مجھے نہیں یاد‘ کشمیر پالیسی پربھارت میں سرگرم سیاسی پارٹیوں میں سے کسی نے بھی‘ حکومتی پالیسی کے خلاف بیان دیتے ہوئے‘ ظلم و جبر اور ریاستی دہشت گردی ختم کر کے‘ مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین سے مذاکرات کا مشورہ دیا ہو۔ لیکن پاکستان میں ریاست کے باغیوں سے مذاکرات کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کا مطلب کیا ہے؟ طالبان نے یہ پیش کش کرتے ہوئے ایسے کسی معاملے میں نرمی اختیار کرنے کا اشارہ تک نہیں دیا‘ جو ان کے اور ریاست پاکستان کے مابین وجہ اختلاف ہے۔ پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پاکستان اور طالبان کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟ تحریکِ طالبان پاکستان نے ہمارے وطن اور ہماری قوم کے خلاف کُھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔یہ اعلانِ جنگ یکطرفہ ہے۔انہوں نے پاکستان کے جن علاقوں پر ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے‘ وہاں وہ پاکستان کی حاکمیت تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنے قوانین نافذ کر رکھے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری ملازمین اور سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت‘ ان کے زیرِتسلط علاقوں میں ممنوع ہے اور اگر کوئی پاکستانی گاڑی یا فوجی دستہ وہاں سے گزرتا ہے‘ تو اس پر بزدلوں کی طرح چھپ کر حملہ کر دیا جاتا ہے اور ان اچانک حملوں میں اگر پاکستان کے وفادار سپاہی ان کی گرفت میں آتے ہیں‘ تو انہیں ایسی بے رحمی سے شہید کیا جاتا ہے کہ صہیونی بھیڑیئے‘ مظلوم فلسطینیوں کو بھی نہیں کرتے ہوں گے۔ وہ ہمارے سپاہیوں اور افسروں کو مجمعے کے سامنے پیش کر کے ان کی تذلیل کرتے ہیں‘ پاکستان کی تذلیل کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں سزائیں سنا کر‘ ان کی گردنیں کاٹتے ہیں اور کٹے ہوئے سر میزوں پر رکھ کر دیر تک لوگوں کو دکھاتے رہتے ہیں۔ سوات کا مولوی فضل اللہ جو ان دنوں افغانستان میں پناہ گزین ہے‘ وہ تحریک طالبان پاکستان کا اتحادی ہے۔ آج بھی وہ اپنے حامیوں کی مدد سے ہماری سرحدوں کے اندر گُھس کر حملے کرتا ہے۔ مقامی آبادیوں کو ہراساں کرتا ہے اور ہمارے سرحدی محافظوں کو اچانک حملے میں گرفتار کر کے سرحد پار لے جاتا ہے اور پھر تحریکِ طالبان پاکستان کی طرح‘ لوگوں کے سامنے ان کی تذلیل کرتا ہے۔ انہیں زمین پر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی وردی کی توہین کی جاتی ہے اور پھر انہیں سزائیں سنا کر‘ ان کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ اس بھیانک منظر کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اور وحشت و درندگی کے یہ سارے مناظر یُوٹیوب پر دکھا کر پاکستانیوں کے دلوں پر زخم لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے جو سیاسی عناصر ان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مشورے دیتے ہیں‘ کیا انہوں نے وحشت و بربریت کے یہ مناظر دیکھے نہیں؟ کیا انہوں نے اخبارات میں بھی نہیں پڑھا؟ کیا انہوں نے کسی سے سُنا بھی نہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے وحشی اور درندے جنگجو‘ پاکستان کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں؟ پاکستان کے سکیورٹی کے اہلکاروں اور فوجیوں پر وہ کس طرح حملے کرتے ہیں؟ اور اگر وہ غالب آ جائیں تو ان کے ساتھ کیسی بے رحمی کا سلوک کیا جاتا ہے؟ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستانی طالبان ہمارے ملک کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔وہ اسے ایک ایسا علاقہ سمجھتے ہیں‘ جہاں قبضہ جما کر وہ اپنے قوانین نافذ کرنے کے حق دار ہیں۔ اسلام کی جو تعبیر وہ کرتے ہیں‘ اسے بزورِقوت نافذ کر کے بالجبر عملدرآمد کرانا چاہتے ہیں۔ ہمارے آئین کو وہ نہیں مانتے۔ ہماری عدلیہ کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے ریاستی اداروں کے اختیارات کو وہ خاطر میں نہیں لاتے اور ہمارے قومی پرچم کو سلام کرنا‘ انہیں گوارا نہیں۔ یہ تمام حرکتیں‘ ریاست سے کُھلی بغاوت کا ثبوت ہیں اور ایسے ہر باغی کے لئے ہمارا آئین سزائے موت کا حکم دیتا ہے اور اگر وہ ہماری سکیورٹی فورسز کے قابو میں نہیں آتا تو پھر پاکستان کی سلامتی کے تمام آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق اس کے ساتھ لڑنا ہمارا فرض ہے۔ ہم صرف ایک صورت میں اسے چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ غیرمشروط طور پر پاکستان دشمن نظریات سے دستبردار ہو کر‘ دہشت گردی کا راستہ چھوڑے اور پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہوئے‘ ہمارے آئین اور ہماری عدلیہ کو صدقِ دل سے تسلیم کرے۔