برصغیر کا سب سے بڑا اشتراکی دانشور

تاریخ یاد نہیں‘ مگر مہینہ تھا مارچ اور سال 1964ء۔ ڈیڑھ برس پہلے میں ملک کے ایک بڑے اخبار کے چار اعلیٰ افسروں میں سے ایک کی کرسی پر بیٹھنے آیا تھا مگر اُس دن (ادارے کے مالک) چودھری ظہور الٰہی سے اُصولی اختلاف کے بعد استعفیٰ دے کر دفتر سے باہر نکل گیا۔ قدم غیر ارادی طور پر لاہور کے ریگل چوک کی طرف بڑھتے رہے‘ جو زیادہ دور نہ تھا۔ خالی الذہن‘ مستقبل کے حوالے سے یکسر بے یقینی۔ فیروز سنز کے باہر جا کر میں رُک گیا۔ سوچا کہ کتابوں کی ورق گردانی کی جائے۔ اُردو‘ انگریزی کتابیں سرسری دیکھتا ہوا شو روم کے دوسرے کنارے پر پہنچا تو وہاں سید سبط حسن نظر آئے۔ میں اُن کی طرف بڑھا۔ شکر ہے کہ اُنہوں نے مجھے پہچان لیا اور اپنے کتابوں سے بھرے ڈیسک کی طرف لے گئے۔ مجھے بٹھایا‘ چائے پلائی‘ اپنا پائپ سلگایا اور پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ میں نے ساری کتھا مختصر الفاظ میں بیان کر دی۔ وہ خاموشی سے سننے اور پائپ پیتے رہے۔ اتنی دیر میں ایک صاحب اُن کے پاس آئے۔ سبط حسن صاحب نے میرا تعارف کراتے ہوئے اُن صاحب کے بارے میں بتایا کہ یہ ڈاکٹر وحید ہیں‘ فیروز سنز کے مالک (جسٹس جاوید اقبال کی اہلیہ اور ہائیکورٹ کی سابق جج ناصرہ جاوید کے والد)۔ سبط حسن صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ آپ نے ادارے میں جس قسم کے شخص کی ضرورت کا مجھ سے تذکرہ کیا تھا‘ وہ خود ہی چل کر آپ کے پاس آگیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجھے اپنے دفتر لے گئے اور پندرہ بیس منٹ اُن کے سوالات اور میرے جوابات میں گزرے اور پھر ڈاکٹر صاحب نے میری تقرری کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ پچھلے دو گھنٹوں سے میرے ذہن پر جو بوجھ تھا‘ وہ آناً فاناً اُتر گیا۔ میں سبط حسن صاحب کے پاس گیا اور اُن کا شکریہ ادا کیا کہ اُن کے توسط سے میرے روزگار کا مسئلہ حل ہوا اور وہ بھی جھٹ پٹ اور اتنی خوس اسلوبی سے۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ اب تو روزانہ ملاقات ہوا کرے گی۔ اگلے دن میں صبح نو بجے اپنے نئے دفتر پہنچا تو دیکھ کر خوش ہوا کہ میری میز سبط حسن صاحب کے ڈیسک کے قریب رکھی تھی۔ وہ سارا دن سر جھکائے لکھائی پڑھائی کا کام کرتے رہتے۔ میں اپنے اُوپر جبر کرتا اور اُن کے کام میں ہرگز مخل نہ ہوتا۔ وہ چائے پینے لگتے تو بکمال مہربانی مجھے بلا لیتے۔ خاص طور پر اُس وقت جب فیض صاحب اُنہیں ملنے آتے‘ میں کوشش کر کے جلد اُٹھ کھڑا ہوتا تاکہ ان کی ملاقات میں خلل نہ ڈالوں۔ جب کام سے تھک جاتا تو کتابیں دیکھنے لگتا۔ اچھی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں تھیں۔ ڈاکٹر وحید صاحب‘ خدا ان کی مغفرت کرے‘ انہوں نے بڑے صبر سے مجھے برداشت کیا۔ شاید وہ بھی سوچتے ہوں کہ میں نے غلط فیصلہ کر لیا کہ یہ شخص دفتری کام تو کرتا نہیں‘ جب دیکھو کتابوں کی ورق گردانی کر رہا ہوتا ہے۔ تین ماہ اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن میں حسبِ معمول کتابیں دیکھ رہا تھا کہ نظر برطانوی آئین پر ایک نئی کتاب پر پڑی۔ میں اُسے شیلف سے اپنی طرف کھینچنے لگا تو مزاحمت ہوئی۔ دوسری جانب سے ایک ہاتھ اُسے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ میں نے کتاب چھوڑ دی اور دوسری جانب دیکھنا چاہا کہ میرا رقیب کون ہے؟ کتاب ہاتھ میں تھامے ایک انگریز کھڑا مسکرا رہا تھا۔ بات چیت ہوئی تو اُس نے بتایا کہ وہ ایچیسن کالج کے سینئر سکول کا ہیڈ ماسٹر ہے۔ میں اُسے چائے پلانے اپنی میز کی طرف لے گیا۔ مہمان نے پوچھا کہ آپ پاکستان ٹائمز میں نوکری سے پہلے کیا کرتے تھے؟ میں نے بتایا کہ علم سیاسیات پڑھاتا تھا اور اپنی تعلیم کے بارے میں بتایا۔ مہمان کچھ دیر خاموش رہا اور پھر پوچھا: کیا آپ ایچیسن کالج میں یہ مضمون پڑھانا پسند کریں گے؟ فوراً اثبات میں جواب دیا۔ جب وہ شخص کالج جانے کیلئے گاڑی میں بیٹھا تو میں اُس کے ساتھ تھا۔ جتنی دیر ہم نے کالج کے ایک حصہ کی سیر کی‘ میرا تقرر نامہ ٹائپ ہو گیا۔ میں فیروز سنز واپس آیا اور ڈاکٹر وحید اور سبط حسن صاحب سے اجازت لی۔ اگر مری میں دیہی ترقی کے محکمہ میں میری دس ماہ کی ملازمت کو بھی شمار کیا جائے تو چھ سالوں میں یہ میری پانچویں ملازمت تھی۔ ایچیسن کالج میں تین طلبہ کو اے لیول کے درجہ پر سماجی علوم پڑھانا ایک پُرلطف تجربہ تھا مگر منفی پہلو یہ تھا کہ میں سبط حسن صاحب کی رفاقت اور ہمسائیگی سے محروم ہو گیا۔ اُن کی عالمانہ گفتگوسے محرومی ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ اس قدر طویل تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ یہ بتایا جا سکے کہ میں سبط حسن صاحب سے کیسا ملا اور کیسے جدا ہوا؟ تین برس بعد برطانیہ چلا آیا تو تجدیدِ ملاقات کے رہے سہے امکانات بھی جاتے رہے مگر میں اُن کی شائع ہونے والی ہر کتاب پڑھتا اور پھر وہ رشتہ قائم ہوا جو مصنف اور قاری کے مابین ہوتا ہے۔
متحدہ ہندوستان میں اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ‘ تحصیل امباری‘ موضع کشاہا میں 31 جولائی 1916ء کو ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام سبط حسن رکھا گیا۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کالج داخل ہوئے تو امرناتھ جھا اور فراق گورکھپوری جیسے بڑے ادیب اور دانشور اُن کے اساتذہ میں شامل تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا‘ اعلیٰ تعلیم امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے والدین متمول اور خوشحال تھے۔ ہندوستان واپس آئے تو 1942ء میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے۔ 1948ء میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ وہ پہلے نیا ادب اور پھر (ہفت روزہ) لیل ونہار کے مدیر رہے۔ 20 اپریل 1986ء کو ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں شرکت کے بعد پاکستان جاتے ہوئے نئی دہلی رکے تو حرکتِ قلب بند ہو جانے سے وہیں وفات پائی۔ ان کی وفات سے دہلی سے کراچی اور برطانیہ سے امریکہ تک صفِ ماتم بچھ گئی۔ اُن کی دائمی شہرت اور مارکسی ادب میں بلند مقام کی وجہ وہ کمال کی کتابیں ہیں‘ جو اُنہوں نے لکھیں اور اپنا علمی درجہ منوایا۔ تاریخ‘ مارکسی نظریات اور سماجی علوم پر اُن کی گرفت بے مثال تھی۔ اُن کی بارہ کتابوں کے نام یہ ہیں: (1) موسیٰ سے مارکس تک (2) ماضی کے مزار (3) شہر نگاراں (4) پاکستان میں تہذیب کا ارتقا (5) انقلابِ ایران (6) نویدِ فکر (7) افکارِ تازہ (8) ادب اور روشن خیالی (9) سخن در سخن (10) پاکستان میں نظریات کی جنگ (11) بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھی (12) مارکس اور مشرق۔
1951ء میں راولپنڈی سازش کیس میں سبط حسن بھی گرفتار کیے گئے تھے۔ 1952ء میں کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند‘ دونوں کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ ایوب خان کے مارشل لاء دور میں پروگریسو پیپرز پر قبضہ کر کے اسے چودھری ظہور الٰہی کے سپرد کیا گیا تو سبط حسن لیل ونہار کی ادارت سے مستعفی ہو گئے‘ پاکستان ٹائمز کے مظہر علی خان اور امروز کے احمد ندیم قاسمی بھی۔ میرا ارادہ تھا کہ میں سید سبط حسن کی خوبیاں بیان کروں مگر جب سکینہ زینب کی سبط حسن پر لکھی ایک بہت اچھی اور جامع کتاب (مرتبہ: ڈاکٹر جعفر احمد) کو ورق ورق پڑھا تو احساس ہوا کہ میں اس میں شائع ہونے والے 32 بہترین مضامین میں کسی ایک کے معیار تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اختتام سبط حسن کے بارے میں اسی کتاب کی چند سطور پر ہو گا۔
''وہ ایک تہذیبی انسان تھے جنہوں نے ایک ہمہ جہت زندگی گزاری۔ ان کی بنیادی شناخت ایک مارکسی مفکر کی تھی۔ وہ پاکستان میں مارکسی فکر کے سب سے بڑے قلمکار اور شارح تھے۔ اُنہوں نے اپنی اُردو اور انگریزی تحریروں میں ایک اشتراکی کی حیثیت سے ماضی اور خود اپنے عہد کے مختلف سماجی وسیاسی پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ ان کا طرۂ امتیاز معروضی اندازِ فکر تھا۔ وہ سائنسی نقطہ نظر سے چیزوں کو دیکھتے اور پرکھتے تھے اور ایسا کرتے وقت وہ سماجی علوم کے مضامین سے استفادہ کرتے تھے۔ وہ مابعد الطبیعات‘ مذاہب عالم‘ کلاسیکی اور جدید فلسفہ اور سائنسی افکار‘ سب کے مطالعہ کی کوشش کرتے لیکن ان کا قدیم اور جدید افکار کو پرکھنے کا تجزیاتی انداز خالص مارکسی تھا۔ اُنہوں نے قدیم تہذیبوں کے نظامِ فکر کا جائزہ ان تہذیبوں میں مروج پیداواری قوتوں اور صلاحیتوں کی روشنی میں لیا‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں