھائی ہزار پائونڈ خرچ کر کے مندرجہ بالا مقامات پر پہنچا‘ برطانیہ میں اپنے عزیز و اقارب کو فون کر کے اپنی خیر خیریت کی خبر سنائی اور ''پس ماندگان‘‘ کو رشک (برطانوی مزاج میں حسد کی آگ کے امکانات صفر یا نہ ہونے کے برابر ہیں) میں مبتلا کرنے کیلئے سیر گاہوں کی دلفریب تفصیلات کیساتھ چمکدار دھوپ اور میلوں تک پھیلی ہوئی چمکیلی ریت جیسی نعمتوں بارے آگاہ کیا تو دُوسری طرف سے یہ آواز سنائی دی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان دنوں برطانیہ پر بھی سورج روزانہ آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ بادلوں کا نام و نشان نہیں‘ سو برطانیہ میں ہر ہفتے ایک دو بار (شمالی انگلستان ہو تو دن میں ایک‘ دو بار) بارش ہو تو کیونکر؟
سیر و سیاحت کرنے والا گھرانہ سارا سال رقم پس انداز کر کے کسی غیر ملک کے ساحل سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینے پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ ابھی یہ Celebration جاری ہوتی ہے کہ پتا چلتا ہے کہ برطانیہ میں درجہ حرارت اور سورج کی روشنی کے اوقات سپین‘ پرتگال‘ ترکیہ یا اٹلی جیسے ممالک سے کئی درجہ زیادہ ہیں۔ جون مکمل اور جولائی کے شروع کے دن اسی طرح گزرے جسے انگریزی میں کہتے ہیں: Basking Under Sunshine۔ میں نے یہ جملہ لکھا تو ذہنی اُفق پر چمکدار دھوپ کے حوالے سے ایک اور انگریزی محاورہ نمودار ہوا: Make Hay while the Sun shines، یعنی جب دھوپ نکلی ہو تو (ہر سیانے) کاشتکار کو اس سے فائدہ اُٹھا کر گھاس کو سکھا کر (Hay میں تبدیل کر کے) مال مویشیوں کو (سردیوں میں) خوراک مہیا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ سلیس زبان میں مطلب یہ ہے کہ قدرت جو موقع دے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائو۔ دھوپ نکلی ہو اور سورج چمک رہا ہو تو خبریں سننے یا ٹی وی پر پرلے درجے کی بیکار باتیں سننے میں اپنا قیمتی وقت ضائع ہرگز نہ کریں۔ آسمان کے ابر آلود ہو جانے اور دھوپ کے غائب ہو جانے سے پہلے اپنا مرطوب گھاس سکھا لیں اور سنبھال لیں۔ سانپ کے گزر جانے کے بعد آپ لکیر پیٹ سکتے ہیں یا اپنا سر۔ دونوں کو خوشگوار کارروائی نہیں کہا جا سکتا۔
76 سال پہلے ہمارا پیارا ملک معرضِ وجود میں آیا تو یہاں وہ تمام قدرتی وسائل موجود تھے جو ہماری خوشی اور خوشحالی کا باعث بن سکتے تھے۔ آسمان پر چمکتا ہوا سورج‘ چار موسم‘ بہتے ہوئے پچیس سے زائد ‘ بڑی شان و شوکت سے بہتے ہوئے دریا۔ (عمومی طور پر پاکستان کو پانچ دریائوں کی سرزمین سمجھا جاتا ہے‘ یعنی سندھ، جہلم، راوی، چناب اور ستلج مگر ہم کے پی‘ جی بی اور کشمیر کے دریائوں کو بھول جاتے ہیں؛ سوات، کنہار، کابل، استور، گومل، حب، ہنزہ اور شگر وغیرہ) پاک سرزمین پر سایۂ خدائے ذوالجلال اور فضائوں میں اُڑتا ہوا ہمارا پرچمِ ستارہ و ہلال۔ وطن عزیز قوتِ اُخوتِ عوام سے معرض وجود میں آیا۔ برا ہو ان حکمرانوں کا‘ اس حکمران طبقے کے ہر مجرم فرد کا‘ جنہوں نے عوام کو اُسی طرح کی رعایا میں تبدیل کر دیا جیسے وہ دو سو سال انگریزوں کے راج میں تھے۔ بے آواز‘ بے بس و لاچار‘ ستم رسیدہ اور زخموں سے نڈھال۔ اُن سے پہلے مغلوں کے دورِ حکومت میں۔ اُن سے پہلے تغلق‘ لودھی‘ غوری اور دُوسرے سلاطین کے ادوار میں۔ تاریخ کی ایک ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ ایک بار ایسا ہوا کہ ہندوستان میں کروڑوں افراد پر حکومت کرنے والوں اور اُنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے والوں کا اپنا تعلق بھی خاندانِ غلاماں سے تھا۔ یعنی ہم غلاموں کے غلام تھے۔ غیر ملکی حکمران اپنے مقامی وفادار کارندوں کے ذریعے ہم پر حکومت کرتے تھے۔ بدقسمتی سے صورتحال ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی۔ گزری تین چوتھائی صدی میں پاکستان کا حکمران طبقہ اجتماعی طور پر مغربی سامراج (خصوصاً امریکہ) کی غلامی کا دم بھرتا نظر آیا۔غالبؔ کے الفاظ میں شاہ کا مصاحب بن کر اِتراتا پھرتا۔ ہم خود فریبی کا شکار ہو کر ہر سال اگست میں یومِ آزادی مناتے ہیں حالانکہ پاکستان کے کروڑوں عوام برطانیہ اور امریکہ کی سیاسی و معاشی اور تہذیبی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں لٹکانے پر مجبور ہیں۔ میں آج کے کالم میں برطانیہ سے جڑی ہوئی تین اہم خبریں اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ ان تینوں کا آپس میں کوئی منطقی تعلق نہیں‘ ماسوائے یہ کہ وہ ثابت کرتی ہیں کہ اقبالؔ نے سو برس پہلے جو لکھا تھا‘ وہ سو فیصد سچ ثابت ہوا۔ اُن کا شعر حسبِ ذیل ہے:
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محو نالۂ جرسِ کارواں رہے
ایشیا‘افریقہ اور لاطینی امریکہ پر مشتمل تین براعظموں کا آپ ان سے رقبے اور آبادی میں سینکڑوں گنا چھوٹے براعظم (یورپ) سے مقابلہ کریں تو دیکھیں گے کہ ماسوائے جاپان‘ چین‘ (شمالی اور جنوبی) کوریا اور رُوس‘ یہ تینوں براعظم بدستور تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ نہ معاشی ترقی نہ سیاسی ارتقا اور نہ ہی استحکام۔ نہ ایجادات نہ سائنسی ترقی۔ ان تین براعظموں کے تین چوتھائی سے بھی زیادہ ممالک اپنی زرعی پیداوار یا اپنے قدرتی وسائل اور معدنیات (مثلاً تیل) برآمد کر کے اپنا کام چلاتے ہیں۔ دُوسری طرف یورپ ہے کہ ہر میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھ رہا ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ سمندروں کی گہرائی میں اُتر کر بحری زندگی کے نئے راز منکشف کر رہا ہے۔ قطب شمالی سے لے کر قطب جنوبی تک سارے کرئہ ارض پر اپنی تحقیق و تفتیش اور علمی جستجو کو پھیلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے تیسری دنیا میں رہنے والے لوگوں اور یورپی اقوام میں فاصلہ ہر ماہ اور ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ مسلم ممالک کا ہلالی خطہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ سب مل کر یورپ کے ایک ایسے ملک کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے جو رقبے اور آبادی میں کراچی اور لاہور سے بھی چھوٹا ہو۔ تین اہم خبروں کا خلاصہ بیان کرنے پر اکتفا کیا جائے گا۔ اوّل: برطانوی پارلیمنٹ ان دنوں اس سوچ بچار میں مصروف ہے کہ بغاوت کے 650 سالہ پرانے قانون میں کس طرح دورِ جدید کے مطابق ترمیم کی جائے۔ دُوسری طرف ہم ہیں‘ جو صدیوں پرانے انگریز کے بنائے ہوئے دورِ غلامی کے قوانین کو جوں کا توں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نظام انصاف میں نہ انصاف ہے اور نہ نظام۔ دُوسری خبر یہ ہے کہ ایک شخص نے‘ جو پیشے کے اعتبار سے فرنیچر فروخت کرتا ہے‘ 25 ہزار سال پہلے (پتھر کے زمانے کی) پتھروں پر کھدی ہوئی تصویروں کی زبان پڑھنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو ہزاروں ماہرین آثارِ قدیمہ بھی سرانجام نہ دے سکے۔ تیسری خبر نہایت اہم ہے۔ فرانس میں Alps پہاڑ کے دامن میں35 ممالک (بشمول چین اور روس) نے اربوں ڈالر خرچ کر کے جو جدید ترین تجربہ گاہ بنائی ہے‘ اُس نے چھ ماہ قبل ایٹمی تحقیق کا ایک نیا اُفق فتح کر لیا۔ امریکہ نے جرمن سائنس دانوں کے تعاون سے قریب 78 برس پہلے ایٹمی ہتھیار بنائے اور دُوسری عالمی جنگ میں جاپان کو نشانہ بنایا۔ اب سائنسدانوں نے ایٹمی Fusion کا بھی کامیاب تجربہ کرلیا ہے۔ اس سے توانائی کے حصول کا ایک بہت بڑا مآخذ دریافت ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ اس خبر سے ہی دُنیا بھر میں دو ارب کے قریب مسلمان اندھیرے سے روشنی کی طرف اپنے طویل سفر کا پہلا قدم بڑھائیں۔