اگر یہ شرائط پوری کئے بغیر کوئی ایسا گروہ‘ جو ہماری ریاست کی رٹ کو نہیں مانتا‘ ہمارے آئین اور قوانین کی پابندی نہیں کرتا اور ہمارے علاقوں پر ہماری ریاست کے کنٹرول کو چیلنج کرتا ہے‘ اس کے ساتھ کس بنیاد پر بات کی جائے؟ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک ہے جو ریاست کے باغیوں کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات پر آمادہ ہوا ہو؟ پھر ہمیں یہ سبق کیوں دیا جا رہا ہے؟ پاکستانی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کے ساتھیوں اور اہلِ خاندان پر ایسے بیانات پڑھ کر کیا گزرتی ہو گی؟ آج کل انتخابی مہم چل رہی ہے‘ پاکستانیوں کے قاتلوں کے ساتھ‘ غیرمشروط بات چیت کا مشورہ دینے والے‘ کیا یہ نہیں سوچتے کہ وہ زخم خوردہ پاکستانیوں سے ووٹ مانگنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے 40ہزار سے زیادہ شہری اور 5ہزار سے زیادہ عسکری خدمات انجام دینے والے جوانوں کے گھروں میں آج بھی صفِ ماتم بچھی ہے۔ وہ آج بھی اپنے پیاروں کی شہادتوںکا حساب مانگ رہے ہیں۔ قاتلوں کی حمایت کرنے والے سیاسی لیڈر‘ کس طرح یہ امید کر سکتے ہیں کہ 45 ہزار شہادتوں کے حساب کے انتظار میں بیٹھے لاکھوں پاکستانی انہیں ووٹ دیں گے؟ ان لاکھوں پاکستانیوں کے ملینز ہمدرد‘ دوست اور عزیز‘ اپنے پیاروں کی شہادتوں کو بھول جائیں گے؟ کیا پاکستان میں حُب الوطنی کا کوئی معیار ہے؟ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹوں نے محض اپنی اطاعت کو حُب الوطنی کا نام دے رکھا تھا۔ حکومت کے مخالفوں کو بلا جھجک وطن دشمن قرار دے دینا معمول کی بات تھی۔ مگر آج حالات بدل چکے ہیں۔ عوام اور فوج ایک ساتھ اپنا خون بہا رہے ہیں۔اس مرتبہ فوج اور عوام دونوں کا دکھ ایک ہے۔ دونوں کے قاتل بھی ایک ہیں اور دونوں ہی اپنے وطن کے ایک چھوٹے سے حصّے پر ‘ اپنی ریاست کی حکمرانی بحال کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہ جو مذاکرات کے حق میں کانفرنسیں کر رہے ہیں اور بیانات جاری کر رہے ہیں‘ انہیں کوئی یہ تو پوچھے کہ بے گناہ پاکستانیوں کی جانیں لینے والوں کے ساتھ‘ وہ مذاکرات کا اختیار کس سے حاصل کریں گے؟ کیا فوج ‘ ان کا ساتھ دے گی؟ کیا فوج‘ باغیوں کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کو برداشت کر سکے گی؟ اس طرح کے مذاکرات مفتوح فریق کرتا ہے‘ جس نے دوسرے فریق کی بالادستی مان لی ہو۔ ریاست کی آزادی و خودمختاری سے دستبرداری اختیار کر لی ہو۔ اپنے آئین اور اپنے قوانین کی پامالی گوارا کر لی ہو۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے‘ تووہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔ پاکستانی عوام اور فوج ایسے مذاکرات کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیں گے۔ ان مذاکرات میں طالبان کی شرائط پر بات کرنے والوں کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا اور نہ تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف ہونے والی قانونی کارروائیاں روکی جائیں گی۔ یہ ریاست کے باغیوں اور ریاست کے وفاداروںکی جنگ ہے۔ اس جنگ کا فیصلہ فتح و شکست کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ یا تو طالبان‘ پاکستان کے خلاف بغاوت ختم کر کے‘ ہمارے قانون‘ ہمارے آئین‘ ہماری عدلیہ اور ہماری ریاست کی آزادی و خودمختاری تسلیم کریں۔ ورنہ آخری فیصلے تک جنگ کے لئے تیار رہیں۔ ’’مسلمان مسلمان بھائی بھائی‘‘ کا پُرفریب نعرہ لگا کر دہشت گردی کو تحفظ دینے کی جو کوشش کی جا رہی ہے‘ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔کیا سوویت افواج کی واپسی کے بعد آپس میں افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین مسلمان نہیں تھے؟ کیا عراق اور ایران کی جنگ مسلمانوں کے مابین نہیں تھی؟ کیا شام میں ہونے والی جنگ مسلمانوں کے درمیان نہیں؟ کیا یمن کی جنگ مسلمانوں کے درمیان نہیں؟ ہمیں اپنے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کے مشورے دینے والے‘ اپنا یہ پیغام لے کر وہاں کیوں نہیں جاتے؟ اگر ہم نے اپنی جنگ ایک آزادوخودمختار قوم کی حیثیت سے نہ لڑی‘ تو پھر پندرہ بیس ہزار کا کوئی بھی مسلح گروہ‘ تحریکِ طالبان پاکستان جیسی کارروائیاں کر کے ہمیں جھکا سکتا ہے۔18کروڑ عوام کا ایٹمی ملک اگر چند ہزار دہشت گردوں کے سامنے جُھک سکتا ہے‘ تو وہ بھارت کا مقابلہ کیسے کرے گا؟ شکست خوردہ سوچ رکھنے والوں کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں۔ ---------------